• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی منظر نامہ،اکابرین قوم کو 70 سال بعد قومی بیانیہ کا خیال کیوں آیا

اسلام آباد( طاہر خلیل) مارگلہ کے دامن میں پھیلی دانش کدہ میں سیاست بازی کاانحطاط ہوا تو یہاں ایک با ر پھر علمی سرگرمیاں نوجوان نسل کی مثبت خطوط پر تربیت کےلئے عود کر آئیں اور قائد اعظم یونیورسٹی کی فیکلٹی برائے سیاسیات سرگرم ہوگئی ،بدھ کو قومی بیانیے پر سیمینار ز کے سلسلے کا آغاز ہوا تو وطن عزیز کو در پیش چیلنجز، پاکستانی قوم کی فکری آزادی کے ساتھ بات چل نکلی کہ سیاسی جماعتوں میں اہل فکر و نظر کی بھی کیا کوئی جگہ ہے؟ اس ساری بھیڑ چال میں 2013 کے بعد سے بتدریج ایک نئی اصطلاح جو ہماری سیاسی، سفارتی و دفاعی اشرافیہ میں بے انتہا مقبول رہی وہ ایک ’’ قومی بیانیہ‘‘ جس کے لئے انگریزی کی ٹرمنا لوجی استعمال ہورہی ہے، نیشنل نیریٹو، تاریخی حقائق جھٹلائے نہیں جاسکتے کہ 1947 میں بنے والاملک جس نے کشمیر پر فقط ایک سال بعد جنگ لڑی اور اس کے دو سال بعد لسانیات کی جنگ لڑی کہ ملک میں زبان کون سی ہوگی پھر 65 اور 71 کی جنگ لڑی اور 71 میں نظریہ پاکستان کی جنگ لڑی، سیاچن دیکھا، کارگل دیکھا، مسئلہ افغانستان دیکھا۔ غم عاشقی ترا شکریہ میں کہاں کہاں سے گزر گیا ، لیکن اس تمام مدد جزر سے گزرتے ہوئے بھی خدا معلوم اکابرین قوم کو 70 سال یہ خیال کیوں آیا کہ ایک قومی بیانیہ بھی ہونا چاہیے تو کیا 70 سال ہم بناکسی فہم و فراست کے، کسی قومی اتفاق رائے کے اور دوسرے لفظوں میں ایک نظریاتی مملکت میں کسی نظریے کے بغیر اندھیروں میں بھٹک رہے تھے۔ کیا نائن الیون سے پہلے ہمارے نزدیک دہشت گردی حلال تھی۔ کیا 1973 کا متفقہ آئین ازخود ایک قومی بیانیہ نہیں تھا اور اس سے پیچھے بھی چلے جائیں تو 11 اگست 1947 کی تقریر جوبانی پاکستان نے دستور ساز اسمبلی سے خطاب میں کی تھی اور جو مستقبل کے پاکستان کےلئے ان کا واضح خاکہ تھا۔یہی قومی بیانیہ تھا جو قائد نے دیا تھا حقیقت یہ ہے کہ اس نئے میلینم میں ہماری حکمران اشرافیہ کی جانب سے ایک قومی بیانیے کی تلاش در حقیقت پالیسی سازوں کی ذہنی کنفیوژن ، اداروں میں عشروں کے پھیلے انتشار اورطاقت کی سیاست یعنی پاور پالیٹکس میں پلڑوں کے توازن بگڑ جانے کااظہار ہے، شاعروں نے پھبتیاں شاید اسی مضحکہ خیز صورتحال کےلئے کسی تھیں ، شوق گمراہی کو ہی ہم نے سفر جانا ہے۔۔۔۔ اور آج تک یہ بھی نہ جانا کہ کدھر جانا ہے؟ پاکستان 70 سال کا ہوگیا ہے اور اس کی تیسری نسل جوان ہورہی ہے اور اب قومی بیانیے کا سوال اٹھانا بالکل ایسا ہی ہے جسے 14/15 بچے پیدا کرنے والا شخض خاندانی منصوبہ بندی کے مضمون میں دلچسپی لینا شروع کردے۔سوال یہ ہے کہ کنفیوژن کیوں ہے ابہام کی یہ کیفیت کیوں ہے؟ قائداعظم یونیورسٹی سمیت پاکستان کے دانش کدے، پاکستان کی سیاسی سوچ کو پروان کیوں نہیں چڑھا سکے۔ ایسی علمی کسمپری کیوں ہے، تحقیق کی روایت ،سوچ کو پختگی کیوں نہیں عطا کرسکی اورہم سیاسی فکری تہذیب میں دیوالیہ پن کا مظاہرہ کیوں کررہے ہیں؟ یا تو اس قسم کی گفتگو یا اس قسم کی نئی بحث سیاسی اور فکری عیاشی کا رتبہ دیتی ہے یا پھر دیدہ دانستہ مملکت کی مسلمہ فکری اساس کو مسمار کرکے ایک ٹیڑھی اینٹ پر نئی عمارت تعمیر کرنے کی کوشش ہے۔
تازہ ترین