• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں آبادی میں روز افزوں اضافے اور اسی نسبت سے گاڑیوں کی تعداد بڑھنے سے ٹریفک اور آلودگی کے مسائل دوچند ہوگئے تو انہوں نے اس کا حل نکالنے کی فکر کی۔ سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا گیاکہ عوام کو آرام دہ اور سستی سفری سہولیات فراہم کرکے بتدریج نجی ٹرانسپورٹ سے سرکاری ٹرانسپورٹ کی طرف راغب کیا جائے۔ منصوبہ بندی سے اس پر عملدرآمد کیا گیا اور اس کے بہتر نتائج برآمد ہوئے۔ چنانچہ آج ہمیں لندن، ٹوکیو، یورپ کے متعدد شہروں اور امریکہ تک میں سرکاری ٹرانسپورٹ پر انحصار زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ اس تناظر میں وطن عزیز کی صورت حال کا جائزہ لیں تو حالات ابتر ہیں۔ آئے دن یہ خبر میڈیا کی زینت بنتی ہے کہ ’’پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ٹریفک کئی گھنٹے جام رہی‘‘۔ لاہور اور پاکستان کے دیگر بڑے شہروں کی صورتحال بھی مختلف نہیں۔ اسکولوں، کالجوں اور دفتری اوقات میں سڑکوں پرٹریفک کی بندش عموماً ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ ضروری تھا کہ یہ مسائل حل کئے جائیں۔ قطع نظر اس کے کہ حکومت پنجاب کے میگا پراجیکٹس کے مقاصد سیاسی ہیں، جیسا کہ ان پر الزام عائد کیا جاتا ہے یا مفاد عامہ میں ان کی افادیت اس وقت سامنے آئے گی جب چند سال بعد آبادی اور سڑکوں پر آنے والی گاڑیوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ آمدورفت کو سہل بنانے کے لئے سڑکوں کی کشادگی، پلوں اور زیر زمینی راستوں کی تعمیر، بسیں چلانا اور اورنج ٹرین کا منصوبہ مفاد عامہ کا منصوبہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے کہ اس سے حکومت سیاسی فائدہ اٹھائے گی بھی تو کیا، کتنا اور کب تک؟ یہ البتہ حقیقت ہے کہ ایسے منصوبے اگر کسی بھی طرح باعث آزار ہوں تو ان کی اہمیت پر حرف آتا ہے۔ میٹرو بس اور اورنج ٹرین کے حوالے سے صحیح یا غلط کرپشن کے الزامات کی بھی بھرمار رہی، اورنج ٹرین کی تعمیر کا منصوبہ لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے اس وقت روک دیا گیا جب یہ امر سامنا آیا کہ مذکورہ منصوبہ متعدد تاریخی عمارتوں کو متاثر کرسکتا ہے۔ یونیسکو کی عالمی ثقافتی کمیٹی (ڈبلیو ایچ سی) نے اورنج ٹرین منصوبے پر تحفظات کا اظہار کیا۔ کہا گیا کہ لاہور میں ٹرانسپورٹ سسٹم کی ضرورت سے مفر ممکن نہیں لیکن لندن کی طرز پر ایسے منصوبے زیرزمین ہونے چاہئیں، بھارت کی بھی مثال دی گئی جہاں ایسے منصوبے ثقافتی ورثے کو نقصان پہنچائے بغیر منصوبے بنائے گئے۔ قصہ کوتاہ عدالتی فیصلے کے بعد اس تعمیراتی منصوبے پر کام رک گیا تو حکومت یہ معاملہ عدالت عظمیٰ میں لے گئی جس نے 17اپریل کو اس پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔جمعہ کے روز عدلیہ کے پانچ رکنی بنچ نے لاہور ہائی کورٹ کے حکم امتناع کو کالعدم قرار دے کر 31شرائط عائد کرتے ہوئے منصوبے کی تکمیل کے لئے پنجاب حکومت کی درخواست منظور کرتے ہوئے اسے کام کی اجازت دیدی۔ تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ ٹرین چلنے سے پیدا ہونے والے ارتعاش کو مانیٹر کیا جائے گا، ایسی مشینیں لگائی جائیں گی جس سے نقصان کا اندازہ لگایا جاسکے۔ ارتعاش مقررہ حد تک بڑھنے پر کام روک دیا جائے گا اور قابل قبول اقدامات کے بعد ہی شروع کیا جاسکے گا۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے عدلیہ کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے ایک سیاسی پارٹی کو منصوبے میں 22ماہ کی تاخیر کا ذمہ دار قرار دیا ۔ انہوں نے گزشتہ روز منصوبے کے مختلف مقامات کا جائزہ بھی لیا۔ یہ سچ ہے کہ منصوبے میں تاخیر کے باعث اہالیان لاہور کو اذیت ناک صورت حال کا سامنا رہا۔ راستوں کی بندش اور کاروباری مصروفیات میں رکاوٹوں کے علاوہ دھول اور گردوغبار نے عوام کو عذاب میں مبتلا کئے رکھا۔ بہرکیف عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد اب اس منصوبے کی راہ میں حائل سب سیاسی و انتظامی رکاوٹیں دور ہوگئی ہیں لیکن حکومت کو عدالتی شرائط پر من و عن عمل کرنا ہوگا، ان سے سرمو انحراف اس کے لئے پھر سے مشکلات کھڑی کرسکتا ہے۔ خاص توجہ ثقافتی ورثے کی حفاظت کے اقدامات پر دینا ہوگی کہ اسی بنیاد پر اس منصوبے پر حکم امتناع جاری کیا گیا تھا۔ امید ہے حکومت تمام تر احتیاطی تدابیر ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچائے گی۔جس سے عوام کو تعمیراتی کاموں کے باعث درپیش مصائب سے بھی نجات ملے گی اور اورنج ٹرین منصوبہ کی تکمیل کے بعد آرام دہ سفری سہولت بھی دستیاب ہو گی۔

تازہ ترین