برادرم عزیز و محترم جاوید ہاشمی کے نعرہ مستانہ کے بعد سے مختصر سا پانچ حرفی مرکب ”معافی“ سکہ رائج الوقت بنتا دکھائی دے رہا ہے لیکن اس سے جڑے اور ازل ازل سے خونی رشتہ رکھنے والے لفظ ”تلافی“ کا ذکر کسی زبان پر نہیں۔ شاید اس لئے کہ معافی محض جنبش لب کا تقاضا کرتی ہے جبکہ تلافی اپنا راستہ مکمل طور پر بدل لینے، اپنے کردار و عمل کو یکسر نئے سانچوں میں ڈھالنے اور گئے وقت کی کوتاہیوں کے اثرات زائل کرنے کیلئے جہدو عمل کی ایک نئی تاریخ لکھنے کا نام ہے۔ اسی لئے سیانے کہتے ہیں کہ ہر معافی، تلافی مانگتی ہے کیونکہ معافی کا تعلق ماضی کے ”کارناموں“ سے ہوتا ہے جو برسوں بعد، انکشاف ذات کے کسی لمحہ خاص میں یکایک ”کرتوت“ دکھائی دینے لگتے ہیں جبکہ تلافی کا میدان ، زمانہ حال اور مستقبل میں سجتا ہے جب معافی مانگنے والے کو ماضی کے ”کرتوتوں“ کا کفارہ ادا کرنے کے لئے نئے سرے سے اپنی بیاض عمل لکھنا پڑتی ہے۔ یہ کام ذرا مشکل ہوتا ہے اس لئے معافی، معافی ہی رہتی ہے اور تلافی کے مرحلہ سخت جان کی نوبت کم کم ہی آتی ہے۔ یوں بھی ہمارے سادہ و معصوم عوام ”معافی“ سے خوش ہوجاتے ہیں اور تلافی کا تقاضا نہیں کیا کرتے۔
برادرم جاوید ہاشمی ہی کی طرح زمانہ طالب علمی سے نام پانے اور دشت سیاست کی طرف نکل آنے والوں میں ایک نام ، راجہ انور کا بھی ہے جس نے شیخ رشید احمد اور پرویز رشید کی طرح راولپنڈی کے گارڈن کالج سے اڑان بھری اور پھر اتنی دور چلا گیا جہاں خلا کی وسعتوں میں سمت کا احساس نہیں رہتا اور بال و پر جھڑنے لگتے ہیں۔ میں سو چ رہا ہوں کہ میرے پوٹھوہار کا یہ ہونہار بیٹا کس سے معافی مانگے اور تلافی کے لئے مشقت کا کون ساراستہ اختیار کرے؟
پچھلے کچھ دنوں سے ماضی کے اس سکہ بند مارکسسٹ، سوشلزم کے پرچم بردار، ذوالفقار علی بھٹو کے جانثار، مرتضیٰ بھٹو کی انقلابی تحریک کے پرعزم سالار اور پیپلزپارٹی کی شمشیر جوہر دار، راجہ انور کی نئی کتاب ”قبر کی آغوش“ کا مطالعہ کررہا ہوں۔ تازہ تازہ مارکیٹ میں آنے والی یہ کتاب ایک اعتبار سے راجہ کی قیامت بداماں زندگی کا ایک ورق ہے۔ یہ کم و بیش تیس سالوں پہ محیط ان سیاہ بخت روز و شب کی کہانی ہے جو راجہ انور نے کابل کی رسوائے زمانہ عقوبت گاہ، پل چرخی جیل میں گزارے۔ یہ محض راجہ انور کی آپ بیتی نہیں، کابل کے سیاسی منظر پر ابھرتے کرداروں، یکایک تخت نشیں ہوتے اور کسی روز اچانک قتل ہوجانے والے تاجداروں، جہاد کے پرچم برداروں اور انقلابی ناپختہ کاروں کی عبرت آموز داستان بھی ہے۔ افسانوں سے بھی کہیں زیادہ کشش اور گرفت رکھنے والی یہ تحریر ایک عہد کی کہانی بھی ہے جب افغانستان روسی یلغار کی زد میں تھا، پاکستان نے اس یلغار کے حوالے سے ایک کردار متعین کرلیا تھا، بھٹو کو پھانسی ہوچکی تھی، بھٹو کی حکومت میں شریک تقریباً تمام سینئر عہدیدار نئے زمینی حقائق قبول کرچکے تھے اور سیاسی کارکنوں کی ایک کھیپ بھٹو سے وفا کا چراغ روشن کئے آزمائشوں سے دوچار تھی۔
