پنجابی کی 80 سے زیادہ کتابیں جو گیٹ اپ معیار کے لحاظ سے ہی عمدہ نہیں بلکہ مواد کے لحاظ سے بھی بہت اعلیٰ معیار کی حامل ہیں ان میں تین سفر نامے، غیر ملکی ادب کے سات ترجمے، پانچ ناول جن میں نوبل انعام یافتہ مصری ادیب نجیب محفوظ کا ناول بھی شامل ہے، 20 سے زیادہ افسانوی مجموعے، دو تحقیقی کتب، بچوں کے لئے دس کتب جن میں پہلی سے پانچویں جماعت تک کے آرٹ پیپر پر چھپے رنگین قاعدے بھی شامل ہیں پھر ایک پندرہ روزہ بھی باقاعدگی سے نکل رہا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ پنجابی زبان میں بھی ایسا معیاری کام ہو رہا ہے لیکن میرے سامنے بیٹھا پنجابی ورکر اس پر بھی مطمئن نہیں۔ اس نے پنجابی زبان میں ایک اخبار بھی شروع کر رکھا ہے۔ وسائل کی عدم موجودگی کی وجہ سے صرف چار صفحے کا اخبار ہے لیکن معیار کے لحاظ سے کسی عمدہ اخبار سے کم نہیں۔ تازہ ترین خبریں اور بلند پایہ مضامین روزنامہ ”لوکائی “ کی خصوصیت ہیں۔
پوری پاکستانی قوم نے اپنی قومی زبان اردو اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی مادری زبانوں کو بھی جس طرح نظرانداز کر رکھا ہے اور ان زبانوں کا خون انگریزی کو پلا رہے ہیں وہ افسوسناک تو ہے ہی لیکن اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ہم سب اپنی مادری زبانوں کی حالت زار کے بارے میں آنسو بہانے یا اظہار افسوس کرنے سے زیادہ کچھ نہیں کرتے۔ یہی صورتحال پنجابی کو بھی درپیش ہے۔ پنجابی زبان سے پیار کا اظہار کرنے والے میاں محمد بخش یا وارث شاہ کا کلام سن کر سردھنتے دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کے گھر میں پنجابی اخبار یا جدید پنجابی ادب سے متعلق کوئی کتاب کبھی دکھائی نہیں دیتی۔ یہی وہ دوعمل ہیں جو پنجابی زبان کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ ان نامساعد حالات کے باوجودہ بہت سے ادارے اپنی مادری زبان کے فروغ کے لئے اہم کردار ادا کر رہے ہیں جن میں سے فی الحال مجھے پنجابی ادبی بورڈ اور پنجابی مرکز کے نام یاد آ رہے ہیں۔ پنجابی ادبی بورڈ میرے دانشور دوست شفقت تنویر مرزا کی صدارت اور پروین ملک کی سیکرٹری شپ میں کام کر رہا ہے۔ اس ادارے نے کلاسیکی ادب کو عمدہ انداز سے شائع کرنے میں نام پیدا کیا ہے جبکہ پچھلے دنوں سردار محمدخاں کی ایک بہت اچھی پنجابی لغات بھی شائع کی ہے۔ محمد آصف خاں جیسے محقق نے اپنا خون جگر دے کر اس ادارے کو ایک روایت کا درجہ دے دیا تھا، اسی طرح ”پنجابی مرکز“ نے جدید پنجابی ادب کی ترویج کے لئے گزشتہ پانچ سات برس میں بہت کام کیا ہے۔ اس ادارے کے زیر اہتمام کتابوں کے علاوہ ایک پندرہ روزہ ”رویل“ کے نام سے شائع کیا جاتا ہے۔ یہ دونوں ادارے برائے نام گرانٹ میں، جو کسی اچھے دفتر کے کرائے سے بھی کم ہوتی ہے، بہت کام کر رہے ہیں۔ لیکن اس وقت میں اپنے دفتر میں پنجابی مرکز کے جمیل احمد پال کو اپنے سامنے بیٹھے منہ بسورتے دیکھ رہا تھا۔ آج دن بہت گرم تھا اور وہ گرمی سے زیادہ ایک اور وجہ سے پریشان دکھائی دے رہا تھا۔
