وطن واپسی سے ایک روز قبل دبئی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے واضح طور پر کہا تھا کہ
’’مجھے دھمکیاں مل رہی ہیں، بے شک مجھے ائیرپورٹ پر گولی مار دی جائے مگر میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اپنے وطن ضرور جائوں گی۔ میرے ملک اور میرے عوام کو میری ضرورت ہے‘‘۔
وطن واپسی کے وقت محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو بخوبی علم تھا کہ ان کا ملک اس طرح نہیں رہا جیسا انہوں نے چھوڑا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید ان وحشی درندوں سے مزاحمت کرنے وطن واپس آئیں تھیں۔ جنہوں نے وزیرستان سے لے کر کراچی تک بارود کے ڈھیر لگا رکھے تھے۔ یہ شدت پسند ملک کے چپے چپے پر بم پھوڑ رہے تھے۔ اسکول، بازار، مساجد، امام بارگاہ تک ان کی درندگی سے محفوظ نہیں تھے۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو اس بات کا سخت رنج تھا کہ ان شدت پسندوں نے سوات سے ملک کا پیارا پرچم اتار دیا تھا۔ افواج پاکستان کے جوانوں کے گلے کاٹے جا رہے تھے۔ یہ صورتحال محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے لئے ناقابل برداشت تھی۔ وطن واپسی سے پہلے محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے تمام سیاسی مخالفین کو معاف کردیا تھا حالانکہ انہوں نے انہیں بہت دکھ دئیے تھے اور ان کے لئے وطن کی دھرتی تنگ کر دی تھی۔ اگر ان کی کوئی لڑائی تھی تو فقط ان عناصر سے جو معصوم انسانوں کا خون بہا رہے تھے۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید ایک ذہین اور قابل سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک پکی وطن پرست بھی تھیں۔
اکتوبر 2007ء کو جب محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے وطن واپسی کا فیصلہ کیا تو ان کے مخالفین کے پیٹ میں این آر او کے مروڑ اٹھے۔ جی ہاں! محترمہ بینظیر بھٹو نے بطور سیاستدان مذاکرات کے دروازے کبھی بند نہیں کئے۔ ان کے پاس مذاکرات کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا کیونکہ عدالت عظمیٰ نے آئین کا دفاع کرنے کے بجائے آئین شکن کے ہاتھ مضبوط کئے تھے۔نہ صرف یہ کہ اعلیٰ عدلیہ کے بعض جج صاحبان نے آئین شکن کو آئین کی چیر پھاڑ کا اختیار بھی دے دیا اور آئین شکن کے ایل ایف او پر حلف لیا، رہی سہی کسر ان جماعتوں نے پوری کی جن کو پیپلزپارٹی کی مخالفت کے بدلے پارلیمنٹ میں لایا گیا تھا۔ ان جماعتوں نے جنرل مشرف کے لئے آئینی اقدامات کو آئینی تحفظ دیا۔ نومبر 2007ء کو جب جنرل مشرف نے دوسری بار ایمرجنسی نافذ کی تو محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے اکیلے جنرل مشرف کی مزاحمت کی باقی سب پارٹیاں پتلی گلی سے نکل گئیں۔
18اکتوبر کو محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی وطن واپسی کے وقت کارساز کے مقام پر ڈیڑھ سو کے قریب انسانوں کا خون کیا گیا تو این آر او پر گلا پھاڑ کر اپنا گریبان چاک کرنیوالوں کی زبانیں عارضی طور پر بند ہوگئیں۔ دراصل آمر کی تابعداری کرنے والوں کی سیاست کو خطرہ لاحق تھا۔
محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی پہلی ترجیح آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات تھی تاکہ اقتدار آمریت سے جمہوریت کو منتقل ہو۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا اصولی موقف تھا کہ کوئی آمریت دہشت گردوں کو شکست نہیں دے سکتی کیونکہ وہ خود دہشت کی علامت ہوتی ہے۔ غور طلب پہلو یہ ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا راستہ روکنے کے لئے ایک طرف دہشت گرد بارودی سرنگیں بچھا رہے تھے تو دوسری طرف کچھ عناصر نے انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ انتخابات کے بائیکاٹ کا مقصد اور مطلب یہ تھا کہ صورتحال جوں کی توں رہے جو دراصل جنرل مشرف کی غیراعلانیہ حمایت تھی۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ مضبوط سیکورٹی ایسے سیاستدانوں کو دی گئی جن کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے۔ ان سیاستدانوں کو کوئی خطرہ نہیں تھا مگر محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو بے شمار خطروں کے باوجود سیکورٹی مہیا نہیں کی گئی۔ بطور سابق وزیراعظم اور عالمی لیڈر کے ناطے مضبوط اور غیرمعمولی سیکورٹی محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا حق اور ریاست کی ذمہ داری تھی۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کرشمہ ساز اور سحر انگیز شخصیت تھیں وہ عالمی رہنمائوں سے برابری کی سطح پر گفتگو کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔
محترمہ بینظیر بھٹو شہید دو مرتبہ اقتدار میں آئیں تو ملک اور عوام کی بھرپور خدمت کی۔ بھارت سے ایک دوسرے ملک کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ نہ کرنے کا معاہدہ ایک تاریخی معاہدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان انتہائی کشیدہ تعلقات کے باوجود معاملات قابو میں رہے۔ آپ نے پاکستان کے پرامن ایٹمی پروگرام کے خواب کی مکمل تعبیر کی۔ پولیو سے پاک ملک ان کا خواب تھا۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید فرمایا کرتی تھیں کہ میں نہیں چاہتی کہ میرے ملک کے بچے گندگی کے ڈھیر سے رزق تلاش کریں۔ 18اکتوبر کو وطن واپس آئیں تو ملک گوناگوں مشکلات کا شکار تھا۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید میں یہ بھرپور صلاحیت تھی کہ وہ ملک کو مشکلات سے نکالیں مگر یہ بات وطن دشمنوں کو پسند نہیں تھی۔
آج کے دن انہیں روالپنڈی میں سرعام قتل کر دیا گیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے جان کا نذرانہ دے کر یہ ثابت کر دیا کہ عوام کا قائد شان سے جیتا ہے اور وقار سے امر ہوتا ہے۔ انکے سیاسی جانشین آصف علی زرداری نے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے ہر خواب کی تعبیر کی اور ان کے مشن کی تکمیل کی۔ 18دسمبر 2008ء کو محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کرنیوالوں کا خیال تھا کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے بعد بھٹو شہید کا نظریہ ختم ہو جائے گا، وفاق کی زنجیر ٹوٹ جائے گی مگر ان کا یہ خواب اس وقت چکنا چور ہوگیا جب بلاول بھٹو زرداری نے ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ کا نعرہ لگایا۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اب پیپلزپارٹی کا پرچم تھام لیا ہے۔ عوام کو بلاول بھٹو زرداری میں قائد عوام بھٹو شہید بھی نظر آتے ہیں اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید بھی۔ بقول شاعر
’’یہ روشنی ہی تیرا انتقام ہے بی بی‘‘