علامہ اقبال کی معروف غزل ”خودی کا سرِ نہاں لا الہ الا اللہ“کی زمین سلطان باہو رحمة اللہ علیہ کے ہاں دیکھ کر میں اپنی کم علمی پر حیران ہوا اور پھر ماہرینِ اقبالیات پر بھی حیرت ہوئی کہ علامہ اقبال پرسلطان باہو کی فارسی شاعری کے اثرات کا کبھی کسی نے تذکرہ ہی نہیں کیا۔ سلطان باہو کی اسی نظم کا اردو ترجمہ پیش کرتا ہوں:
نجاتِ خلقتِ جاں لا الہ الا اللہ
کلید ِ باغِ جناں لا الہ الا اللہ
یہ خوفِ آتشِ دوزخ یہ خطرہ ء ابلیس
وہاں کہاں کہ جہاں لا الہ الا اللہ
بگاڑ سکتی ہے کیا اس کا چرخ کی گردش
ہے جس کی جائے اماں لا الہ الا اللہ
یہ جائیدادِ جہاں کچھ نہیں ہے اس کیلئے
ہے جس کے دل میں نہاں لا الہ الا اللہ
یہ کائنات یہ عالم نہیں وہاں باہو
جہاں جہاں پہ عیاں لا الہ الا اللہ
میں ان دنوں سلطان باہو کی کتاب ”کلید توحید (خورد) اور کلیدِ توحید (کلاں ) پر کام کر رہا ہوں اور اس سلسلہ میں پیرسلبطان نیازالحسن کا انتہائی ممنون ہوں جنہوں نے مجھے اس نام کی طرف متوجہ کیا اور میں باہو کے ”ب“ میں گم ہو گیا۔ میں مولانا ظفر اللہ شاہ کا بھی انتہائی احسان مند ہوں جنہوں نے اپنے دست مبارک سے مجھے کلید توحید تھمائی اور مجھے فارسی زبان کی اس کتاب کے اردو ترجمے کی طرف متوجہ کیا۔ میں جیسے جیسے اس کتاب کو پڑھتا چلا گیا، میرے اندر عجیب و غریب تبدیلیاں رونما ہوتی گئیں۔ میں جو ایک بے علم تھا عالم فاضل ہوتا گیا، راز کھلنے لگے، غنی ہونے لگا، چشم حیرت سیر حاصل ہونے لگی، ارتکاز ذہن سے روشنی پھوٹنے لگی، نفسِ امّارہ مجھ سے نکل کر کمرے کے ایک کونے میں دبک کر رہ گیا۔ سلطان العارفین سلطان باہو نے توحید کی وہ کلید اس کتاب میں رکھ دی ہے جس سے طلسمِ کُن کا ہر تالا کھل سکتا ہے۔ درِ لاہوت وا ہو سکتا ہے، کائنات سمٹ کر مٹھی میں آ سکتی ہے، راز کْن فکاں افشا ہو سکتا ہے، قطرہ سمندر کا ادراک کر سکتا ہے۔ انہوں نے اس کتاب کا نام کلید توحید کیوں رکھا۔ صوفیا کرام کے نزدیک توحید کیا ہے۔
توحید کا تصور خالق اور مخلوق کے درمیان جو تعلق ہے۔ اس میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔۔۔ اگر میں اپنے دل میں ایک تصوراتی عالم تخلیق کر لیتا ہوں۔ جس میں ایک بھرپور زندگی موجود ہے۔ وہ دنیا اس وقت تک قائم رہے گی جب تک وہ خیال وہ تصور میرے ذہن میں موجود رہے گا جیسا ہی میں اس خیال کو چھوڑ کر کچھ اور سوچنے لگ جاوٴں گا وہ دنیا وہ عالم ایک ثانیہ میں ختم ہوجائے گی۔ یعنی اس دنیا کا تعلق میرے خیال سے تھا میرے تصورات سے تھا میری ذات سے تھا۔ بالکل اسی طرح اللہ تعالی اگر کائنات سے اپنی توجہ ہٹالے تو کائنات ختم ہوجائے گی مگروہ خالق اکبر ہے وہ کسی توجہ کے مرکوز رکھنے کا محتاج نہیں اس نے کہہ دیا کُن اور اس کی توجہ قائم ہوگئی۔
