• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بینکاک سے اسلام آباد کے لئے جہاز پر تھائی ایئر لکھا تھا اور کہا گیا کہ یہ پی آئی اے ہے۔ جب کہ اسلام آباد سے کراچی کے لئے فلائٹ لکھا تھا۔ مگر جہاز تھا ویت نام کا،یہی واپسی پر بھی ہوا۔ تھائی میں تو کھانا ان کے اسٹائل کا اور اچھا تھا ، مگر ویت نامی جہاز میں وہی پی آئی اے کے انتظام کا سڑا ہوا بند۔ خیر ہم تو پی آئی اے لکھا ہوا بھی دیکھنے کو ترس گئے ہیں۔
آسٹریلیا میں پاکستانی خواتین و حضرات نے اشرف شاد کی سربراہی میں مشاعرے کا اہتمام کیا جہاں معقول اور نامعقول ،نامعلوم شعروں اور شاعروں کی تعداد تقریباً یکساں تھی مگر سامعین کہ جو وقفے میں کھانے کے بعد بھی موجود رہے، وہ بھی دوسو سے زیادہ تھے۔ کمال بات یہ تھی کہ یہ سب خواتین و حضرات، اعلیٰ تعلیم یافتہ ، روشن خیال اور پاکستان میں ہونے والے دھرنے پرکبھی پریشان تو کبھی پشیمان ہو کر تذکرہ کرتے تھے۔ سب ہجرت کرنے والوں، خاص کر کراچی سے آنے والوں کی داستان الم ایک جیسی تھی۔ کئی لوگ کلینک چلتا اور کئی اچھی نوکری کے باوجود، ایم کیو ایم کی ستم رانی کا شکار ہوئے، گھر بار چھوڑ کر آگئے، بہت محنت سے معقول نوکری اور رہائش حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، دونوں میاں بیوی صبح نکلتے اور شام کو واپس ہوتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہےکہ یہ سب لوگ اتنی دیر سے آنے کے باوجود شام کو میرے ساتھ اکٹھے ہو کر مختلف کھانوں سے ٹیبل آراستہ کرتے ۔ گفتگو کرتے اور شعر سنتے، ان کے علاوہ یاسمین شاد کہ جو اپنی تحقیق اور دماغیات پر کام کرنے کے باعث دنیا کے بارہ ملکوں میں،ڈاکٹریٹ کرنے والے نوجوانوںکی تعلیم کرتی رہی ہیں۔ مجھے اپنی جوانی یاد آئی کہ بس دفتر سے واپسی پر بیگ اور دوپٹہ اتار، کچن کی جانب بھاگناپڑتا تھا۔ یہ ساری کارکن خواتین ، مجھے پاکستان میں بھی کام کرنے والی خواتین کی یاد دلارہی تھیں۔ واپسی پر نو گھنٹے کے پہلے سفر کے دوران اشرف شاد کے ناول ’’صدر محترم‘‘ کو پڑھتی جاتی اور پاکستان کی ابتری میں داخلی قوتوں کا تفصیلی احوال، کرداروں کے سہارے بیان کئے ہوئے کو پڑھتے ہوئے، خود سے اور اشرف شاد سے جھلا اٹھتی تھی کہ یہ سب سچ ہے تو اس کو افسانوی رنگ کیوں دیا ہے۔ اشرف شاد چونکہ ضیاالحق کے ظلم کے ڈسے ہوئے تھے۔ شاید اس لئے سارے مصائب کو دوسروں کی زبانی ، مجھے اور پڑھنے والوں کو یاد دلارہے تھے۔
