اسلام آباد:…قومی احتساب بیورو نے 200 سے زائد سیاستدانوں، جنرلوں اور بیوروکریٹس کے آف شور اثاثوں کا سراغ لگانےکے لئے ایک آف شور کمپنی کی خدمات حاصل کی تھیں لیکن یہ تعلق اس وقت مقدمہ بازی پر ختم ہوا جب کمپنی نے نیب پر الزام لگایا کہ اس نے کمپنی کی معلومات کو اپنے مطلوبہ افراد کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لئے استعمال کیا ہے۔ بعد میں نیب نے ایک اور آف شور قانونی فرم ’’ایپل بائے‘‘ کی خدمات حاصل کیں، جس کا ڈیٹا اب افشا ہوگیا ہے۔ اس کمپنی سے تعلق کا مقصد کاؤنسل آف انٹرنیشنل آربیٹریشن میں براڈشیٹ ایل ایل سی کے ساتھ مقدمہ بازی کے حولے سے ماہرانہ مشورہ حاصل کرنا تھا۔
آئیل آف مین میں رجسٹرڈ کمپنی براڈشیٹ ایل ایل سی سے اثاثوں کی بازیابی کے لئے معاہدہ کیا گیا تھا۔ اس آف شور سراغ رساں ایجنسی نے نیب پر الزام لگایا ہے کہ وہ اس کی فراہم کردہ معلومات کو اپنے مطلوبہ افراد کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لئے استعمال کر رہا ہے اور نیب نے تحقیقاتی کمپنی کو وعدے کے مطابق اس کا حصہ ادا نہیں کیا۔ تاہم نیب کے حکام دعوی کرتے ہیں کہ براڈشیٹ کے ساتھ جن معلومات کا تبادلہ کیا گیا تھا وہ قابل عمل نہیں تھیں، اس وجہ سے سراغ رساں ایجنسی کا کام متاثر کرنے والا نہیں تھا جس کے نتیجے میں معاہدہ ختم کر دیا گیا۔ 2014 کے اواخر میں نیب نے ایپل بائے کی خدمات حاصل کیں جس کا مقصد جنوری 2015 میں براڈشیٹ ایل ایل سی بمقابلہ حکومت پاکستان اور قومی احتساب بیورو کے مابین ثالثی کے لئے Manx قانون کے استعمال پر ماہرانہ رپورٹ کی تیاری کرنا تھا۔
جاری مقدمہ بازی کے متعلق دیگر دستاویزات کے علاوہ دی نیوز کے پاس نیب اور براڈشیٹ ایل ایل سی کے درمیان ہونے والا انتہائی خفیہ معاہدہ دستیاب ہے، جس پر جون 2000 میں دستخط ہوئے تھے اور جس کا مقصد 200 سے زائد انٹرنیشنل ایسٹس ریکوری اہداف کی بیرون ملک دولت کا پتہ لگانا تھا۔ ٹارگٹ لسٹ میں سرفہرست نواز شریف اور ان کے اہل خانہ تھے۔ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے علاوہ اس فہرست میں کئی ممتاز سیاستدان شامل تھے، سوائے گجرات کے چوہدریوں کے جو فہرست سے غائب تھے اور اس وقت جنرل پرویز مشرف کے کیمپ میں شامل تھے۔
ان میں سے کچھ نے پیپلز پارٹی چھوڑ کر نیب سے ریلیف حاصل کیا تھا (مرحوم راؤ سکندر، فیصل صالح حیات اور آفتاب شیرپاؤ)اور دیگر کچھ نے پاکستان مسلم لیگ ق میں شمولیت اختیار کر لی تھی(ہمایوں اختراور ہارون اختر)۔ آرمی کے ریٹائرڈ سربراہ (جنرل مرزاسلم بیگ) ایئرفورس کے(انور شمیم اور عباس خٹک) اور نیوی(منصور الحق اور سعید محمد خان) کے علاوہ لیفٹیننٹ جنرل زاہد علی اکبر اور لیفٹیننٹ جنرل فضل حق بھی فہرست میں شامل تھے۔ ان کی کتنی بیرون ملک دولت کا سراغ لگایا گیا اور کتنی برآمد کی گئی وہ معلوم نہیں، سوائے ایڈمرل ریٹائرڈ منصور کے، جنہوں نے پلی بارگین کی تھی۔
