• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب سے چیف جسٹس محترم ثاقب نثار نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے عدلیہ اور جج حضرات پر تنقید کرنے والوں کو گائوں کے بابے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ بابے کو بدنام مت کرو اور یہ بھی کہ بابا نہ کسی پلان کا حصہ ہے اور نہ ہی اُس پر کوئی دبائو ڈالنے کی جرأت کر سکتا ہے، اُس وقت سے سیاست اور میڈیا بابا بابا ہی کر رہا ہے۔ کوئی بابے کو یاد دلا رہا ہے کہ کس طرح بابے نے اس ملک میں ہر مارشل لاء اور ڈکٹیٹرز کے سہولت کار کاکردار کیا تو کوئی بابے کو مقدمات میں بڑے بڑے سیاسی رہنمائوں کو سزا دینے یا اُنہیں رعایت دینے کے طعنے دے رہا ہے۔ گویا سب بابے پر اپنا جائز و ناجائزغصہ نکال رہے ہیں۔ میں کسی ڈکٹیٹر یا کسی سیاسی رہنما کی بات نہیں کروں گا کہ کس سے بابے نے انصاف کیا اور کس سے ناانصافی۔ میں تو عام لوگوں کی بات کروں گاکہ جن کی حالت یہ ہے کہ وہ بابے کے نام سے سہم جاتے ہیں۔ بابا کو تو انصاف کا استعارہ ہونا چاہیے لیکن یہاں لوگ بابے کے پاس جانے سے ڈرتے ہیں۔ ڈر کی وجہ یہ ہے کہ بابا فیصلے ہی نہیں کرتا، سالہا سال گزر جاتے ہیں، دھائیاں بیت جاتی ہیں، نسلیں ختم ہو جاتی ہیں لیکن بابا فیصلہ نہیں کرتا۔ کوئی کسی حق دار کی زمین پر قبضہ کر لے تو مظلوم سوچتا ہے کہ کسی سفارش یا ویسے ہی قابض کو کچھ دے دلا کر اپنی زمین واپس لے لوں کیوں کہ بابے کے پاس جانے کا مطلب سالوں، دھائیوں کا انتظار اور پیسوں کا ضیاع۔ اگر کوئی مر جائے تو ورثا کو جائیداد کے بٹوارے کے لیے بابے کے پاس ایک مقدمہ لے کر جانا پڑتا ہے جس کے نتیجہ میں وراثت نامہ ملتا ہے۔ وکیلوں کی فیسوں کا بوجھ ایک طرف اس معاملہ میں بھی مہینوں اور سال لگ جاتے ہیں۔ بابے کے انصاف کا پورا نظام دیکھیں اور لوگوں کے تجربات سنیں تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ یہ نظام مظلوموں اور حق داروں کو انصاف دینے کے لیے نہیں بلکہ ظالم کا ساتھ دینے کے لیے کام کر رہا ہے۔ کرائے دار کرایہ دینا بند کر دے اور مالک مکان کرایہ دینے پر اصرار کرے تو کرایہ دار کہتا ہے جا نہیں دیتا۔ مالک مکان کہے کہ میں تجھے بابے کے پاس لے جائوں گا تو کرایہ دار کہتا ہے بڑے شوق سے۔ بلکہ ہمارے ایک ہمسایہ نے اپنا گھر کرایہ پر دیا تو کرایہ دار نے کرایہ ادا کرنے سے انکار کرتے ہوئے مالک مکان کو کہا کیسا کرایہ مانگتا ہے میں تو مکان کا مالک ہوں۔ اس پر مالک مکان بابے کے پاس گیا تاکہ ثابت کرے کہ میں مالک ہوں لیکن اس میں مہینے نہیں سال گزر گئے۔ زمینوں اور جائیدادوں پر قبضے کرنے والوں کا سب سے بڑا سہارا بابے کا اسٹے آرڈر، ایک سے دوسرے، پھر تیسرے اور چوتھے بابے کی اپیلوں کی قطار اور لمبی لمبی تاریخیں اور سالہا سال کی مقدمہ بازی ہے۔ کئی ایک ایسے بھی کیس ہیں جہاں اپیل در اپیل کے بعد بڑے سے بڑے بابے کا فیصلہ اگر کوئی مظلومعشروں کے بعد لے بھی آیا تو بھی اُس غریب کو کسی ایک بہانے یا دوسرے بہانے یاپھر کسی بابے کی عدالت کے چکروں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ مشرف دور میں بابے کی آزادی کے لیے قوم نے ایک جدوجہد کی لیکن ہمیں کیا خبر تھی کہ جلد اور سستا انصاف کی بجائے اب تو بابے تک پہنچنا ہی مشکل اور ناممکن ہو جائے گا۔ ماضی میں وکیل کم فیس پر بھی مل جاتے تھے لیکن اب تو بابے تک اپنی دادرسی پہنچانے کے لیے لاکھوں، کروڑوں روپے فیس کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ گویا غریب اپنا گھر بیچے گا، زمین بیچے گا تو پھر ہی شاید بابے تک پہنچ سکتا ہے۔ لیکن بابے کا نظام تو سالہا سال کی فیسیں، سالہاسال بلکہعشروں کی مقدمہ بازی مانگتا ہے جو غریب کیا امیروں کو انصاف کی تمنا میں بے گھر کر دیتا ہے ۔ جس کے پاس گھر نہیں، زمین نہیں اُس کے لیے انصاف نہیں۔ جو وکیل کو پیسے نہیں دے سکتا اُس کے لیے بابے کے دروازے بند۔ بابے سیاسی مقدموں میں تنقید کی وجہ سے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ میری بابوں سے درخواست ہے کہ خدارا اپنے اصل کام کو دیکھیں، اُس پر توجہ دیں، اس فرسودہ نظام عدل جو دراصل نظام ظلم بن چکا ہے اس کو بدلیں۔ بابے جو مرضی اپنے بارے میں کہیں اس ملک میں عام لوگوں کو انصاف نہیں ملتا، بابے کا نظام انصاف ظالم کو سوٹ کرتا ہے اور مظلوم اور غریب کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں۔ کاش بابے سمجھ لیں کہ لوگوں کو اُن سے کوئی امید نہیں بلکہ ڈر لگتا ہے

تازہ ترین