راجہ انور کی بھٹو سے وابستگی جوانی کی جولانی اور زمانہ طالب علمی کے لا ابالی پن سے ذرا آگے کی بات تھی کہ اس کے دل میں کارل مارکس پہلے سے بکل مارے بیٹھا تھا اور بہت سے خوش گمانوں کی طرح اسے بھی لگا تھا کہ بھٹو کی شکل میں وہ ”عظیم انقلابی“ آگیا ہے جو کسانوں، مزدوروں، محنت کشوں، ناداروں اور تہی دستوں کا مقدر بدل کے رکھ دے گا اور وڈیروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، خانوں اور تمام استحصالی طبقوں کو ٹکٹکی پہ چڑھا دے گا۔ جوانی کے خواب بڑے منہ زور ہوتے ہیں اور راجہ انور ان خوابوں کے سنہری جال میں آگیا۔ نومبر 1968ء میں ، ایوب خان کے خلاف گارڈن کالج سے طلبا کے پہلے جلوس کی قیادت کرنے والے راجہ انور کے لئے بھٹو انقلاب کا عظیم استعارہ تھا۔ اس نے 20جون 1966ء کو پہلی بار، اس وقت ذوالفقار علی بھٹو سے ہاتھ ملایا جب وہ راولپنڈی سے لاہور جانے کیلئے خیبر میل پہ سوار ہوئے۔ پھر اس نے بھٹو کا ہاتھ کبھی نہ چھوڑا۔ اس وقت بھی نہیں جب بھٹو پھانسی چڑھ گیا۔ وہ بھٹو کا سیاسی مشیر بھی رہا۔ بھٹو کے برسراقتدار آنے کے بعد اچھے اچھے انقلابیوں کی آنکھیں کھل گئیں۔ ان میں سے کئی آج تک شکستہ خوابوں کی کرچیاں چن رہے ہیں لیکن راجہ انور کا عشق، عقیدت کی سان پر چڑھ کر جنوں کا طرح تیز دھار ہوچکا تھا۔ وہ نہ صرف بھٹو سے جڑا رہا بلکہ مارشل لاء کے نفاذ اور بھٹو کی پھانسی کے بعد بھی جنوں کے اسی طرار گھوڑے پہ سوار، مرتضیٰ بھٹو کی قیادت میں پاکستانی فوج کو سبق سکھانے اور اپنے محبوب قائد کی موت کا بدلہ لینے کے لئے مہم جوئی کی راہ پہ چلتا رہا۔
”قبر کی آغوش“ سے اندازہ ہوتا ہے کہ راجہ انور کے عشق پر اوس کیوں کر پڑی اور اس کے جنوں نے فارغ بیٹھنا کس طرح سیکھا۔ مرتضیٰ نے پاکستان کی فوج کو سبق سکھانے اور انقلاب بپا کرنے کیلئے پاکستان لبریشن آرمی (PLA) تشکیل دی تھی۔ تب وہ کابل میں بیٹھا تھا۔ اس نے اپنے مقاصد کیلئے بھارت، لیبیا اور شام کے دورے کئے یاسر عرفات سے اسلحہ کی ایک بڑی کھیپ حاصل کی۔ راجہ انور کو اس نے جرمنی سے کابل بلالیا۔ کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ مرتضیٰ کو راجہ انور کی وفا شعاری پہ شک گزرا۔ اس نے افغان حکمرانوں سے کہہ کر اسے قید میں ڈلوادیا۔ کچھ عرصہ اس نے مہمان خانہ صدارت نامی جیل میں گزارے اور پھر اسے پل چرخی جیل میں ڈال دیا گیا جسے گوانتا نامو نہ سہی، اس کی چھوٹی بہن کہا جاسکتا ہے ۔ مرتضیٰ نے کرتہ چہار کے علاقے میں راجہ انور کی ایک قبر بھی تیار کرلی۔