اگرچہ براڈشیٹ نے بے نظیر بھٹو، آصف زرداری اور کچھ دیگر اہداف کو شریف خاندان کے ساتھ ملاکر ڈیل کیا تھا لیکن بعد میں ایک اور آف شور کمپنی انٹرنیشنل ایسٹس ریکوری(آئی اے آر) کے ساتھ مل کر الگ انتظام کیا گیا۔ یہ معلوم نہیں ہے کہ آئی اے آر کو کتنے اہداف دیے گئے تھے لیکن براڈشیٹ کو 200 کے قریب اہداف کی فہرست حوالے کی گئی تھی۔ بدعنوانی کے ذریعے حاصل کردہ اثاثوں کی ریکوری کے لئے براڈشیٹ ایل ایل سی سے معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے جس کے تحت اس آف شور کمپنی کو ایسے اثاثوں کی ریکوری اور ان کو تلاش کرنے کے لئے پیشہ وارانہ، مالیاتی اور دیگر وسائل فراہم کرنا تھے۔
اس معاہدے کےتحت اہداف کا انتخاب اس وقت کے چیئرمین نیب ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل امجد کی صوابدید تھا ،معاہدے کے تحت نیب کو یہ بات یقینی بنانا تھی کہ ایسے اثاثوں کی برآمدگی انہیں تلاش کرنے اور قبضے میں لینے کے لئے براڈشیٹ جو طریقہ اور وسائل استعمال کرے گا، نیب اسے خفیہ رکھے گا اور اس کا انکشاف نہیں کرے گا۔ جہاں تک مالی معاوضے کا سوال ہے تو براڈشیٹ کو مطلوبہ افراد سے برآمد ہونےوالی رقم کا 20 فیصد حصہ ملنا تھا، چاہے اثاثوں کا سراغ نیب کی کوششوں کی نتیجے میں ہوا ہو یابراڈشیٹ کی کوششوں کے نتیجے میں ہوا ہو۔
براڈ شیٹ کی پیرنٹ آرگنائزیشن اب نیب کے خلاف عالمی ثالثی میں شریک ہے اور اس نے نیب پر معاہدے کی خلاف ورزی اور معاہدہ غیرقانونی طور پر ختم کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ براڈشیٹ کا بنیادی الزام یہ ہے کہ نیب نے متعدد مطلوبہ اہداف سے خاموشی کے ساتھ معاملات طے کر لیے جبکہ ان افراد کے متعلق معلومات شیئر کی گئی تھیں اور اس پر بھاری رقم خرچ ہوئی تھی لیکن نیب نے بہت کم رقم ادا کی۔ براڈشیٹ نے انٹرنیشنل لیگل فورم میں یہ دلیل دی ہے کہ جب معاہدہ کیا گیا تھا تو جنرل پرویز مشرف نے مالیاتی دیانت داری کو بہتر بنانا چاہا تھا لیکن بدقسمتی سے سیاسی ہوائیں بہت تیزی سے تبدیل ہوگئیں اور 2000 کے آخر میں بدعنوانی کے خلاف یہ مقدس جنگ پسپا ہونا شروع ہوگئی جو اصلاحات کے خلاف ردعمل کا ایک حصہ تھا۔
نیب کے بانی چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل سید امجد اور پہلے پراسیکیوٹر جنرل فرخ آدم خان نے استعفی دے دیا تھا، جس کی وجہ اس وقت کی ناقابل قبول صورتحال تھی کیونکہ نیب کا مشن اثاثوں کی بازیابی سے ہٹ کر بدعنوان عناصر کو بدستور قائم رکھنے میں تبدیل ہوگیا تھا جو بعد میں پاکستانی سیاست میں طاقتور شخصیات کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے۔ کمپنی نے الزام لگایا ہے کہ نیب نے براڈشیٹ کے علم میں لائے بغیر اور اہداف سے حاصل ہونے والی اس کی فیس ادا کیے بغیر متعدد مطلوبہ اہداف سے پلی بارگین کی اور معاملات طے کرلیے۔
ایک مثال میں براڈشیٹ نے آئیل آف جرسی میں تقریبا پانچ ملین ڈالر منجمد کیے جو ایک شناخت شدہ ہدف کے تھے لیکن نیب نے کیس کی پیروی ہی روک دی۔ ایک اور مثال میں نیب نے براہ راست ہدف کے ساتھ معاملات طے کرلیے جس کی ویلیو 25 ملین ڈالر تھی لیکن براڈشیٹ کو اس کا کمیشن معاہدے کے مطابق دینے سے انکار کردیا۔متعدد برسوں میں اس کے تمام کاموں کے عوض براڈشیٹ کو صرف ایک چھوٹی سے فیس ادا کی گئی جو ایڈمرل منصور الحق سے ریکوری کے سلسلے میں تھی، جو فہرست میں موجود اہداف میں سے ایک تھے اور جو رقم ادا کی گئی وہ ممکنہ طور پر اس سے کہیں کم تھی جو معاہدے کی شرائط کے تحت ادا کی جانی تھی۔