• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما اور پیراڈائز لیکس کے منظر عام پر آنے سے بہت پہلے 1997ء میں اسلام آباد میں متعین امریکی قونصل جنرل نے دو مرتبہ کہا تھا کہ پاکستان سے 100؍ارب ڈالر لوٹ کر بیرونی ملکوں میں منتقل کردئیے گئے ہیں اور اگر یہ رقوم واپس مل جائیں تو پاکستان نہ صرف اپنے تمام بیرونی قرضے ادا کرسکتا ہے بلکہ آئندہ بھی بیرونی قرضوں سے بے نیاز ہوسکتا ہے۔ نگراں وزیر اعظم ملک معراج خالد نے کہا تھا کہ انہیں عالمی مالیاتی اداروں نے بتلایا ہے کہ پاکستان جوبیرونی قرضے حاصل کرتا ہے ان کا ایک بڑا حصہ پاکستان سے باہر مغربی ممالک کے بینکوں میں پاکستانیوں کے ذاتی کھاتوں تک پہنچ جاتا ہے۔ اس سے قبل امریکہ کے وال اسٹریٹ جرنل میں ان کئی سو پاکستانیوں کی فہرست شائع ہوئی تھی جنہوں نے پاکستان سے باہر بینکوں میں کھاتے رکھے ہوئے ہیں۔ ہم ان ہی کالموں میں گزشتہ 19؍برسوں سے کہتے رہے ہیں کہ اگر مقتدر حلقے اس بات میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ ملک سے لوٹ کر جو دولت پاکستان سے باہر منتقل کی گئی ہے وہ واپس ملے تو پہلے ان ناجائز اثاثوں پر ہاتھ ڈالنا ہوگا جو ملک کے اندر موجود ہیں (یعنی ملکی پاناماز)۔ ہم نے یہ بھی لکھا تھا کہ ’’یہ بات کوئی راز نہیں کہ اربوں روپے کے ایسے اثاثے بھی ملک کے اندر موجود ہیں جو قومی دولت لوٹ کر بنائے گئے ہیں لیکن ان کی قومی خزانے میں واپسی کے لئے حکومت بوجوہ مؤثر قدم نہیں اٹھا رہی‘‘۔ (جنگ 14؍اپریل 1998ء) ہم ان ہی کالموں میں گزشتہ 18؍برسوں سے وقتاً فوقتاً لوٹی ہوئی دولت کو واپس پاکستان لانے کی حکمت عملی کا خاکہ بھی پیش کرتے رہے ہیں جو بہت طویل اور صبر آزما کام ہے لیکن پاناما لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد سے ہم یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ اس ضمن میں کرنے کے جو اہم کام ہیں ان میں سے تین یہ ہیں:۔
(1) ایسی قانون سازی کی جائے جس کے تحت ٹیکس چوری اور لوٹی ہوئی دولت کی ملک سے باہر منتقلی کو روکا جاسکے چنانچہ انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 111(4) کو منسوخ کیا جائے۔
(2) ناجائز دولت سے بنائے ہوئے ملک کے اندر موجود اثاثوں پر فوری طور پر ہاتھ ڈالا جائے۔
(3) کھلی منڈی سے خریدی ہوئی بیرونی کرنسی کو بینکوں کے ذریعے ملک سے باہر منتقل کرنے پر پابندی عائد کردی جائے۔
یہ ملک و قوم کی بدقسمتی ہے کہ مندرجہ بالا اقدامات اٹھانے سے اجتناب کیا جارہا ہے کیونکہ ان سے طاقتور طبقات کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ ہم نے اپنے 4؍مئی 2017ء کے کالم میں لکھا تھا:
(i) تحریک انصاف کو پاناما لیکس کے اپنے مقدمے میں سپریم کورٹ سے یہ درخواست بھی کرنا چاہئے تھی کہ اصل مقدمے کی شنوائی سے پہلے قانون اور انصاف کی خاطر مندرجہ بالا تینوں امور پر فوری احکامات جاری کئے جائیں۔
(ii) اگر سپریم کورٹ ازخود نوٹس لے کر پہلے دو امور پر فیصلہ صادر فرماتی تو چند ماہ کے اندر ناجائز دولت کا ایک حصہ قومی خزانے میں واپس آجاتا، ناجائز دولت کی ملک سے باہر منتقلی کا سلسلہ سست ہو جاتا، ناجائز دولت کو قانونی تحفظ ملنا بھی آسان نہ رہتا اور بہت سے بدعنوان عناصر کی نشاندہی بھی ہوجاتی۔
