• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Karachis Parsi Community

کراچی میں قیام پاکستان سے پہلے مسلمانوں، ہندوؤں ،عیسائیوں ، یہودیوں ، جین ، سکھ اورپارسی آباد تھے لیکن قیام پاکستان کے بعد ہجرت کے سفر میں پہلے پہل ہندوآبادی کراچی سے نکلی پھر دیگر اقلیتوں نے بھی دوسرے ممالک کا رخ کیا۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ آج بھی ہمارے شہر میں اقلیتیں بستی ہیں ۔ان کو اکثر عدم تحفظ اور وسائل کی کمی کا بھی سامنارہتا ہے ۔لیکن پارسی کمیونٹی کو کبھی نامناسب حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔دنیا کے قد یم ترین مذاہب میں سے ایک پارسی مذہب کے پیرو کار کم و بیش ہزارسال پہلے ایران سے نکل کر سندھ ، ممبئی اور مہاراشٹر منتقل ہوئے ۔

Parsi-Community_01

یہ اس کمیونٹی کی خوبی رہی ہے کہ جہاں بسے وہاں اپنی سماجی خدمات کے ذریعے انمٹ نقوش چھوڑدیئے، چاہے وہ ممبئی ہویا کراچی، معمار کراچی کہلائی جانے والی پارسی کمیونٹی نے اپنی جائے پیدائش کا حق اس خوبصورتی سے ادا کیا کہ آج بھی اہل کراچی ان کے قائم کئے گئے سماجی خدمت کے اداروں سے فیض پا رہے ہیں ۔

شہر کراچی کو بہترین ٹائون پلاننگ دی ۔ پرانے کراچی نکل جائیں، صدرسے لے کر کلفٹن تک ہر موڑ پر کوئی نہ کوئی حسین تعمیری شاہکار آپ کے قدم روکے گا۔ چاہے وہ جہانگیر کوٹھاری پریڈ ہو یا کائوس جی بلڈنگ ۔

Parsi-Community_04

کاوس جی کے والد ، رستم فقیرجی کائوس جی کی بنائی ہوئی یہ بلڈنگ کراچی کی قدیم ترین عمارت کہلاتی ہے۔ پاکستان کی سب سے پرانی شپنگ کمپنی کا اعزاز بھی کاوس جی گروپ کو حاصل ہے۔اور خود اردشیر کائوس جی نے اپنے قلم کے ذریعے کراچی کے بیٹے ہونے کا حق جس خوبی سے نبھایا وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔

ہوٹل انڈسٹری کی بات کریں تو قد آور شخصیت بہرام ڈی آواری کے دم قدم سے ہی کراچی کے بڑے ہوٹلز چل رہے ہیں، جیسے بیج لگژری ، پی سی اور آواری ہوٹل ۔ آج بھی عام آدمی ایک صدی قبل قائم کئے گئے بہرام باغ یا جہانگیر پارک میں بیٹھ کر سکون پاتا ہے۔

Parsi-Community_02

اس کمیونٹی کی تعلیمی خدمات کوئی ایک ہوں تو گنوائیں بھی۔ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بیٹا ، بی وی ایس میں ہو تو بیٹی ماما پارسی سے لے نکل کر ڈاو یونی ورسٹی یا این ای ڈی یونی ورسٹی پہنچے ۔

صحت مند کراچی کی فکر میں اس کمیونٹی کے کارناموں کی شروعات یقینا لیڈی ڈیفرن اورپارسی ہسپتال کے ساتھ جمشید نسروان جی ڈسپنسری اورگل بائی میٹرنٹی ہوم سے ہوئیں۔حالیہ دہائیوں میں کمیونٹی کے فلاحی کاموں کا یہ سلسلہ سست ضرور ہوا ہے لیکن آج بھی SIUT ہو یا انکل سریا ہسپتال ، عام آدمی ان ہسپتالوں سے صحت کی سہولیات حاصل کر رہا ہے ۔

