جن سے ہم دشت نوردوں کا بھرم قائم تھا
اب وہ چشمے بھی سمندر کے حوالے ہوئے ہیں
کوثر و تسنیم سے دھلی زبان اور نرم و ملائم لہجے والے افتخار عارف کا یہ خوبصورت شعر گزشتہ شب اچانک میرے حافظے کے ریڈار پر نمودار ہوا۔ افسردگی اور پژمردگی کی کیفیت میں بھی حافظے کا ریڈار درست کام کرتا ہے، رب کا شکر ادا کیا۔ شعر نے اپنی گرفت میں لیا تو فکر و خیال کے کئی دریچے وا ہوگئے۔
حرص و ہوس کے بندوں، جلب منفعت کے اسیروں، ادنیٰ مفادات اور حقیر مراعات کے طلبگاروں، خواہش نفس کے پجاریوں اور دنیا نقد، آخرت ادھار کے فلسفے پر کاربند مجھ جیسے نیمے دروں، نیمے بروں پاکستانیوں کو یہ بات محض وہم و گمان، بے سود و یکسر زیاں اور ناقابل فہم، ناقابل یقین ہی لگتی ہے کہ کوئی شخص اپنے پروردگار کی خوشنودی اور اپنے عقیدہ و ایماں کی حفاظت کے لئے میسر شاہانہ سہولتوں کو تیاگ سکتا ہے۔ دستیاب عیش و آرام کی زندگی چھوڑ کر غریب الوطنی اور سخت کوشی کا راستہ اختیار کرسکتا ہے اور اپنے ہم عقیدہ لوگوں پر ہونے والے عالمی جبروستم، ظلم و ناانصافی اور استعماری استحصال و استبداد کے خلاف اس طور سینہ سپر ہوسکتا ہے کہ نہ اپنے بہن بھائیوں، عزیزواقارب کی فکر، نہ طعنہ و دشنام سے سروکار اور نہ زندگی اور اس کی راحتوں کی پرواہ۔
جاں دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
جس معاشرے میں لوگ معمولی فائدے کے لئے اپنا موٴقف، نظریہ کیا، عزت و آبرو اور ایمان بیچنے کے لئے بیتاب و بے قرار نظر آتے ہوں، گنگا گئے تو گنگا رام، جمنا گئے تو جمنا داس، بڑے بڑے دعویداروں کا تصور حیات ہو اور جن کا دیں پیرویٴ کذب و ریا، وہاں کسی شخص کا اپنے موٴقف پر استقامت سے قائم رہنا اور اس ہیبت ناک فوجی قوت کو للکارنا جس کے نام سے بڑی بڑی ایٹمی قوتوں کا پتہ پانی ہوتا ہے، جس کے سامنے بڑے بڑے فرعون سجدہ ریزی کو باعث صد اعزاز سمجھتے ہوں، عقل و دانش کے مروجہ پیمانوں اور فراست و بصیرت کے مقررہ معیار کے برخلاف ہے لیکن:#
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی!
وہ سودوزیاں کے اس فلسفے کو جو آزاد انسانوں کو غلامی اور غیرت و حمیت کی خداداد جبلت کو مفاد پرستی کی راہ دکھاتا ہے، کیسے قبول کرے۔
میں چاہتا تھا کہ سورج میری گواہی دے، سو میں نے رات کے آگے سپر نہیں ڈالی۔
عشروں قبل شاعر نے اپنے ہم نفسوں سے فرمائش کی تھی۔
ستون دار پر رکھتے چلو سروں کے چراغ
جب تلک ظلم کی سیہ رات چلے
شاعر کے ہم نفسوں اور ہم مشربوں میں سے بہت کم اس فرمائش کی تاب لاسکے۔ سب نے انکار اور فرار کی راہ نہیں اپنائی۔ معدودے چند اس راہ پر چلے، اکثر تھک ہار گئے اور بیشتر ظلم کی سیہ رات میں روشن خیالی کے چراغ جلانے کے لئے اس رو سیاہ کے کوچے میں سر کے بل گئے۔ جس نے دنیا پر جبر و استحصال کی تیرہ بخشی مسلط کر رکھی ہے لیکن کسی رند خرابات نے کبھی یہ سوچا بھی نہ ہوگا کہ ایک زاہد خشک اور عابد شب زندہ دار ستون دار پر سروں کے چراغ رکھنے کی روایت پر کاربند ہوگا۔ عرب و عجم میں گڑی ہر صلیب پر اس قبیلے کے ارکان سروں کے چراغ سجا کر کل عالم کو منور کردیں گے اور جہان نو پر آشکار ہوگا کہ۔
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
یہی لوگ زمین کا نمک اور پہاڑی کا چراغ ہیں۔ نمک کو زمین سے الگ کرنے اور پہاڑی کے چراغوں کو بجھانے کے شوقین پہلے کب بامراد ہوئے کہ اب کامیابی ان کا مقدر بن سکتی ہے۔ بھگت سنگھ کو شہید کہنے اور ماننے والے بگلہ بھگت کسی سربکف کی شہادت کے انکار سے اپنی کور چشمی کو آشکار کریں تو بھلا کسی کو کیا اعتراض؟
کوئی تو بات ہم آشفتگان میں ایسی تھی
کہ خاک ہو کے بھی معیار آبرو ہوئے ہم
ان سرفرازوں کے انداز فکر اور سرفروشانہ جدوجہد کے پیچ و خم کو ہم ایسے سگ زمانہ کیسے سمجھ پائیں جو دریوزہ گری کو تقاضائے جہانبانی، بے حمیتی کو عملیت پسندی، لوٹ کھسوٹ کو اقتدار و اختیار کا لازمی ثمر اور کوچہ اقتدار کے دیوانہ وار طواف کو سرمایہ حیات سمجھتے اور اس ذہنی پستی پر ہر سو، ہر جا اتراتے پھرتے ہیں۔
افتخار عارف کا شعر حافظے کے ریڈار پر نمودار نہ ہوتا تو کسی اجازت، علم اور اطلاع کے بغیر کاکول کے پہلو میں امریکی آپریشن کو حقیت اور افسانے کی کسوٹی پر پرکھتا اور وہ سوالات اٹھاتا جو چیچوکی ملیاں سے لے کر پیرس تک ہر جگہ اٹھائے جا رہے ہیں، جن کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ سب کی زبانیں گنگ، کان ثقل سماعت کا شکار اور آنکھیں پتھرائی ہوئی۔
اک ہم ہی تو نہیں جو اٹھاتے ہیں سوال؟
جتنے ہیں خاک بسر شہر کے سب پوچھتے ہیں
لیکن اس تہی دست و تہی دماغ خاندان غلاماں اور گدایان لم یزل کے سامنے سوال اپنی جھولی کیوں پھیلائے اور پندار کا صنم کدہ کیوں ویراں کرے۔ چشمہ سمندر کے حوالے ہوا کہ زمین یہ بار امانت اٹھانے کے قابل نہ سمجھی گئی لیکن ایبٹ آباد بدستور زیارت گاہ، اہل عزم و ہمت ہے جہاں خون ناحق زمین کے اس ٹکڑے کو ہم دوش ثریا کر گیا۔
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دیوانہ مر گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری؟