آسٹریلیا سے واپسی پر فوراً کراچی جانا پڑا۔ ہمارے ملک میں ایک ایسے شخص سے ملاقات کرنی تھی، جس نے تین ڈاکٹریٹ کرنے کے باوجود باہر ممالک کی نوکریوں پر وطن واپس لوٹ کر خدمت کرنےکو ترجیح اس سلیقے سے دی کہ غریب بچوں کے لئے اسکول کھولا، پہلی سے دسویں تک بچوں کو تعلیم دینے کے لئے اپنا نصاب کچھ خود بنایا اور کچھ آغا خان بورڈ سےمنتخب کیا۔ چونکہ ادب کا چسکا بھی تھا، اس لئے پانچویں کلاس کے بچوں کو ابن انشاء کی اردو کی آخری کتاب پڑھانے کے لئے منتخب کی، بچوں میں کھیلوں کے لئے باقاعدہ خود ہی گرائونڈ بنائے۔ جو بچے یونیفارم ،جوتے، کتابیں نہیں خرید سکتے تھے ، ان کو مفت تعلیم کے علاوہ نصابی کتب بھی فراہم کیں۔ گویا 50فی صد وہ بچے ہیں، جو فیس دے سکتے ہیں اور باقی مفت تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ علی سیدین ، وہ اعلیٰ دماغ شخص ہیں جو اسکول کا انتظام ہی نہیں چلاتے ،وہ بچوں کی ذہنی ایج کے لئے نت نئے پروگرام مرتب کرتے ہیں۔ اسی سلسلے میں علی نے ناظم آباد میں قائم ، اس اسکول کے گرائونڈ میں مشاعرے کا اہتمام بھی کیا کہ بچے، ان کے والدین اور سخن فہم لوگوں کے علاوہ مشاعرے میں صرف آٹھ شعرا سے کئی نظمیں اور غزلیں سنی جائیں۔ بچوں کو مشاعرے کے آداب سمجھ میں آجائیں اور سینئر کلاسوں میں احمد فراز کی نظم ’’محاصرہ‘‘ بھی پڑھنا اور مطلب سمجھنا، سکھانے کے علاوہ جدید شاعری کا انتخاب ، انگریزی ادب اور پاکستانی شہریت کے آداب سکھانے کے علاوہ اول تو انہوں نے لڑکے لڑکیوں کو یکساں تعلیم فراہم کرنے کا بندوبست کیا، الگ لگ غسل خانے تعمیر کرائے، مجھے یونیسیف کا حالیہ سروے یاد آیا کہ پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچوں اور خاص کر بچیوں کو غسل خانو ں کی سہولت اسکولوں میں نہیں ہے۔ علاوہ ازیں 5کروڑ بچے ایسے ہیں جن کو اسکول کی سہولت ہی میسر نہیں ہے۔
علی اور ان کے رفقانے اب تھرپارکر میں نگرپارکر اور چھاچھرو ، ڈپلو کے علاقوں میں اسکول قائم کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ میں نے پوچھا ، آپ لوگ این آر ایس پی کے ساتھ مل کر کام کریں وہ اس اشتراک کے بارے میں بھی غور کررہے ہیں۔
مشاعرے میں وہ شاعر بھی موجود تھے، جن کے خلاف خواتین نے مظاہرے بھی کئے تھے کہ اب تک ضعیفی کے باعث پیر نہیں اٹھتا مگر جوانی ٹھاٹھیں مار رہی ہے۔ بڑی ڈھٹائی سے شعر بھی سنائے اور چیخ کر بولے ’’تم بھی ان عورتوں کے ساتھ ہو، جو بے ہودہ الزامات لگارہی ہیں۔‘‘ مجھے ایسے کئی حادثات یاد آئے جن میں مختلف یونیورسٹیوں اور دفاتر میں جسمانی ہراسانی کے باعث نوکریوں سے نکال دیا گیا تھا۔ اب تو لوگ ڈی۔ آئی۔ خاں میں ہونے والی نوجوان بچی کے ساتھ زیادتی اور پھر جرگہ سسٹم پر لوگوں کا زیادہ اعتماد ابھی تک ہے۔ اب تو کراچی میں بھی نوجوان جوڑے کو اپنی مرضی سے شادی کرنے پر، دونوں بچوں کے ماں باپ نے مل کر خود ہی گولیاں چلا کر ان کے الفاظ میں اپنی عزت بچائی ہے۔ ہوٹل سے ناظم آباد تک کا سفر دو گھنٹے میں طے ہونے سے کراچی کے سنگین مسائل کا تھوڑا سا اندازہ ہوا۔

تازہ ترین