• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Islamabad Was In 152 Days Siege In 5 Years

مورچہ بند پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد 14جنوری 2013ء سے اب تک یعنی 58 مہینوں کے دوران تین بڑے دھرنوں کے نتیجے میں 152 دن حقیقی معنوں میں ’’محاصرے‘‘ میں رہا۔

مذہبی اور سیاسی دونوں قسم کی تنظیموں کے باغیانہ ہجوم نے ناصرف پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کو دھمکیاں دیں بلکہ ان کی وجہ سے پارلیمنٹ ہائوس‘ سپریم کورٹ آف پاکستان‘ ایوان صدر‘ وزیراعظم ہائوس‘ ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن وغیرہ جیسی حساس عمارات بھی خطرات کی زد میں رہیں اور ان تینوں یورشوں میں یہی صورتحال رہی۔

Sit-In_L2

اکتیس اگست 2014ء کو پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے آزادی مارچ کے دوران مظاہرین کا ایک مجمع جیو نیوز کے دفاتر کے باہر جمع ہو گیا اور اس پر پتھرائو کیا۔

ستمبر 2014ء میں ایک بار پھر جیو نیوز دفاتر پر حملہ ہوا‘ یہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کا دارالحکومت میں جیو بلڈنگ پر چوتھا حملہ تھا جس میں 150 کارکن مختلف گروپوں میں آئے اور ملک کے سب سے بڑے میڈیا ہائوس پر سنگ باری کی ۔ جیو ٹی وی کا عملہ بمشکل ایک راستے سے نکل کر محفوظ مقام پر پہنچا۔

چیئرمین پاکستان عوامی تحریک ڈاکٹر طاہر القادری اسلام آباد میں ہونے والے ان تین میں سے دو دھرنوں میں موجود تھے اور کیا معلوم ان کے پیروکار تحریک لبیک اور سنی تحریک کے اس دھرنے میں بھی شامل ہوں جنہوں نے تا حال لاہور کے کچھ حصوں میں احتجاج ختم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

دھرنا ختم کرنے سے انکار کرتے ہوئے تحریک صراط مستقیم کے بانی ڈاکٹر اشرف آصف جلالی کا‘ میڈیا اطلاعات کے مطابق کہنا ہے کہ ان کی تنظیم کا دھرنا تحریک لبیک سے اظہار یکجہتی کیلئے تھا اس لئے وہ فیض آباد راولپنڈی میں دھرنے کے اختتام کی شرط میں شامل نہیں ۔

پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کے استعفے اور سنی علماء کی عدالت کے روبروان کی پیشی کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ مشتعل مظاہرین ختم نبوت کلاز میں ترمیم کی تجویز میں شامل تمام ارکان پارلیمنٹ کی نا اہلی کے ساتھ ساتھ حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے کھیلنے کے ’’ماسٹر مائنڈ‘‘ کا نام بتائے۔

جنوری 2013ء کے بعد سے اسلام آباد میں ہونے والے تین دھرنوں کی مختصرتاریخ14سے 17جنوری 2013ء تک عوامی تحریک کی طرف سے لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ کیا گیا جس کے بعد حکومت نے قادری سے مذاکرات پر اتفاق کیا جو انتخابی اصلاحات‘ قومی و صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل اور ملک کا الیکشن کمیشن تورنے کا مطالبہ کر رہے تھے‘ اگرچہ قادری بلٹ پروف کنٹیٹر سے پی پی پی حکومت کی کرپشن اجاگر کر رہے تھے تاہم انہوں نے قبل ازا انتخابات عبوری حکومت کے قیام کا بھی مطالبہ کیا۔

یاد رہے کہ 2008ء سے 2013ء کے درمیان کرپشن کے مختلف سیکنڈلز سامنے آنے سے پی پی پی حکومت کے امیج کو شدید نقصان پہنچا۔اس وقت سپریم کورٹ نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر زور دیا کہ وہ سوئس حکام کو خط لکھیں تاکہ الپائن ملک کے بینکوں میں صدر آصف زرداری کے رکھے گئے 6 کروڑ ڈالر واپس لائے جا سکیں۔ گیلانی نے عدالت سے انحراف کیا جس پر ان پر توہین عدالت لگائی گئی اور نتیجتاً فاضل عدالت نے انہیں گھر کا راستہ دکھا دیا۔

جنوری 2013ء میں وفاقی دارالحکومت میں سکول اور لانگ مارچ کے راستے پر موجود کاروبار چار دن بند رہے اور اسلام آباد بھرمیں پولیس اور پیرا ملٹری فورس کے 10ہزار سے اہلکار متعین کئے گئے۔ مارچ کے شروع ہونے سے قبل ہی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے سکیورٹی خدشات کے باعث اپنی حمایت واپس لے لی۔ قادری کا لانگ مارچ اس وقت ختم ہوا جب اس وقت کے اس وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے عوامی تحریک کے سربراہ سے معاہدہ کیا جو بطور وزیر پانی و بجلی رینٹل پاور منصوبوں میں کرپشن کے مرتکب قرار دیئے گئے تھے۔ حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین تھے جبکہ کمیٹی میں حکومتی اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کے ارکان شامل تھے۔

سترہ جنوری 2013ء کو لاکھوں پاکستانیوں نے ٹی وی سکرینوں پر دیکھا کہ قادری اسلام آباد میں اکٹھے ہونے والے اپنے پیروکاروں سے کہہ رہے تھے کہ عبوری وزیراعظم اور حکومت کے قیام کیلئے ان کی رائے بھی لی جائے، یہ عبوری حکومت 2013ء کے انتخابات کو مانیٹر کرے۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور مقتدرہ کے پسندیدہ شیخ رشید کی پس پشت حمایت والے قادری کو پھر دیکھا گیا کہ وہ حکومتی نمائندوں کا خیر مقدم کر رہے تھے جبکہ ان میں سے اکثر پر وہ انتہائی سخت زبان میں تنقید کر چکے تھے۔

 

تازہ ترین