”جنوری کی ایک شام کو ایک خوش پوش نوجوان ڈیوس روڈ سے گذر کر مال روڈ پر پہنچا اور چیرنگ کراس کا رخ کر کے خراماں خراماں پٹڑی پر چلنے لگا۔یہ نوجوان اپنی تراش خراش سے خاصا فیشن ایبل معلوم ہوتا تھا ۔لمبی لمبی قلمیں، چمکتے ہوئے بال ،باریک باریک مونچھیں ،گویا سرمے کی سلائی سے بنائی گئی ہوں ،بادامی رنگ کا گرم اوور کوٹ پہنے ہوئے جس کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا ایک آدھ کھلا پھول اٹکا ہوا ،سر پر سبز فلیٹ ہیٹ ایک خاص انداز سے ٹیڑھی رکھی ہوئی،سفید رنگ کا گلوبند گلے کے گرد لپٹا ہوا ،ایک ہاتھ کوٹ کی جیب میں ،دوسرے میں بید کی ایک چھوٹی چھڑی پکڑے ہوئے جسے کبھی کبھی وہ مزے میں آگے گھمانے لگتا تھا۔“
یہ اقتباس غلام عباس کے شاہکار افسانے ”اوور کوٹ“ کا ہے ۔ اس افسانے کا مرکزی کردار بظاہر ایک بانکا سجیلا نوجوان ہے جس کی ظاہری شان اور ٹور تو قابل دید ہوتی ہے مگر اس کا بھرم اس وقت کھل جاتا ہے جب اچانک ایک ایکسیڈنٹ کے نتیجے میں اسے ہسپتال لایا جاتا ہے اور پھر آپریشن کی عرض سے اس کے کپڑے اتارے جاتے ہیں ۔تب پتہ چلتا ہے کہ نوجوان نے دیدہ زیب اوپری پہناوے کے نیچے کس قدر پھٹے پرانے کپڑے پہن رکھے تھے ۔دیکھنے میں وہ نوجوان جس قدباوقار شخصیت کا مالک نظر آتا تھااندر سے وہ اتنا ہی کثیف اور پھٹیچر نکلتا ہے۔
بد قسمتی سے ہمارا حا ل بھی اس نوجوان سے مختلف نہیں ۔ہمارا ٹور ٹپا ،آن بان اوربانکپن اپنی فوج کی وجہ سے تھا،ہمیں ایک زعم تھا کہ حالات چاہے جو بھی ہوں ،ڈائریکٹ مارشل لا ء ہو یا ان ڈائریکٹ جمہوریت ،پاک فوج نے ملک کو ایک حفاظتی اوور کوٹ پہنایا ہوا ہے جس کے ہوتے ہوئے ملک کی سالمیت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا ۔فوج کے سر پر نیوکلئیر ہتھیاروں کی فلیٹ ہیٹ بھی ایک خاص انداز سے رکھی تھی جس کے بل بوتے پر ہم انڈیا کو تو آنکھیں دکھاتے ہی تھے پر کبھی کبھی امریکہ سے بھی سر اٹھا کر بات کرنے کی پوزیشن میں آجاتے ۔مگر افسوس صد افسوس کہ ہماری فوج کا یہ اوور کوٹ اس وقت اتر گیا جب کراچی کی نیول بیس ،پی این ایس مہران پر فقط چار دہشت گردوں نے حملہ کر کے چودہ گھنٹے تک اپنا قبضہ جمائے رکھا اورتیرہ اہلکاروں کو ہلاک کرکے بیس پر کھڑے دو پی تھری اورین جہازوں کو بھی راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔پاکستان نیوی کے پاس ایسے صرف چار جہاز تھے جن میں سے اب دو بچے ہیں ،ایک جہازکی مالیت چھتیس ملین ڈالر( تقریباً سوا تین ارب روپے)ہے۔تحریک طالبان نے ڈنکے کی چوٹ پر اس حملے کی ذمہ داری قبول کی اور کہا کہ آئیندہ بھی اس قسم کے حملے کئے جائیں گے ۔
ہمارا یہ اوور کوٹ پہلی دفعہ نہیں اترا ،اس سے پہلے 1971میں بھی یہ تار تار ہو چکا ہے جس کے بعد ہم نے ایک نیا اوور کوٹ سلوایا اور اسے باقی ماندہ پاکستان کو پہنا دیا ۔پھر اس اوور کوٹ کا کپڑا 1999میں کارگل میں دو تین جگہ سے ادھڑ گیا لیکن بر وقت رفو کروانے کی وجہ سے بچت ہو گئی ۔گو کہ 1999سے 2010تک اس اوور کوٹ کو طالبان کی شکل میں کافی خراب موسم کا سامنا کرنا پڑالیکن چونکہ ہمارا اوور کوٹ خاصا مہنگا تھا اس لئے اسے بظاہر کوئی نقصان نہیں پہنچااور یہ دیکھنے میں اب بھی نیا ہی لگتا تھا۔تاہم دومئی 2011کو ایبٹ آباد میں اور اس کے ٹھیک بیس دن بعد پی این ایس مہران کراچی نے ہمارے اس اوور کوٹ کی دھجیاں اڑا دیں اور پوری دنیا نے دیکھا کہ اس اوور کوٹ کے نیچے ہم نے قمیض بھی نہیں پہن رکھی تھی بلکہ فقط ایک سویٹر تھا اور اس میں بھی جا بجا سوراخ بنے ہوئے تھے ۔