پارسی لوگوں کا طرز زندگی سادگی بھرا ،گجراتی انداز ہے۔بہت کھلے ذہن کے ماڈرن ،تعلیم یافتہ مگر کچھ چھپے چھپے سے انداز رکھتے ہیں ۔اپنی کمیونٹی کے ساتھ اپنی ہی کالونیوں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ جیسے پارسی کالونی ، صدر ،گارڈن اور پاکستان چوک ۔

Parsi-Community_05

اب سوال یہ ہے کہ یہ سب ماضی کے حصے ہیں۔ آج پاکستانی پارسی کمیونٹی کہاں ہے ، کیا سوچتی ہے؟ اور کیوں پاکستان میں ان کی آبادی میں مسلسل کمی آرہی ہے؟ اعداد و شمار کے مطابق پہلے پہل ان کی تعداد دس ہزار سے پانچ ہزار تک کم ہوئی اور اب یہ تعداد ایک ہزار سے بھی گھٹ چکی ہے

لیکن اچھی بات یہ کہ 2014ء میں نادرا کے اعداد و شمار کے مطابق4020 پاکستانیوں کا مذہب پارسی یا زورونسٹیرین ہے۔

Parsi-Community_03

پارسی کمیونٹی کی سب سے بڑی آباد ی بھارت میںرہتی ہے اور اس کے بعد ایران کا نمبرآتا ہے ۔ نقل مکانی کا یہ رجحان بھارت اور ایران میں بھی ہے ۔ یعنی بہتر روزگار اور روشن مسقبل کی تلاش میں ان ممالک سے بھی پارسی افراد مغرب کا رخ کر رہے ہیں۔ خودبھارت میں اس کمیونٹی کی بیرون ملک منتقلی کی شرح 21 فیصد تک جا پہنچی ہے۔

عام خیال ہے کہ پوری دنیا میں ہی پارسی کیمونٹی کی آباد ی میںکمی آئی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ خاص کر یہ دنیا کے ان چند مذاہب میں سے ایک ہے ،جس کو اختیار نہیں کیا جاسکتا بلکہ صرف پارسی والدین سے ہی منتقل ہو سکتا ہے۔ پھر دوسری اہم بات کہ پارسی مذہب میں غیر پارسیوں سے شادی کی اجازت نہیں۔

پھر اعلیٰ تعلیمی پس منظر کے ساتھ بہتر روزگار بھی دیر سے شادی کی وجہ بنتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کمیونٹی کی شرح پیدائش میں بھی واضح کمی آئی ہے ۔ اور اب پارسی یا زورویسٹرین مذہب دنیا کے ان چند قدئم مذاہب میں شامل ہے، جن کی آبادی میں تیزی سے کمی آئی ہے ۔

Parsi-Community_06

زورویسٹیرین نارتھ امریکن ایسوسی ایشن کے جائزے کے مطابق 2020 میں اس کمیونٹی کی تعداد گھٹ کر ایک لاکھ 23ہزار سے 90ہزار کے درمیان رہ جائیگی۔

اکیانوے سالہ مسڑپرویز اس بارے میں کہتے ہیں کہ ہماری آبادی میں کمی ضرور آئی ہے ۔پہلے غیر پارسی سے شادی کرنے والے کو کمیونٹی کا حصہ نہیں سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اب کہیںکہیں یہ تبدیلی آئی ہے کہ غیر برادری میں شادی کرنے والے مردوں کو کیمونٹی کا حصہ تسلیم کر لیتے ہیں لیکن بیٹی کوابھی بھی یہ حق نہیں دیا جاتا۔

ـ" تیری میری جوڑی کے پپا " اور معروف اداکار" ادئیر واڈیا" کا بھی یہ ہی کہنا ہے کہ سب مانتے ہیں کہ پارسی کمیونٹی کے لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ ، کاروباری ، مہذب ،امن پسند اور اپنی ہی کمیونٹی میں رہنے والے ہیں۔

