وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی یہ بات تو عموماً کہتے رہتے ہیں کہ ان کی حکومت اپنی آئینی میعاد پوری کرے گی لیکن اس بار انہوں نے اپنا مفہوم ان الفاظ میں مزید واضح کیا ہے کہ ”کرپشن اور اپوزیشن سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں“۔ ہم نہیں سمجھتے کہ انہوں نے مذکورہ الفاظ کے ذریعے اپنی حکومت کے کسی بھی خطرے سے آزاد رہنے کی کسی ”غیرمرئی ضمانت“ کی طرف اشارہ کرنا چاہا ہے یا محض اپنے ”غیرمعمولی“ اعتماد کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ پچھلے ساڑھے تین برسوں کے دوران اپوزیشن سمیت کسی کو بھی ان کی حکومت کو خطرات یا مشکلات سے دوچار کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ اس کے برعکس موجودہ حکومت پاکستان کی اب تک کی تاریخ کی وہ پہلی حکومت ہے جس کی آئینی میعاد کا پورا ہونا اپوزیشن سمیت تمام سیاسی و سماجی قوتوں کی خواہش رہی ہے۔ یہ بات بڑی حد تک درست ہے کہ موجودہ حکومت کو اقتدار سنبھالنے کے وقت سے لیکر اب تک اپنے مخالفین کی طرف سے کسی سنگین خطرے کا سامنا نہیں رہا جس کے باعث مخالف جماعتوں پر ”فرینڈلی پوزیشن“ کا لیبل لگایا جاتا رہا ہے۔ مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ موجودہ حکومت اپنے اقدامات اور طرز عمل کے ذریعے خود ہی خطرات کو جنم دیتی چلی آرہی ہے۔ وزیراعظم زبان سے لاکھ کہتے رہیں کہ انہیں کوئی خطرہ نہیں ، مگر جس انداز سے ان کی حکومت قومی اداروں پر ضربیں لگانے میں مصروف ہے اور پہلے دن سے جس نوع کے جوڑ توڑ کا سلسلہ نظر آرہا ہے، اسے دیکھتے ہوئے کون کہہ سکتا ہے کہ حکومت کو کسی جانب سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ وزیراعظم کے اس دعوے کو شاید دنیا بھر میں حیرت اور تعجب کے ساتھ دیکھا جائے گا کہ انہیں کرپشن سے بھی کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ مہذب اور جمہوری معاشروں میں رشوت ، بدعنوانی ، میرٹ کی پامالی ، فراڈ اور خورد برد کے اسکینڈلوں کو سنگین قومی جرم تصور کیا جاتا ہے۔ ان معاملات کے صرف الزامات ہی کئی ملکوں میں پوری پوری کابیناؤں کے ازخود مستعفی ہونے یا پارٹی کے اندر تبدیلی کے ذریعے ہٹائے جانے کا باعث بنتے رہے ہیں۔ امریکی صدر نکسن کو صرف اس بنیاد پر اقتدار چھوڑنا پڑا کہ صدارتی انتخابات کے دوران ان کے انتخابی کیمپ کی طرف سے واٹر گیٹ نامی عمارت میں مخالف پارٹی کے خفیہ اجلاس کی کارروائی جاننے کی کوشش کی گئی تھی۔ جاپان میں کرپشن کے الزامات کے تحت ایک سے زائد حکومتوں کی تبدیلی عمل میں آچکی ہے۔ مگر یہ ہمارے حکمرانوں ہی کا دل گردہ ہے کہ وہ اپنے عرصہ اقتدار کے دوران آئے روز سامنے آنے والے اسکینڈلوں کو کوئی خطرہ نہیں سمجھتے جبکہ اصولی بات یہ ہے کہ جو حکومتیں کرپشن اور بدعنوانی میں ملوث ہوتی ہیں وہ اپنے جواز سے خودبخود محروم ہوجاتی ہیں۔ جہاں تک موجودہ حکومت کی کارکردگی کا تعلق ہے اس کے ساڑھے تین برسوں کے دوران عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان کی بجائے مہنگائی ، بیروزگاری اور خودکشیوں کے تحفے ہی ملے ہیں جبکہ غلط بخشیوں کے ذریعے اہم عہدوں پر نااہل افراد کی تقرریوں اور ان کے ذریعے کی جانے والی بدعنوانیوں نے اداروں کا پورا ڈھانچہ ہلاکر رکھ دیا ہے۔