ہم اپنی فوج پر سالانہ 6.4ارب ڈالرخرچ کرتے ہیں ،قوم یہ رقم کس طرح اپنا جگر کاٹ کر پورا کرتی ہے،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے بجٹ کا کل خسارہ ایک کھرب روپے ہے جبکہ اکیلی فوج کا بجٹ ساڑھے پانچ کھرب ہے ۔ کبھی کسی کو ان پیسوں کا حساب مانگنے کی جرات ہوئی او ر نہ کبھی کسی نے مناسب سمجھا کہ فوج کو پارلیمنٹ کے کٹہرے میں کھڑا کر کے فقط اتنا ہی پوچھ لیا جائے کہ جو پیسے دئیے گئے انہیں کہاں کہاں اور کس مد میں خرچ کیا گیا!ہمیں ہمیشہ یہ بتایا گیا کہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے جس کی اسرائیل سے گاڑی چھنتی ہے چنانچہ اس فارمولے کے تحت اسرائیل بھی ہمارا دشمن ہوا ۔اسی طرح روس سے بھی ہمیں اللہ واسطے کا بیر ہے کیونکہ افغانستان کے بعد وہ ہم پر بھی قبضہ کرنا چاہتا تھا، اسی لئے ہم نے ایک کافر ملک امریکہ کے ساتھ مل کر دوسرے کافر ملک روس کے خلاف جہاد کیا ۔مجھے یہ تو نہیں پتہ کہ بھارت ،اسرائیل یا روس سے جنگوں کے دوران ہماری مارکیٹوں ،ہسپتالوں ،سکولوں ،مزاروں ،مسجدوں اور تمام چھوٹے بڑے شہروں میں واقع ریاستی اداروں بشمول جی ایچ کیو پر کتنے گولے اور میزائل داغے گئے اور اس کے نتیجے میں کتنی عورتیں اور بچے مرے۔لیکن میں ایک بات ضرور جانتا ہوں کہ جو لوگ ببانگ دہل ہماری فوج ،پولیس ،ریاستی اداروں ،بوڑھوں ،بچوں اورعورتوں کو نشانہ بناتے ہیں ،انہیں ہم سرے سے اپنا دشمن ہی نہیں سمجھتے اور ان کی حمایت میں مریخ سے دلیلیں تراش کے لانے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔
ہم یہ بھی ماننے کو تیار نہیں کہ ہم حالت جنگ میں ہیں کیونکہ ہمارے نزدیک جنگ اسے کہتے ہیں جس میں بھارت ہم پر حملہ کر دے ورنہ باقی سب کھیل تماشا ہے ۔یقین نہیں آتا تو ٹی وی آن کرکے کوئی مارننگ شو ،کوکنگ شو یا پھر کسی موبائل فون کمپنی کا اشتہار دیکھ لیں ،آپ کو پوری قوم اس بات پر دھمالیں ڈالتی نظر آئے گی کہ آدھی رات کے بعد کال کا ریٹ بھی آدھا ہو جاتا ہے ۔دکھ کی بات تو یہ ہے کہ اس اجتماعی بے حسی میں مذہبی ٹی وی چینلز بھی کسی سے پیچھے نہیں۔جس قدر خوں ریزی اکیلے اس مئی کے مہینے میں ہوئی ہے اسے دیکھتے ہوئے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تمام مذہبی چینلز پر سوائے دہشت گردی کے خلا ف مکالمے اورممتاز عالم دین کے فتوؤں کے کچھ بھی نشر نہ کیا جاتا مگر آفرین ہے ان چینلز پر جہاں دنیا جہاں کے مسائل تو زیر بحث آتے ہیں مگر خود کش بمباروں کے خلاف کوئی ایک پروگرام بھی نشر نہیں ہوتا ۔ زیادہ سے زیاد ہ یہ دعا مانگ کر اپنا فریضہ ادا کر دیا جاتا ہے کہ ”یاللہ ! تو سب جانتا ہے ،بس سب ٹھیک کر دے ۔“کیا ان مذہبی اکابرین کو خون میں لتھڑے ہوئے بچوں کی لاشیں نظر نہیں آتیں ؟ اگر ان سے یہ سوال کرو تو جواب ملتا ہے کہ جب تک امریکہ افغانستان میں رہے گا ،تب تک ظلم اور دہشت گردی ختم نہیں ہوگی ۔طالبان نے اس کا خود ہی جواب دے دیا ہے اور دو ٹوک انداز میں کہہ دیا ہے کہ امریکہ کے جانے کے بعد بھی ہم اپنی ”جدو جہد“ جاری رکھیں گے ۔ہور کی حال اے!
ٹیل پیس:مہران نیول بیس پر حملے کے دورا ن بحریہ کے گیارہ اور رینجرز کے دو اہلکار شہید ہوئے ۔شہدا میں جواں سال لیفٹیننٹ یاسر عباس بھی شامل ہے جس کی موت کا دکھ دیگر شہدا کی طرح برابرکا ہے ۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے صدر پاکستان سے سفارش کی ہے کہ یاسر عباس کو نشان حیدر دیا جائے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لیفٹیننٹ یاسر نے حملے کے دوران ایسا کون سا کارنامہ سر انجام دیا جس پر نشان حیدر کی سفارش کی جا رہی ہے ؟کیونکہ تا حال کوئی ایسی تفصیل سامنے نہیں آئی جس کی بنا پر یہ فیصلہ کیا جا رہا ہے ۔یاد رہے کہ نشان حیدر میں ”حیدر “ کا نام شامل ہے اور یہ اعزاز اس سے پہلے میجر عزیز بھٹی اور میجر شبیر شریف جیسے قابل فخر سپوتوں کو دیا جا چکا ہے لہذا اس اعزاز کو نوازنے کی آڑ میں اپنی کوتاہی چھپانے کی کوشش نہیں کی جانی چاہئے۔