دودریا کراچی کا وہ " تفریحی علاقہ" جہاں جانا " قابل فخر" سمجھا جاتا ہے۔ خاص طور پر " نوجوان نسل" کے لیے ۔ یہ ایک لمبی سڑک" سی ویو" سے دو دریا تک جاتی ہے ۔بیچ میں ایک خاصا سنسان علاقہ آتا ہے جہاں سڑک کے دونوں طرف آبادی نہیں ہے۔ شرو ع میں جب دو دریا کو آبا د کیا گیا تھا تو یہ بات بہت عام ہوچکی تھی کہ یہ سنسان علاقہ بڑا خطرناک ہے کیونکہ یہاں ڈاکواوربھتہ خور چھپے بیٹھے ہوتے ہیں اور اچانک سامنے آکر لوگوں کو لوٹ لیتے ہیں۔ جب یہ وارداتیں عام ہوگئیں تو لوگوں نےڈر کے مارے جانا کم کردیا یا قافلے کی شکل میں جاتے یااس علاقے سے تیزی سےگزر نے کی کوشش کرتے۔ جب شکایات عام ہوگئیں تو پھر پولیس کو وہاں تعینات کیا گیا۔ لیکن منچلےنوجوانوں کے لیے یہ ابھی بھی " شغل میلے" کی جگہ ہے۔ جہاں وہ اپنے " تھرل" کے جوش کو بھرپورپورا کرتے ہیں۔ جس میں سب سے اہم " طاقت" کے استعمال کا مظاہرہ ہے۔ جہاں رؤساوں کی " بگڑی ہوئی اولاد"ا پنی " دولت" اور " پاور فل" ہونے کو ثابت کرنے کے لیے کسی کی " قیمتی جان" لینے سے بھی باز نہیں آتے۔ مشہور زمانہ شاہ زیب قتل ہر کسی کے علم میں ہے اور کیسے اس واقعے کے بعد لوگ جمع ہوئے ،احتجاج کیا جس کے بعد " بگڑے رئیس" کوگرفتار کرلیا گیا۔ لیکن افسوس" ریمنڈڈیوس" جیسے " بدنامہ زمانہ" کیس کو " مثال" بناکر " اسلامی قوانین" پر عمل کرکے " مضبوط مسلم معاشرے" کی مثال قائم کی گئی۔ ہاں اس سے کسی کو غرض نہیں کہ اسلامی شعائر کے تحت " رب العزت کی محبت" میں یا غربت کی وجہ سے دیت قبول کی جاتی ہے۔ تاکہڈرا دھمکاکر خاندان کا نام ونشان مٹ جانے کے خوف سے دیت قبول کی جائے۔۔۔۔۔شاید اس " صدمے" سے کوئی ذی شعور بامشکل ہی نکل سکے۔ لیکن قاتل کے خاندان کے لیے ایک اور مثال ہاتھ آگئی۔ یوں چند دنوں پہلے اسی " خونی سڑک" ریسنگ لگانے کے شوق میں کس طرح ایک رئیس کے بیٹے نے دوسرے رئیس کے بیٹے کو باآسانی " دوسرے جہاں رخصت" کردیا اب ان کے لیے " قصاص" شرط نہیں کیونکہ " دیت" کی مثالیں موجود ہیں۔ ایسے میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسےیہ " دو دریا آباد" ہی اس لیے کیا گیا ہے تاکہ لوگوں میں قصاص کے مقابلے میں " دیت" کی اہمیت کو واضح کیا جاسکے۔ یعنی آؤنوجوان نسل جو جی میں آئےموج مستیاں کرو، غصہ آجائے تو جان بھی لے لو۔۔۔۔فرق کچھ بھی نہیں پڑے گا۔ بلکہ " شہرت پکی" ہےبڑے ہی افسوس کی بات ہے کراچی شہر جس کی آبادی دوکروڑ سے زیادہ ہے گنجان آباد علاقوں میں ابھی تک پکی سڑکیں موجود نہیں ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ پیدل سفر کرنے پر مجبور ہیں کہ سواری ان کے دروازے تک نہیں آسکتی۔ لیکن دوسری طرف " سنسان علاقے" میں شاندار سڑکیں تعمیر ہیں۔ جہاں نہ پانی ہے نہ بجلی وگیس کی ترسیل۔ لیکن نوجوانوں کو اپنے بڑوں سے چھپ کر زندگی انجوائے کروانے کے لیے یہ علاقہ تعمیر کروادیا گیا ہے۔جہاں خونی کھیل مسلسل جاری ہے۔ کوئی ہے جو اس بات کا نوٹس لے کہ حکومت اور اداروں کا کام عوام کی اکثریت کے لیے سہولیات فراہم کرنا ہے۔ جس میں سب سے اہم حمل ونقل کے ذرائع اور بجلی پانی اور گیس کی ترسیل ہے۔ لیکن کراچی کے بہت سے علاقے اس سے محروم ہیں اور ٹوٹی پھوٹی اور کچی سڑکوں کی بدولت آئے دن حادثات ہوتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف سی ویو کی صاف شفاف اور کھلی سڑک جن کی ابھی ضرورت بھی نہ تھی لیکن تعمیر کردی گئیں ۔ یعنی یہ خاص طور پر منصوبہ بندی کرکے قائم کی گئیں۔ آخر ان خونی سڑکوں کی تعمیر کا ذمہ دار کون؟.