یہ بات دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ 30؍جون 2017ء کو پاکستان میں بینکوں کے مجموعی ڈپازٹس، قومی بچت اسکیموں میں کی گئی سرمایہ کاری اور کراچی اسٹاک ایکسچینج کے حصص کی مالیت کا مجموعی حجم تقریباً 24500؍ارب روپے ہے۔ اس کے علاوہ حکومتی تمسکات وغیرہ میں بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ یہی نہیں، کئی ہزار ارب روپے کی مالیت کی جائیدادیں اورگاڑیاں وغیرہ بھی لوگوں کی ملکیت میں ہیں۔ ان تمام اثاثوں کا ایک خاصا بڑا حصہ ٹیکس چوری، لوٹی ہوئی دولت اور دوسرے ناجائز ذرائع سے حاصل کی ہوئی رقوم سے بنایا گیا ہے۔ ان اثاثوں کے مالکان کے نام مع قومی شناختی کارڈ نمبر ریکارڈ میں موجود ہیں۔ اگر حکومت اور محکمہ انکم ٹیکس چاہے تو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے ان اثاثوں سے قانون کے مطابق نمٹ کر نہ صرف ٹیکسوں کی مد میں تقریباً دو ہزار ارب روپے کی وصولی ہوسکتی ہے بلکہ احتساب کے تقاضے بھی بڑی حد تک پورے کئے جاسکتے ہیں۔
یہ بات بھی حیرت سے پڑھی جائے گی کہ ایک طرف ریاست کے اہم اداروں بشمول اعلٰی عدلیہ اور قوم کی توجہ پاناما لیکس کے مقدمے پر مرکوز ہے مگر دوسری طرف 7؍دسمبر 2016ء کو چاروں صوبوں کی عملی معاونت سے وفاقی حکومت نے انکم ٹیکس ترمیمی ایکٹ کا اجراء کیا ہے جس کے تحت کوئی بھی شخص ایک طے شدہ فارمولے کے مطابق برائے نام ٹیکس ادا کرکے ناجائز دولت سے پاکستان میں جائیدادیں خرید سکتا ہے اور ایف بی آر خریدار سے یہ پوچھنے کا مجاز نہیں ہوگا کہ اس کے پاس یہ رقم کہاں سے آئی ہے۔ یہ یقیناً ایک قومی المیہ ہے کہ جائیداد سیکٹر ٹیکس چوری اور لوٹی ہوئی دولت کو محفوظ جنت فراہم کرنے کا بڑا ذریعہ ہے اور صرف 7؍دسمبر 2016ء کو پراپرٹی کے لئے جاری کردہ ایمنسٹی اسکیم سے قومی خزانے کو اب تک تقریباً 50؍ارب روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔ اس اسکیم کا اجرا اس لئے ممکن ہوسکا کہ چاروں صوبے غیرمنقولہ جائیدادوں کے ’’ڈی سی ریٹ‘‘ مارکیٹ کے نرخوں کے برابر لانے کے لئے تیار نہیں ہیں کیونکہ اس سے طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات متاثر ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ تحریک انصاف واحد سیاسی پارٹی ہے جس نے اپنے 2013ء کے انتخابی منشور میں ’’ڈی سی ریٹ‘‘ کو مارکیٹ کے نرخوں کے برابر لانے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ یہ اسکیم دراصل ایک مالیاتی این آر او ہے چنانچہ غیرآئینی ہے۔
سپریم کورٹ نے بینکوں کے قرضوں کی غلط طریقوں سے معافی کی سماعت کے دوران اب سے 8؍برس قبل کہا تھا کہ قرضے معاف کرواکر دولت بنائی گئی جو ملک سے باہر پہنچائی گئی، چنانچہ قومی دولت واپس لانے کے لئے عدالت کسی حد تک بھی جاسکتی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے 2011ء میں اپنے ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں قرضوں کی معافی کے ضمن میں ایک کمیشن بھی بنایا تھا جس نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ کو ہی پیش کردی تھی لیکن اب تک کوئی کارروائی ہوئی ہی نہیں حالانکہ رپورٹ جنوری 2013ء میں پیش کی گئی تھی۔
یہ امر باعث پریشانی ہے کہ ایک طرف پاناما لیکس کےمعاملے کو اوڑھنا بچھونا بنالیا گیا ہے جبکہ دوسری طرف ’’ملکی پاناماز‘‘ پر تو کیا ہاتھ ڈالا جاتا، الٹا ’’نئے ملکی پاناماز‘‘ بھی بن رہے ہیں جن میں سے کچھ کو قانونی تحفظ بھی حاصل ہے۔ یہی نہیں، ملک سے سرمائے کے فرار کا سلسلہ بھی بدستور جاری ہے۔ پاکستانی معیشت خطرات کی زد میں ہے جو فوری نوعیت کے نہیں ہیں لیکن آج کل جو کچھ ہورہا ہے اس کے تباہ کن نتائج اس وقت سامنے آئیں گے جب دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر لڑی جانے والی جنگ میں امریکہ کو پاکستان کی معاونت کی ضرورت مزید کم ہوجائے گی۔

تازہ ترین