جناب گیلانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت اور سپریم کورٹ آمنے سامنے نہیں آسکتے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جس کا ہر مہذب ملک میں نہ صرف خیال رکھا جاتا ہے بلکہ جمہوری معاشروں کی سب سے بڑی پہچان یہی ہے کہ وہاں عدلیہ کے احکامات پر ان کے الفاظ اور روح کے مطابق خوشدلی سے عمل کیا جاتا ہے اور حکومت کا کوئی فرد یہ تاثر دینے کی کوشش نہیں کرتا کہ وہ عدلیہ سے زیادہ قانون کو جانتا ہے ۔ وطن عزیز میں پچھلے برسوں کے دوران عدلیہ کے فیصلوں کی جس طرح مزاحمت کی جاتی رہی اور ان پر عملدرآمد میں رکاوٹیں ڈالنے کا وطیرہ اختیار کیا گیا، اسے وزیراعظم صاحب اگرچہ تصادم اور محاذ آرائی جیسے نام دینے سے گریز کرتے ہیں مگر انہیں تعمیل ارشاد اور عدالتی فیصلوں کے احترام کا عنوان دینا بھی ممکن نہیں۔ این آر او مقدمات کے سلسلے میں بعض فیصلوں پر عملدرآمد کے حوالے سے لیت و لعل ، کئی افراد کے ان کے عہدوں سے ہٹائے جانے کے احکامات کے بعد دوسرے اہم عہدوں پر ان کی تعیناتیوں، این آئی سی ایل اسکینڈل کی تحقیقات کے حوالے سے سپریم کورٹ کی ہدایات پس پشت ڈالنے کے حربوں سمیت جو کچھ بھی ہورہا ہے اسے پاکستانی عوام اچھی طرح سمجھ رہے ہیں اور دنیا بھی اس کا بغور مشاہدہ کررہی ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ پچھلے ساڑھے تین برسوں میں قومی احتساب بیورو کو غیرموثر بنانے کے تو تمام طریقے اختیار کئے گئے لیکن عوامی نمائندوں سمیت اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات کے محاسبے کے لئے کوئی قابل اعتماد قانون لانے سے گریز کیا گیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے ادارے کو، جس کی رپورٹیں بہت سے ملکوں میں اصلاح احوال کی نشاندہی کیلئے استعمال کی جاتی ہیں، پاکستان میں کام کرنے سے روکا جارہا ہے۔ کرپشن، بدعنوانیوں اور غلط بخشیوں کے ذریعے ریلوے، پاکستان اسٹیل ، واپڈا ، پیپکو جیسے قومی اداروں کو تباہ کردیا گیا ہے۔ ٹیکس جمع کرنے والا وفاقی محکمہ بدعنوان عناصر کو ٹیکسوں سے بچا کر قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والے ادارے کے طور پر جانا جانے لگا ہے۔ حج جیسے مقدس فریضے تک کو کرپشن اور بدعنوانی کا ذریعہ بنالیا گیا۔ زکوٰة کی تقسیم ، زلزلے اور سیلاب سے متاثرہ افراد کی امدادی رقوم تک کو خورد برد سے نہیں بچایا جاسکا۔ چینی ، آٹے، گھی جیسے اسکینڈل اس پر مستزاد ہیں۔ دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں سے لیکر مہنگائی، لوڈ شیڈنگ ، کرنسی کی بے قدری سمیت ہر حکومتی ناکامی کی ذمہ داری سابقہ حکمرانوں پر عائد کرنے کا سلسلہ ساڑھے تین برس بعد بھی جاری ہے جبکہ اصلاح احوال کی کوششوں کا دور دور تک سراغ نہیں ملتا۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ ان کی قلت کے ذریعے صنعتوں اور کاروبار کی تباہی کا سلسلہ جاری ہے۔ ان تین برسوں میں غربت کی لکیر سے نیچے جانے والوں کی تعداد چار کروڑ سے بڑھ کر سات کروڑ ہوچکی ہے جبکہ بیروزگاروں اور خودکشیاں کرنے والوں کی تعداد بھی مسلسل بڑھتی جارہی ہے ۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کرنے والے عوام کو لاٹھی چارج اور فائرنگ کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بدامنی اور عدم تحفظ کی کیفیت نے عوام کا جینا مشکل بنادیا ہے۔ جبکہ اس کے نتیجے میں کھربوں روپے کا سرمایہ ملکی صنعتوں سے نکل کر بنگلہ دیش، ملائشیا اور دوسرے ممالک میں منتقل ہوچکا ہے۔ پاکستان کے حقوق انسانی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے باعث پچھلے چھ ماہ کے دوران 1138 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھوچکے ہیں ۔ اس کے باوجود وزیراعظم اگر اپنی حکومت کو ہر طرح سے محفوظ ومامون تصور کرتے ہیں تو اس کا مطلب اس کے سوا کیا لیا جاسکتا ہے کہ انہیں عوام کے بدلے ہوئے موڈ اور اس مجموعی فضا کا قطعاً اندازہ نہیں، جو چند برس قبل کی انتخابی فضا سے یکسر مختلف ہے۔ اب لوگ انتخابات کے وقت محض نعروں کی بنیاد پر نہیں بلکہ کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دیں گے۔ اس لئے ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ عوام کی امنگوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے انہیں ریلیف دینے کے لئے تمام ممکنہ تدابیر بروئے کار لائی جائیں۔ غریب اور متوسط طبقے کے مسائل حل کرنے، کرپشن روکنے، عدالتی احکامات کی تعمیل کرنے اورحکومتی اخراجات میں کمی جیسے اقدامات کے لئے اگرچہ وقت زیادہ نہیں رہا ہے مگر پھر بھی خاصی گنجائش موجود ہے۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہمارا کام نیک و بد سے حضور کو آگاہ کرنا ہے۔ اور اپنی قوم کے ایک ترجمان کی حیثیت سے یہ کام ہم کرتے رہیں گے۔
کراچی میں بد امنی۔ حکومت سنجیدگی سے توجہ دے
کراچی میں گزشتہ کچھ دنوں سے بد امنی کے واقعات میں تشویشناک تیزی آ گئی ہے۔ شہر کے بعض علاقے خاص طور پر اس کی زد میں آئے ہوئے ہیں۔ قصبہ کالونی، اورنگی اور اردگرد کی آبادیوں پر خوف و ہراس کا پہرہ ہے۔ لوگ گھروں کے اندر محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ چلتی گاڑیوں پر فائرنگ کی گئی ہے جس سے متعدد افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ ایک منی بس میں پانچ لاشیں ملی ہیں جنہیں گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا ہے۔ متاثرہ علاقوں میں پولیس اور رینجرز امن و امان قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن ظاہر ہے کہ ایسے روایتی طریقوں سے صورت حال میں عارضی طور پر توکچھ بہتری آ سکتی ہے، مستقل امن قائم نہیں کیا جا سکتا۔ ڈبل سواری پر ایک مرتبہ پھر پابندی لگا دی گئی ہے۔لیکن اس طرح کے اقدامات سے اصل مسئلہ تو حل نہیں ہو گا۔ کراچی کا امن و امان صوبائی حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہئے۔ لیکن عملاً ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے اسے معمول کا حصہ سمجھ کر قبول کر لیا ہے۔ جو ظاہر ہے کہ بے حد خطرناک بات ہے۔ مسلسل بدامنی اور خوف و ہراس کے مارے ہوئے شہری بجا طور پر سوال کر رہے ہیں کہ اگر کوئی حکومت ایک شہر میں امن قائم نہیں کر سکتی تو اس سے پورے صوبے یا ملک میں قیام امن کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