”آخر آپ کو پریشانی کیا ہے“ میں نے پوچھا۔
”پریشانی سی پریشانی۔ پنجابی مرکز کو پنجاب حکومت کی طرف سے جو گرانٹ ان ایڈ ملتی ہے، اس سال وہ نہیں مل رہی“۔
مجھے یقین نہ آیا، تفصیل پوچھی تو پتہ چلا کہ امسال گرانٹ ان ایڈ دینے کے لئے حکومت نے تمام اداروں کو ہدایت کی کہ وہ پچھلے سال کے واؤچر بھی جمع کروائیں۔ یہ ہدایت عام ڈاک سے بھیجی گئی جو کسی وجہ سے پنجابی مرکز کو نہ مل سکی۔ بعد میں رابطہ کرنے پر پتہ چلا تو فوری طور پر واؤچر بھجوا دیئے گئے لیکن منسٹری آف انفارمیشن اینڈ کلچر کے کسی اہلکار کے خیال میں پنجابی مرکز کو اس معاملے میں لیٹ ہونے کا مزہ چکھایا جانا ضروری تھا۔ ابھی مالی سال باقی ہے لیکن گرانٹ والے اداروں کی فہرست میں سے پنجابی مرکز کا نام باہر کر دیا گیا اور یوں ادارے کو ایسے گناہ کی سزا دی گئی جو اس نے کیا ہی نہیں تھا۔ جب ادارے کا نمائندہ سیکرٹریٹ گیا تو اسے اوپر تک پہنچنے سے پہلے ہی ”اب اگلے سال آئیں“ کا حکم سنا دیا گیا۔ جمیل احمد پال کہہ رہے تھے ”عطاء بھائی ! ہم اپنے محدود وسائل سے بہت کام لیتے ہیں۔ کتاب کا بجٹ ممکنہ حد تک کم رکھتے ہیں۔ جس بجٹ میں ایک کتاب چھپتی ہے، اس میں دو چھاپ لیتے ہیں لیکن بہرحال وسائل کی ضرورت تو ہمیں ہے۔ کاغذ، چھپائی، بائنڈنگ کے اخراجات روز افزوں مہنگائی کے ساتھ ساتھ بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور اب گرانٹ نہ دے کر ہماری گردن پر انگوٹھا رکھ دیا گیا ہے“۔ میں خاموشی سے سن رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ہمارے ہاں علمی ادبی ادارے ہیں ہی کتنے، اور جو ایسا کام کر رہے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی کس قدر ضروری ہے۔ کام کرنے والوں کو سکون سے کام کرنے دینے کی بجائے سرکاری دفتروں کے چکر لگوائے جاتے ہیں اور پھر انہیں مایوسی کے کنویں میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ جمیل احمد پال نے بتایا ”اگلے سال کے پروگرام میں پنجاب کی تاریخ پر ایک بہت اہم کتاب ہے، اس کے علاوہ دو تحقیقی کتابیں، تین افسانوی مجموعے اور بچوں کے ادب کی چار کتابیں شائع کرنے کا پروگرام ہے لیکن گرانٹ نہ ہونے کی وجہ سے یہ سب رہ جائیں گی۔ براہ کرام اس سلسلے میں کچھ کیجئے، ہماری بات اوپر تک پہنچایئے“۔
