• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حضرت علامہ اقبال نے 1928میں افغانستان کی وزارت تعلیم کو ایک خط لکھا ، جس میں اس بات پر زور دیا کہ وہ شاعر،حکیم، مفکر و فلسفی خوشحال خان خٹک کی تعلیمات کو عام کرنے کی اہمیت کا ادراک کرے۔ اُس وقت افغانستان میں ترقی پسند غازی امان اللہ کی حکومت تھی۔ جب اُنہوں نے   اپنی اصلاحات کو عملی جامہ پہنانا شروع کیا تو فرنگی استعمار نے پیروں اور مذہب فروشوں کا ایسا گٹھ جوڑ بنایا کہ 17جنوری 1929کو غازی امان اللہ کو افغانستان چھوڑ کر اٹلی میں پناہ لینی پڑی۔ اس صورت حال پر حضرت اقبال انتہائی رنجیدہ ہوئے اور دل سے یہ دعا نکلی۔
خورشید ! سرا پردئہ مشرق سے نکل کر
پہنا مرے کوہسار کو ملبوسِ حنائی
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک صدی قبل اگر امان اللہ خان کے ترقی پسند اصلاحات بروئے کار آجاتے تو نہ صرف یہ کہ آج افغانستان ترقی یافتہ ملک ہوتا بلکہ اس کا پڑوس بھی خوشحالی و ترقی سے بہرہ مند ہوتا۔حضرت اقبال نے اسی خاطر تو خبردار کیا تھا کہ افغانستان بے قرار ہوگا، تو پورا ایشیا قرار کیلئے ترسے گا۔ بہر کیف یہاں ہم عرض یہ کرنا چاہتے ہیں کہ کس طرح حضرت اقبال ایک جدت پسند غازی امان اللہ خان سے توقعات وابستہ کئے تھے اور یہ کہ وہ خوشحال خٹک کی تعلیمات کو عام کرنے کے کس قدر آرزو مند تھے۔پروفیسر پریشان خٹک کی تاریخ ’پشتون کون‘ کے مطابق میجرراورٹی نے خوشحال بابا کی کتابوں کی تعداد ڈھائی سو بتائی ہے جب کہ بابا پر پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرنے والی خدیجہ فیروز الدین کے مقالے میں یہ تعداد ساڑھے تین سو ہے۔ اب ایسی شخصیت جس کی شعوری زندگی کا ایک پل بھی جنگ بالخصوص مغل امپائر کے خلاف مزاحمت کے بغیر نہ گزرا ہو، وہ نہ صرف یہ کہ اتنی کتابیں تخلیق کرے، بلکہ سیاست، سیادت، شکار، حکمت اور سب سے بڑھ کر رومانوی دنیا بھی آباد رکھے، کس قدر خداداد صلاحیتوں کا مالک ہوگا۔ فارغ بخاری کے مطابق میجر راورٹی نے 1862میں گلشن روہ، کے نام سے خوشحال خٹک کے 100نظموں کا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا، علامہ اقبال اس ترجمے کی وساطت سے اس نابغہ روزگار شخصیت سے متعارف ہوئے۔ غور فرمائیں! حضرت اقبال نے خوشحال بابا کی صرف 100نظموں کا مطالعہ فرمایا اور محض 100نظموں میں ایسے خوشحال کو پالیا ، جو علم و فن اور قول وعمل میں عالمگیر ہے۔ میر عبدالصمد صاحب کی تحقیق ’خوشحال اور اقبال‘ کے مطابق نثر میں علامہ اقبال نے ماسوائے خوشحال خان کے، کسی اور شاعر کی تعریف نہیں کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں حضرت علامہ جاوید نامہ میںبابا کی حق گوئی بے باکی اور افغان شناسی کا کس قدر شاندار احاطہ کرتے ہیں۔
خوش سرود آں شاعرِ افغاں شناس
آنکہ بنید،باز گوید بے ہراس
آں حکیم ملتِ افغانیاں
آں طبیب علتِ افغانیاں
خوشحال بابا کا مزار نوشہرہ میں ہے۔ آپ نے وصیت کی تھی کہ میری قبر ایسی جگہ بنائی جائے ، جہاں مغل شہسواروں کے گھوڑوں کی اُڑتی دھول بھی نہ پہنچے۔حضرت اقبال نے اس وصیت کو خوشحال کی وصیت کے زیر عنوان بال جبرئیل کی زینت بنا کر امر کردیا۔
قبائل ہوں ملت کی وحدت میں گُم
کہ ہو نام افغانیوں کا بلند
محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستار وں پہ جو ڈالتے ہیں کمند!
کہوں تجھ سے اے ہم نشیں دل کی بات
وہ مدفن ہے خوشحال خان کو پسند
اڑا کر نہ لائے جہاں بادِ کوہ
مغل شہسواروں کی گرد ِ سمند!