”قبر کی آغوش“ انہی روز وشب کی کہانی ہے۔ راجہ انور غضب کا لکھا ری بھی ہے۔ اس کی تحریر میں بلاکی رعنائی ہے اور ایسی گرفت کہ پڑھنے والا اس کے سحر سے نکل ہی نہیں سکتا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ نہایت ہی عمدہ خاکہ نگار بھی ہے۔ اس نے پل چرخی جیل میں بند بعض کرداروں کی اس مہارت کے ساتھ تصویر کشی کی ہے وہ آنکھوں کے سامنے آکھڑے ہوتے ہیں۔ وہ کہیں کہیں شعوری طور پر شگفتگی سے کام لیتا ہے کہ پل چرخی کے تذکرے سے قاری کے اعصاب نہ چٹخنے لگیں اور کہیں کہیں اس کی تحریر میں ایسا درد بھر جاتا ہے کہ قاری کی آنکھیں بھیگنے لگتی ہیں وہ پل چرخی میں بند تھا جب مرتضیٰ نے یہ خبر چلادی کہ راجہ انور کو گولی مار دی گئی ہے۔ یہ خبر پاکستان بھر کے اخباروں میں چھپی اور اسی روز راجہ انور کی ماں کا دل اپنی دھڑکنیں گنوا بیٹھا۔ مرتضیٰ نے پی آئی اے کا ایک طیارہ بھی اغوا کرایا تھا۔ سلام اللہ ٹیپو اس کا مرکزی کردار تھا۔ مرتضیٰ کے حکم پر اسی نے بھٹو کے سابق اے ڈی سی میجر طارق رحیم کا بدن گولیوں سے چھلنی کرکے جہاز سے نیچے پھینک دیا تھا۔ اس کارنامے پر مرتضیٰ نے ٹیپو کو اپنا ڈپٹی کمانڈر مقرر کردیا اور اسے ”بھٹو شہید میڈل“ سے نوازا۔ پھر وہ وقت آیا کہ مرتضیٰ ٹیپو سے بھی ناراض ہوگیا اور اسے بھی پل چرخی جیل میں ڈلوادیا۔
راجہ انور لکھتا ہے… ”مجھے جیل میں قید ہوئے پانچواں مہینہ تھا کہ اچانک افغان ذرائع ابلاغ، الذوالفقار، الذوالفقار، کی تکرار سے گونج اٹھے۔ مرتضیٰ نے پی آئی اے کا ایک مسافر طیارہ ہائی جیک کرلیا تھا۔ طارق رحیم اپنے والد جنرل رحیم کے جنازے میں شرکت کے لئے ایران سے کراچی پہنچا اور وہاں سے پشاور کی فلائٹ پکڑ لی۔ سلام اللہ ٹیپو اسی طیارے کو اغوا کرکے کابل لے آیا۔ مرتضیٰ نے بزن کا حکم دے دیا۔ ہائی جیکرز نے طارق رحیم کو بے رحمی سے گولیوں کا نشانہ بنایا اور اس کی تڑپتی ہوئی لاش کاک پٹ سے نیچے رن وے پر پھینک دی۔ کابل ٹی وی یہ روح فرسا سانحہ بار بار دکھاتا رہا۔ یہ منظر آج تک میرے حافظے پر ایک رستے ہوئے زخم کی طرح تازہ ہے۔ طارق رحیم کی نعش پاکستان لے جانے کیلئے لکڑی کا تابوت یہیں پل چرخی میں میری آنکھوں کے سامنے تیار ہوا۔ طارق رحیم کے سفاکانہ قتل کے پورے تین سال بعد، وقت نے اسی ٹیپو کو، اسی پل چرخی میں ، عین اسی جگہ پر، جہاں طارق رحیم کا تابوت تیار ہوا تھا، دہائیاں دیتے اور ناک رگڑتے دیکھا۔ پھر ایک رات اسے یہیں پر گولی مار دی گئی۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اس کا بے گورو کفن لاشہ، کسی تابوت کے بغیر، پل گون کی کسی نادیدہ کھائی میں پھینک دیا گیا“ ۔
”قبر کی آغوش“ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ راجہ انور کس سے معافی مانگے اور ماضی کی تلافی کیسے کرے؟ مرتضیٰ تو بھٹو کا بیٹا تھا اور اس کا شمار شہدائے گڑھی خدا بخش“ میں ہوتا ہے ، اپنا سب کچھ عشق لاحاصل کی نذر کردینے والے سیاسی کارکن ، راجہ انور کا تشخص کیا ہے؟