• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جعلی کاغذات پر گاڑیوںکی رجسٹریشن،سرکاری خزانے کو کروڑوں کا نقصان

کراچی(رپورٹ/آغاخالد)محکمہ ایکسائز سندھ میں جعلی کاغذات پر گاڑیوں کی رجسٹریشن کے ذریعے سرکاری خزانے کو کروڑوں روپے نقصان پہنچانے کے باوجود ملوث افراد کیخلاف کئی ماہ گزرنے کے باوجود کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور وہ تاحال سیٹوں پر برقرار ہیں، جبکہ اس حوالے سے ڈائریکٹر ایکسائز نے دعوی کیا ہے کہ کوئی انکوائری کمیٹی بنی ہے نہ اس کا حصہ بنوں گا،تفصیلات کے مطابق سندھ کےمحکمہ ایکسائز میں جعلی کاغذات پر گاڑیوں کی رجسٹریشن کے دو سال کے دوران تیسرے بڑے اسکینڈل کا انکشاف کسٹم ڈیوٹی کی مد میں سرکاری خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان، ملزمان کےخلاف کئی ماہ گزر جانے کےباوجود کارروائی نہیں ہوئی اور اس طرح کروڑوں روپے کا نقصان پہنچانے والے آج بھی اپنی سیٹوں پر برقرار ہیں جبکہ وزیر ایکسائز مکیش کمار چائولہ اور ڈی جی ایکسائز شعیب صدیقی نے اس طرح کے فراڈ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس کے علاوہ بھی ڈیوٹی کی مد میں اور ٹیکسز کی خورد برد کرنے کی شکایات موصول ہوئی ہیں جن کی انکوائری کرائی جاری ہے جبکہ صوبائی وزیر اور ڈی جی ایکسائز کی جانب سے انکوائری سے متعلق کئے جانے والے دعووں کے برعکس انکوائری کمیٹی کے سربراہ ڈائریکٹر ایکسائز شبیر شیخ نے انکوائری کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ نہ کوئی کمیٹی بنی ہے اور نہ میرے علم میں ہے اور نہ ہی میں کسی انکوائری کا حصہ بنوں گا جبکہ کسٹم (ایف بی آر) کے ڈی سی عمران رسول نے جنگ کے رابطہ کرنے پر حال ہی میں منظر عام پر آنے والے فراڈ کے متعلق لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں سندھ حکومت کی جانب سے ابھی تک ایسی کوئی اطلاع نہیں دی گئی تاہم اس سے قبل سندھ ایکسائز میں گاڑیوں کی رجسٹریشن میں ایک فراڈ پکڑا گیا تھا جس کی اطلاع ایکسائز کو دیتے ہوئے ملزمان کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی تھی۔ جنگ کو ملنے والی تفصیلات کے مطابق 17فروری 2017کو 35گاڑیاں لاڑکانہ کی آئی ڈی پر رجسٹرڈ کی گئیں مگر ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ ساری جعلسازی کراچی سوک سینٹر میں قائم ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن (موٹر وہیکل ونگ) کے ہیڈ آفس سے کی گئی جہاں مرکزی کمپیوٹر سسٹم نصب ہے اور پورے صوبے میں ایکسائز کے تمام آن لائن دفاتر کو یہاں سے کنٹرول کیا جاتا ہے، رجسٹرڈ کی جانیوالی تمام گاڑیوں کے کسٹم کے جعلی کاغذات تیار کئے گئے اور اس کے بعد ایک ہی دن میں وزیرستان اور سندھ کھوکھراپار جیسے دور دراز علاقوں کے شناختی کارڈز پر گاڑیاں رجسٹرڈ کی گئیں، رجسٹرڈ کی جانے والی گاڑیوں میں دو کروڑ روپے مالیت کی گاڑیاں بھی شامل ہیں، ایکسائز ڈپارٹمنٹ کی تصدیق کے مطابق ایسی قیمتی گاڑیوں کی رجسٹریشن میں محکمہ کو ایک کروڑ روپے سے زائد ڈیوٹی کی مد میں نقصان اٹھانا پڑا اسی طرح 2016میں بھی ایسی بیسیوں گاڑیاں جن میں افغان ٹرانزٹ اور ایم این ٹی کی گاڑیاں بھی شامل تھیں جعلسازی سے رجسٹرڈ کردی گئی تھیں اس فراڈ کا سراغ ملنے پر ڈائریکٹریٹ جنرل انٹیلی جنس انوسٹی گیشن (ایف بی آر)اینٹی اسمگلنگ کسٹم ریجنل آفس بلاک 6پی ای سی ایچ ایس کراچی کی جانب سے 29اگست 2016کو لیٹر نمبر C.No.161/VII/ASO/2016/2630میں بنام ڈی جی ایکسائز کو اس فراڈ کا انکشاف کرتےہوئے ملزمان کے خلاف کارروائی کیلئے کہا گیا تھا یہ لیٹر ایڈیشنل ڈائریکٹر فرخ سجاد کے دستخط سے جاری ہوا جس میں اس فراڈ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے ملزمان کے خلاف قرار واقعی سزا اور تمام گاڑیوں کو ضبط کرنے کو کہا گیا مگر اس لیٹر کے فوری بعد جن 6افسران اور اہلکاروں کو معطل کیا گیا تھا دو ماہ بعد ہی انہیں بحال کرکے پہلے سے زیادہ بہتر پوزیشن پر تعینات کردیا گیا ۔ جنگ کے پاس موجود ایک اور لیٹر میں جوکہ سیکریٹری ایکسائز عبدالحلیم شیخ کی جانب سے سیکشن آفیسر (بی اینڈ اے) نے 10مئی 2017کو جاری کیا گیا میں 35گاڑیوں کی تحقیقات کے علاوہ ٹیکس کی مد میں توسیع اور ٹیکس کی رقم میں خورد برد جیسے 476دیگر واقعات کی تحقیقات کیلئے بھی 6افسران پر مشتمل کمیٹی قائم کرنے کا حکم دیا گیا جو ڈائریکٹر ایڈمن کی سربراہی میں تحقیقات کریگی، مذکورہ کمیٹی میں ڈائریکٹر ایکسائز لاڑکانہ، ڈائریکٹر میرپورخاص، ڈائریکٹر بےنظیر آباد ، ڈپٹی ڈائریکٹر ہیڈکوارٹر انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی اور سی ایم آئی ٹی کا بھی 18گریڈ کا نمائندہ ممبر ہوگا مگر تین ماہ گزرنے کے باوجود اس کمیٹی کی کوئی میٹنگ نہیں ہوئی یہاں تک کہ ڈی جی ایکسائز شعیب صدیقی کے دعوی کے برعکس کمیٹی کے پہلے سربراہ اور ڈائریکٹر شبیر شیخ نےکمیٹی سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے کسی کمیٹی کے قیام سے ہی انکار کردیا انہوں نے جنگ کے سوال پر کہا کہ انہیں پچھلی کمیٹی کی رپورٹ کی سزا دی جارہی ہے کہ ہیڈکوارٹر میں بغیر پوسٹنگ کے بٹھایا ہوا ہے اور اب کیا میں مزید رسک لوں اور ایک اور رپورٹ بنائوں جس میں چور موجود اور چوری کے سارے ثبوت کی نشاندہی کی گئی ہے جبکہ ڈی جی ایکسائز بضد رہے کہ انہوں نے جو کمیٹی بنائی ہے وہ انکوائری کررہی ہے اور جلد ہی اس کی رپورٹ سامنے آجائیگی جب ان سے پوچھا گیا کہ پچھلی رپورٹ پر جو کارروائی ہوئی وہ معطل کرکے سب کو بحال کردیا گیا اور رپورٹ دبا دی گئی تو انہوں نے سوال کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ ایسا نہیں ہے کارروائی جاری ہے تاہم انہوں نے کہا کہ کارروائی کی رفتار پر اعتراض کیا جاسکتا ہے، جبکہ دوسری