ادئیر واڈیا مزید بتاتے ہیں کہ "پارسی کمیونٹی کراچی کا مثبت چہرہ ہے ۔ ہم یہاں اس طرح رچ بس گئے ہیں کہ بہت سوںسے بڑھ کر" کراچی والے" لگتے ہیں۔

اٹھاسی سالہ کیٹی آنٹی کا خاندان بھی قیام پاکستان سے پہلے ہی بھارتی شہر جودھ پور سے کراچی منتقل ہو گیا تھا ۔وہ کراچی میں ہی پلی بڑھیں ۔ ماما پار سی اسکول سے میٹرک کرتے ہی ان کی شادی ہوگئی ۔ مسکراتی ہوئی کیٹی آنٹی نے بتایا کہ آج ان کی شادی کو ساٹھ سال سے زیادہ کا عرصہ گزرچکا ہے

جلدی شادی کا فائدہ ہے کہ اب وہ اپنی تیسری نسل یعنی "پڑپوتی" کو پروان چڑھتے دیکھ رہی ہیں۔ نئی نسل کیلے ان کا مشورہ ہے کہ جلد شادی کریں۔ ساتھ ساتھ اپنے کیرئیر پر بھی توجہ دیں۔

انھوں نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ امریکا اور کینیڈامنتقل نہیں ہوئے ۔ کیونکہ ہم پاکستان میں ہی رہ سکتے ۔ ہاں بچوں سے ملنے جاتے ۔لیکن امیگریشن کائونٹر پر پہنچ کر جب پاکستانی پاسپورٹ دکھاتی ہوں، تو نا مناسب رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمیں اپنی امیج بلڈئنگ پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

پارسی کمیونٹی کی نئی نسل پاکستان کے بارے میں کیا سوچتی ہے ؟ نیریس سائرس مکو ،ایک نوجوان پاکستانی نژاد کینیڈین ہیں۔ اور کینیڈا میں تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں ، اپنے خاندان سے ملنے پاکستان آئے ہوئے تھے۔

سائرس نے بتایاکہ" پاکستان میں روزگارکی کمی ہے ،ہماری کمیونٹی میں سب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ بہتر روزگار اور اچھے مسقبل کے لئے مغرب کا رخ کرنا پاکستان میں عام بات ہے ۔پارسی نوجوان بھی پہلے پہل تعلیم کے لئے پھر بہتر روزگار کی وجہ سے وہیں سکونت اختیار کر لیتے ہیں ۔

سائرس کا مزید کہنا تھا کہ پہلے سکیورٹی بڑا مسئلہ نہیں تھا لیکن ماحول بدلا ہے۔ اس لئے محتاط ہونا ایک فطری عمل ہے۔ یہ بھی ہے کہ نئی نسل اب فلاحی کاموں کے بارے میں وہ اپنے بڑوں کی طرح نہیں سوچتے لیکن اپنی کمیونٹی سے جڑا رہنا چاہتے ہیں۔

ہمارے ملک کے امن وامان کی صورتحال پہلے سے بہتر ہے ۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم غیر مسلم آبادی کو تحفظ فراہم کریں۔ پارسی کمیونٹی ایک بہترین کاروباری چہرہ اور صدیوں پرانی تہذیبی تنوع کا حصہ ہیں۔

ہم چاہتے ہیں کہ ان کی نئی نسل بھی اپنی مٹی سے تعلق کو برقرار رکھے۔ مشاہدے میں یہ بات آئی کہ پارسی کمیونٹی گفتگو کرنے، تصاویر کھچوانے اور گھلنے ملنے میں محتاط نظر آتی ہے ۔ یہاں تک ، صدر میں واقع پارسی آتش کدہ یا اگیاری " ـپارسی دار مہر " پر سے اس کا نام ہٹا دیا گیا ہے۔

 

تازہ ترین