خوشحال بابا متنوع صفات کے مالک تھے ۔پروفیسر ڈاکٹر یار محمد مغموم خٹک’ کلیا ت خوشحال‘ میں’ خوشحال کا سائنسی فہم‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں کہ خوشحال بابا ہر قسم کے تغیرات سے متعلق سائنسی شعور رکھتے تھے۔ پھر وہ سائنس کے مختلف شعبوں سے متعلق بابا کے متعدد اشعار کا حوالے دیتے ہیں۔ خاص کر ڈاکٹر صاحب Lunar eclipse(چاند گرہن ) فزکس سے متعلق Sound waves، کے علاوہ جغرافیہ سے متعلق اشعار صفحہ 133تا 135 نقل کرتے ہیں۔ سائنس کے شعبہ طب کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں تو بابا نے علیحدہ سے ایک کتاب ’طب نامہ‘ تخلیق کی ہے۔ جبکہ ’باز نامہ‘ میں آپ نے پرندوں کے علاج معالجہ کے لئے طریقہ کار اورادویات تجویز کی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق خوشحال بابا کے کلام میں موسموں کے حالات، دن و رات کی بندھی ہوئی وارداتیں، سورج، چاند، ستاروں سے متعلق بصیرت افروز حکمت کی باتیں بیان کی گئی ہیں۔ اپنی ایک شاہکار نظم میں خوشحال بابا نے بارہ مہینے، بارہ برج، پھر تین برج اور اس سے وابستہ چار موسموں کا لطیف پیرائے میں اظہار کیا ہے۔ کلیات خوشحال بابا کے مطابق ڈاکٹر قاضی حنیف اللہ نےاپنے پی ایچ ڈی مقالے ’’پشتو شاعری میں سائنسی شعور اور اظہار میں ‘‘ایڈ منڈ ہیلیEdmund halley) )اور ان کے دمدار تارے کا ایک اہم انکشاف ‘‘ کے عنوان پر ایڈمنڈہیلی اور خوشحال بابا کے مشاہدے کا موازنہ کیا ہے۔ قاضی حنیف اللہ کا کہنا ہے کہ انگریز ماہر فلکیات ایڈمنڈہیلی نے نیوٹن کے کشش ثقل کے قانون کے مطابق  یہ حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کی تھی کہ تارے مقررہ وقت میں کتنا فاصلہ طے کرتے ہیں۔ 1682میں  ان پر ایک دم دار تارا منکشف ہوا۔ایڈمنڈ ہیلی کا کہنا تھا کہ COMET(دمدار تارا) 76برس کے بعد نمودار ہوتا ہے اور پیش گوئی کی تھی یہ تارہ 1742 میں پھر نمودار ہوگا ۔مغرب و یورپ نے یہ دم دارتارا (Comet)ہیلی سے منسوب کردیا۔ محقق ڈاکٹر قاضی حنیف اللہ کے مطابق ایڈمنڈ ہیلی اور خوشحال خٹک کا زمانہ ایک ہی تھا۔ہیلی نے یہ دم دار تارا 1682میں دیکھا تھا اور خوشحال بابا نے بھی اس دوران اس دم دار تارے کا ذکر اپنے کلام میں کیا۔محقق نے اپنے مقالے کے صفحہ 181سے 183میںاس کی تفصیلات اور خوشحال بابا کے وہ اشعار دئیے ہیں جن میں بابا COMETیعنی اس دم دار تارے کی تمام تر حیران کن تفصیلات بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نےایک دم دار تارا دیکھا، لوگ کہتے ہیں کہ یہ وبا، قحط یا قیامت کی نشانی ہے، میں کہتا ہوں کہ یہ قیامت کی نشانی نہیں ہے،اس کے اسرار ورموز تو صرف دانا ہی جانتے ہیں۔ہمارا موضوع سیکولر ازم پر بابا کے افکار تھے،بات سائنس کی چل نکلی۔ خداوند کریم نے موقع دیا تو اگلے کالم میں بابا کے کلام کے تناظر میں سیکولرازم پر بات کرینگے ۔نیز اس پر بھی سوال اُٹھائینگے کہ جب حضرت اقبال جدت پسند افغان حکمران امان اللہ خان کو امیدوں کا مرکز گردانتے تھے،اور سازشوں کے بعد اُن کی معزولی کے خلاف میدان عمل میں آ گئے تھے، یہاں تک کہ حضرت علامہ نے ’پیام مشرق‘کا انتساب بھی اسی جدت و ترقی پسندامان اللہ خان کے نام کیا،تو پھر پاکستان میں وہ کون ہیں جو حضرت علامہ کی تعلیمات کے برعکس ہمیشہ سےاُن عناصر کے پشتی بان ہیں جو افغانستان میں اندھیروں کا راج چاہتے ہیں۔

تازہ ترین