اس کی تخلیق بالکل اسی طرح اس کا ادراک نہیں کر سکتی۔ جس طرح میری تصوراتی دنیا کا کوئی کردار میرے بارے میں نہیں سوچ سکتا۔ سو خالق کا مکمل تصور انسانی شعور سے ماورا ہے۔ وہ شکل اور تصور سے بے نیاز ہے یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ جو کہا گیا ہے کہ اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے اس کا کیا مفہوم ہوا مگر اس سے پہلے اسمِ باہو کے مشک آباد حروف کی قوسِ قزح کو دیکھتے ہیں جنہوں نے علم و فضل کے رنگ پہن رکھے ہیں، عرفان و آگہی کی خوشبوئیں اوڑھ رکھی ہیں۔ حروفِ باہو کے اسرار ورموز کھولنے کیلئے تو کئی دفتر درکار ہیں مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کوسرخ شبان باہو دارکہہ کر پکارا جاتا تھا۔ کیونکہ ان کے عصا کا نام باہو تھا۔ وہ عصا جو معجزہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ فرہنگ جہانگیری کے مطابق قدیم ہندوستانی بادشاہوں کا لقب باہو ہوا کرتا تھا۔ اس زمانے کا سب سے بڑا بادشاہ مہا باہو یعنی سلطان باہوکہلاتا تھا۔ ہندوستان میں ایک قدیم فرشتے کا نام بھی باہو ہے جس کے ماننے والوں کو ”باہودیہ“ کہا جاتا ہے ان کے نزدیک وہ فرشتہ جو انسانی شکل میں ہے، موتیوں کا تاج سر پر رکھے ہوئے ہے، انسانی کھوپڑی گلے میں پہنے ہوئے ہے اور گائے پر سوار ہے اور لوگوں کو اپنے خالق کی عبادت کی تلقین کرتا ہے۔ ترازو کی ڈنڈی کو بھی قدیم فارسی میں باہو کہا جاتا تھا۔ سہارے والی لکڑی کو اب بھی باہو کہا جاتا ہے، باہو کا لفظ شاخِ سبز کا مفہوم بھی رکھتا ہے۔ باہوی کے مجازی معنی درخت کے ہیں۔ قدیم زمانے کے ایک گمشدہ دریا کا نام بھی باہو ہے۔ اب طلسمِِ باہو کے پہلے دروازے پر یعنی حرفِ ”ب“ کو وا کرتے ہیں۔ باہو کی ”بے“ میں بسم اللہ پنہاں ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”جو کچھ گذشتہ آسمانی کتابوں میں نازل ہوا، وہ سب قرآن میں ہے اور جو کچھ قرآن میں ہے، وہ سب سورہٴ فاتحہ میں ہے اور جو کچھ فاتحہ میں ہے وہ سب بسم اللہ الرحمن الرحیم میں موجود ہے۔“ اور یہ بھی وارد ہوا ہے کہ ”جو کچھ بسم اللہ میں ہے وہ سب کچھ اس کی ”ب“ میں ہے اور جو کچھ ”ب“ میں ہے وہ سب کچھ ”ب“ کے نقطے کے اندر ہے۔ یعنی ”ب“ کا نقطہ بنیاد کن فیکون ہے۔
صاحبانِِ تصوف کے خیال میں بسم اللہ الرحمن الرحیم اصل صورت ”کن“ ہے جو اللہ سے صادر ہوا۔ پس نقطہ ایک اشارہ ہے اللہ تعالی کی ذات کی طرف۔ نقطہ پر غور کیا جائے تو وہ حروف میں موجود ہے مگرمخارجِ حروف میں سے کسی بھی مخرج میں قید نہیں۔ اسی سبب پڑھا نہیں جاتا۔ مگرتمام مخارج سے ادا ہونے والے اسی نقطہ سے پہچان پاتے ہیں۔ سو ٹاس تناظر میں یہ نقطہ غیبِ احدیت کی ھویت کی خبر دیتا ہیتمام حروف کی شروعات نقطے سے ہوتی ہے۔ اس بنیاد پر حرف الف جو آغازِ اسم اللہ ہے وہ بھی بے کے اسی نقطے سے شروع ہو رہا ہے اور حرف میم بھی جو اپنی روح میں اسمِ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے اسی ”ب“ کے نقطے سے آغاز پا رہا ہے۔ قرآن حکیم بھی اس کی تمام سورتیں بھی آیتیں بھی اسی نقطے سے شروع ہوتی ہیں اور اسی پر اختتام پذیر ہوتی ہیں۔ تصوف کی اصطلاح میں ”ب“ سے مراد موجوادتِ ممکنہ ہیں۔ عالمِ بشریت ہے۔ خود سلطان باہو نے اس سلسلہ میں فرمایا ہے کہ اگر بشریت کی بے حائل نہ ہو تو باہو عین یاہو ہے۔ البتہ اہلِ عرفان ابھی تک اس الجھن میں ہیں کہ فلسفہ وحدت الوجود کے تناظر میں یاہو صرف ایک نقطے کی کمی سے باہو میں مقید ہوسکتا ہے یا باہو میں ایک نقطے کا اضافہ سے یاہو کی بے صورتی تجسیم پا سکتی ہے۔ باہو کی ”ب“ کے باب کو یہیں چھوڑ کر میں با کے الف کی طرف آتا ہوں۔ الف وہ حرف ہے جس میں دوسرے حروف شامل ہوتے ہیں مگر وہ خود کسی حرف سے وابستہ نہیں ہوتا، یہی تعلق خالق و مخلوق میں ہے۔ سو الف حق ہے، وہ حروف میں شامل ہونے کے باوجود الگ تھلگ ہے، اکیلا ہے، واحد ہے،اوّل ہے اور آخر بھی،کھڑاحرف ہے یعنی ظاہر ہے، نقطوں سے بنا ہوا ہے یعنی باطن بھی ہے۔ الف عدد ہے مگر اعداد میں شامل نہیں، الف کی تکرار تو ممکن ہے مگر یہ ایک جمع ایک دو نہیں ہو سکتا۔
تمام حروف الف سے نکلتے ہیں۔ یعنی الف ہی کی مختلف شکلیں ہیں اہل علم کے نزدیک ”ب“ ایک لیٹا ہوا الف ہے۔ یعنی افقی الف ہے جیم ایک ایسا الف ہے جسے گولائی دے دی گئی ہے۔ دال وہ الف ہے درمیان سے پیچھے کی طرف کھینچ لیا گیا ہے۔۔ اور ”ہو“ میں کلمہ طیبہ کا ورد جاری ہے۔ صوفیا کے نزدیک کلمہ طبیہ کا یہی مفہوم کہ اللہ کے سوا اور کسی ذات کا وجود نہیں یہ دکھائی دینے والی کثرت دراصل اسی وحدت کا ظل ہے، پرتو ہے، عکس ہے اپنا کوئی وجود نہیں رکھتی۔ اور ”ہو“ ایک کائناتی تنہائی کو کہتے ہیں جہاں کوئی اور موجود نہیں۔ ”ہو“ عالم لاہوت ہے، اسمِ ذاتِ باری تعالی ہے، فنا فی الذات ہوجانے کا نام ہے۔ یہ اسم مقدس سعادت کے طور پرکتب و صحائف کی پیشانی پر بھی درج کیا جاتا ہے ”ہُو“کے لفظ کے بارے میں صوفیا کرام کا خیال ہے کہ اللہ تعالی کا اصل نام ہے۔ شاہ محمد ذوقی رحمة اللہ علیہ نے ایک دن فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا اصل نام ”ہ“ ہے۔ جو ا، ی اور و لگانے سے ہا، ہی، ہُو پڑھا جاتا ہے۔ نیز فرمایا کہ اسم اللہ میں لفظ احدیت کا ہے اور دو لاموں میں سے ایک جمال کو ظاہر کرتا ہے، دوسرا جلال کو۔ اس طرح اسم ذات یعنی ”ہ“ کے ساتھ تین صفات یعنی احدیت کا ہے۔ اور دو لاموں میں سے ایک جمال کو ظاہر کرتا ہے۔ دوسرا جلال کو۔ اس طرح اسم ذات یعنی ”ہ“ کے ساتھ تین صفات یعنی احدیت، جمال اور جلال مل کر اللہ ہوا۔ فرمایا، حضرت داوٴد علیہ السلام کے نغمے میں ہی ہاہُو ہوتے تھے۔ جو ذکر اسم ذات ہے۔ جب حضرت داوٴد علیہ السلام، یہ نغمے الاپتے تھے تو انسان، پالتو اور جنگلی جانور سب ان کے گرد جمع ہو جاتے تھے اور محویت کا یہ عالم ہوتا تھا کہ کوئی کسی سے نہ ڈرتا تھا اور مجمع میں سے کئی جنازے نکلتے تھے۔
بات کا آغاز ہوا ہے علامہ اقبال کی شاعری پر سلطان باہو کی فارسی شاعری کے اثرات سے اور سلطان باہوکے ایک شعر پر ہی بات ختم کرتے ہیں جس میں اقبال کا لب و لہجہ پوری طرح دھڑکتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
شبنم کرے نہ داغِ دلِ لالہ کا علاج
مٹتا نہیں ہے رونے سے تقدیر کا لکھا