جانب ایکسائز کے وزیر مکیش کمارچائولہ نے بھی اس سلسلے میں تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے آنے تک انتظار پر زور دیا اور کہا کہ ہم نے اس انکشاف کے بعد لاڑکانہ اورسندھ کے بعض دیگر شہروں کے آن لائن سسٹم معطل کردیئے ہیں اور انکوائری رپورٹ آنے تک ان کو بحال نہیں کیا جائیگا وہ بضد رہے کہ ابھی تک 22یا 24گاڑیاں جعلسازی سے رجسٹرڈ کرنے کا ریکارڈ مل سکا ہے جب ان کو بتایا گیا کہ جنگ کے پاس 35گاڑیوں کا ریکارڈ موجود ہے جنہیں جعلسازی سے 2016میں رجسٹرڈ کیا گیا تو انہوں نے اس سوال کا معقول جواب نہیں دیااور اس سلسلے میں لاڑکانہ رجسٹریشن ونگ کےانچارج طالب منگریو نے کسی بھی گاڑی کی لاڑکانہ سے غیر قانونی رجسٹریشن کا الزام مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس قانونی طورپر صرف 22گاڑیاں رجسٹرڈ ہوئی ہیں جب ان سے ان کے وزیر مکیش کمار چائولہ کے جواب کے متعلق بتایا گیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں چارج لئے ہوئے ایک ہفتہ ہوا ہے انہیں زیادہ معلوم نہیں اور فون بند کردیاتاہم جنگ کو معلوم ہوا ہےکہ اس سلسلے میں انکوائری کمیٹی کے قیام سے قبل لاڑکانہ کے متعدد افسران کو طلب کرکے ان گاڑیوں کی رجسٹریشن کے حوالے سے سوالات کئے گئے تو وہ مشتعل ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ یہ سارا فراڈ کراچی سے ہوا ہے اور اپنے لاڈلوں کو بچانے کیلئے ہمیں خوامخواہ ملو ث کیا جارہا ہے۔ جنگ کے پاس موجود دستاویزات کے مطابق لاڑکانہ سے ایک ہی دن میں رجسٹرڈ ہونے والی 35گاڑیوں میں نبن کے نام پر ٹویوٹا کرولا 2001 رجسٹرڈ کی گئی ،اسی کے نام پر وٹز 1999ماڈل، اسی کے نام پر پریمیو 2004سیلون، وٹز 2007بھی اسی کے نام پر رجسٹرڈ ہوئی، ارسلان جاویدکے نام پر 2014مارک ایکس،سعود شہزاد کے نام پر مرسڈیذبینز2010، فہیم کے نام بی ایم ڈبلیو2010، تیمور حسین ہنڈا ایکورڈ 2003، وقاص ٹویوٹا پریمیو 2008، فہیم خان مٹسوبشی 2003، آدم خان ٹویوٹا پراڈو2003،آصف رضا ٹویوٹا پریئس 2009، جاوید علی ٹویوٹا سرف 2002،وقاص ٹویوٹا مارک ایکس 2009،ٹویوٹا پراڈو 2006،ٹویوٹا لینڈ کروزر2004 بھی اسی نام پر ہیں، سلطان زیب ٹویوٹا فیلڈر 2001، نبن ٹویوٹا وٹز 2007،ٹویوٹا پریمیو2004، ٹویوٹا وٹز 1999، ٹویوٹا کرولا 2001 بھی اسی نام پر رجسٹر ڈ ہیں، شیر محمد ٹویوٹاسیگنس جیپ 2001، ارسلان جاوید مارک ایکس 2014، سعود شہزاد مرسڈیزبینز 2010، ایم فہیم شیخ بی ایم ڈبلیو 2010 ، تیمور حسین ہنڈا ایکورڈ 2003، ایم وقاص ٹویوٹا پریمیو 2008، فہیم شیخ مٹسو بشی منی پجیرو 2003، آدم خان ٹویوٹا پراڈو 2003،سیف رضا ٹویوٹا پریئس 2009،جاوید علی ٹویوٹا صرف 2002، ایم وقاص ٹویوٹا مارک ایکس2009، ایم وقاص ٹویوٹا پراڈو 2006، ٹویوٹا لینڈ کروزر 2004بھی، شیر محمد ٹویوٹا سیگنس 2001، سلطان زیب ٹویوٹا فیلڈر 2001شامل ہیں۔
تازہ ترین