میں نے کہا :”میں آپ کی بات ضرور اوپر پہنچاؤں گا۔ یقینا کسی غلط فہمی کی وجہ سے ایسا ہوا ہو گا۔ سیکرٹری اطلاعات و ثقافت محی الدین وانی تو نہ صرف یہ کہ ایک علم دوست شخصیت ہیں، علمی کام ہوتا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں بلکہ اس نوع کے کاموں میں آؤٹ آف دی وے جا کر بھی اداروں کی مدد کرتے ہیں۔ سو مجھے یقین ہے کہ یہ اطلاع ان تک پہنچائی ہی نہیں گئی ہو گی۔ اسی طرح خادم اعلیٰ پنجاب کی علم دوستی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ دانش سکولوں کے ذریعے وہ پنجاب کے دور دراز علاقوں میں علم کی روشنی پھیلانے کے لئے سرگرداں ہیں۔ قومی زبان سے عشق کے ساتھ ساتھ اپنی مادری زبان سے محبت بھی انہیں ورثے میں ملی ہیں۔ ان کے والد گرامی میاں محمد شریف وارث شاہ، بلھے شاہ اور میاں محمد بخش کے والا و شیدا تھے اور یوں ان کی روح ان عظیم صوفی شعراء کے حوالے سے ہونے والے علمی ادبی کام سے خوش ہو گی۔ بات صرف توجہ دلانے کی ہے۔ علی الصبح بیدار ہو کر رات گئے تک کام میں مصروف رہنے والے میاں شہباز شریف یقینا پنجابی زبان و ادب کے لئے بھی کچھ نہ کچھ وقت نکالیں گے ۔اور جناب محی الدین وانی سے بھی یہی توقع کی جا سکتی ہے!“
”لیکن عطاء بھائی ! بلھے شاہ نے کہا تھا، جھبدے بہوڑیں وے طبیبا ، نہیں تے میں مر گئی آں، اس ضمن میں جلدی کچھ کرنا ہو گا، پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے“۔ جمیل پال نے کہا ”مالی سال ختم ہونے میں صرف چند دن باقی ہیں۔ 15 جون کے بعد عملی طور پر یہ کام ختم ہو جاتا ہے۔ اگر دو چار دن تک ہمیں گرانٹ نہ ملی تو درجن بھر کتابیں شائع ہونے سے رہ جائیں گی“۔ پال نے کہا ! ”اور ہاں، براہ کرم ”اوپر“ تک یہ بات بھی پہنچایئے کہ کبھی اپنی مادری زبان کا روزنامہ ”لوکائی“ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ یہ روزنامہ بھی خون کی کمی کا شکار ہے۔ چند سال پہلے پنجابی صحافت کے لئے پنجاب حکومت کے کل اشتہاری بجٹ کا 5 فیصد دینے کا اصولی فیصلہ کیا گیا تھا لیکن اس پر عمل درآمد آج تک نہ ہو سکا۔ براہ کرم اس سلسلے میں بھی کچھ کیا جائے۔ اگر روزنامہ ”لوکائی“ کو صرف دو ہزار سنٹی میٹر اشتہار مہینے بھر میں مل جائیں تو ہمارا ”ساہ سوکھا“ ہو جائے گا۔ یوں سمجھئے کہ اردو کے کسی بڑے روزنامے کو ایک دن میں جتنے اشتہار ملتے ہیں، ہمیں ایک مہینے میں اتنے اشتہار دے دیئے جائیں۔“ میں خاموش بیٹھا سن رہا تھا۔ کتنے چھوٹے چھوٹے مسائل ہیں لیکن چھوٹے اداروں کے لئے معمولی مسائل ہی پہاڑ جیسے ہوتے ہیں۔
”آپ ہماری بات اوپر پہنچائیں گے ناں“ جمیل پال نے معصومیت سے سوال کیا۔ ”کیوں نہیں“ میں نے کہا اور پھر مجھے خیال آیا کہ ایک روزنامہ ”لوکائی “ ہی نہیں روزنامہ ”بھلیکا“ بھی تو لاہور سے نکلتا ہے اور کسمپرسی کا شکار ہے۔ کیا ہماری پنجاب حکومت ان سب کے لئے کچھ نہیں کرے گی؟ آخر میں ایک تازہ غزل کے چند اشعار :
رائیگانی کے سفر میں وہ نظر آیا تو کیا
ختم ہونے کو سفر ہے، ہم سفر آیا تو کیا
اے زمانے میں تجھے سمجھا بہت تاخیر سے
اب اگر تجھ کو برتنے کا ہنر آیا تو کیا
کتنے دروازوں پہ میں نے دستکیں دیں عمر بھر
بے گھری کے اس سفر میں اب وہ گھر آیا تو کیا
اجنبی رستوں میں میرے روز و شب گزرے عطا
اب کہیں جا کر تمہارا رہگزر آیا تو کیا؟