تئیسواں پارہ
تئیسویں پارے کا آغاز سورة یٰس سے ہوتا ہے۔ بائیسویں پارے میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السّلام کی تائید کرنے والے مومن کا ذکر کیا تھا، اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس مرد مومن کی تبلیغ کا ذکر کیا کہ اس نے بستی کے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ میں اللہ کی پوجا کیوں نہ کروں کہ اسی نے مجھے پیدا کیا اوراسی کی طرف مجھ کو پلٹ کر جانا ہے۔اللہ کو چھوڑ کر اگر میں کوئی اور معبود پکڑ لوں تو مجھے اس معبود کا کیا فائدہ کہ اللہ تعالیٰ اگر مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہیں تو وہ میرا کچھ بھی بھلا نہیں کر سکتے ۔بستی والوں نے اس کی دعوت قبول کرنے کی بجائے اس کو شہید کردیا ۔اس کی شہادت کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کو جنّت میں داخل کر دیا۔جنّت میں جانے کے بعد اس نے کہا کہ اے کاش میری قوم کے لوگوں کو اس بات کا علم ہو جائے کہ میرے پروردگار نے مجھ کو بخش دیا اور جنّت میں داخل کر دیا ہے ۔اس کی شہادت کے بعد اللہ تعالیٰ کی رحمتیں بستی والوں سے روٹھ گئیں۔ اللہ نے اس سورت میں اپنی بہت سی نشانیوں کا بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں رات اور دن کا آنا جانا شامل ہے اور اس کی نشانیوں میں سورج کا چلنا اور چاند کا گھٹنا بڑھنا بھی شامل ہے اور اس کی نشانیوں میں کشتیوں کا سمندر میں چلنا بھی شامل ہے ۔اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کی گھڑیوں کا بھی ذکر کیا ہے کہ قیامت کے دن کافر یہ بات کہیں گے کہ ہمیں ہماری قبروں سے کس نے نکالا ہے، بلا شبہ یہ رحمان کا وعدہ ہے اور رسول اپنی دعوت میں سچے تھے ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مجرموں کے لبوں پر مہر لگادیں گے اور ان کے ہاتھ اور قدم ان کے خلاف گواہی دیں گے اوراس طرح اللہ تعالیٰ نے جنّتیوں کی خوشگوار زندگی کا بھی ذکر کیا کہ جنّتی اپنی بیویوں کے ساتھ خوبصورت تختوں اور بچھونوں پر بیٹھے ہو نگے۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کے اعتراضات کا ذکر کیا ہے کہ کافر کہتے ہیں کہ کون ہڈیوں کو زندہ کرے گا جبکہ ہماری ہڈیاں چُور چُور ہو چکی ہونگی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اللہ ہی ان ہڈیوں کو زندہ کرے گا جس نے پہلی مرتبہ ان کو پیدا کیا تھا اور اسکو ہر قسم کی تخلیق میں پوری خبر ہے ۔
اورسورة یٰسن کے بعد سورة الصّافات ہے ۔سورةالصّافات میں اللہ تعالیٰ نے ستاروں کی تخلیق کے مقاصد واضح کیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان ستاروں کے ذریعے آسمان کو زینت عطا کی ہے اور ان میں سے بعض ستاروں کو اللہ تعالیٰ آسمان کی خبریں چوری کرنے والے شیاطین کو مارنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے جناب ابراھیم علیہ السّلام کی عظیم قربانی کا بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو خواب میں دکھلایا کہ وہ اپنے بیٹے جناب اسماعیل علیہ السّلام کے گلے پر چھری چلا رہے ہیں۔ جناب ابراھیم علیہ السّلام نے جناب اسماعیل علیہ السّلام سے کہا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تمہارے گلے پر چھری چلا رہا ہوں، بیٹے بتاؤ کہ تمہاری رائے کیا ہے۔ جناب اسماعیل علیہ السّلام نے جواب میں کہا بابا آپ وہ کام کریں جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے ۔جب جناب ابراھیم نے اسماعیل علیہ السّلام کو پیشانی کے بل لِٹایا تو اللہ تعالیٰ نے جناب ابراھیم کو پکاراکہ آپ نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا ہے ، اس طرح اللہ تعالیٰ نے جناب ابراھیم اور اسماعیل علیہ السّلام کی قربانی قبول فرما کر جہاں اُخروی جزا کو ان کا مقدّر بنا دیا، وہیں رہتی دنیا تک کے لیے آپ کی قربانی کو ایک مثال بنا دیا ۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے جناب یونس علیہ السّلام کا ذکر کیاکہ جناب یونس علیہ السّلام رسولوں میں سے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کوایک لاکھ افراد کی طرف مبعوث فرمایا تھا اور جناب یونس علیہ السّلام جب مچھلی کے پیٹ میں چلے گئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی کثرت سے تسبیح کی اور اس تسبیح کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ان کو اس بہت بڑی مصیبت سے نجات دے دی تھی ۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی اس بات کی بھی تردید کی ہے کہ وہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں بتلاتے تھے جبکہ اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد نہیں ہے اور فرشتے صف باندھ کر اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں ۔اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے ان عیبوں سے جو مشرک اس سے جوڑتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا سلام ہو رسولوں پر۔ اللہ تعالیٰ کی تعریف ہے جو پروردگار ہے جہانوں کا۔
سورة صافات کے بعد سورة ص ہے ۔ سورة ص میں اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے جناب رسول اللہﷺ کی دعوت پر اعتراض کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے الٰہ واحد کی عبادت کا درس دیا اور باقی تمام معبودوں کی نفی کی تھی اور یہ بات مشرکین کو کسی بھی طور گوارا نہیں تھی ۔
سورة ص میں اللہ تعالیٰ نے جناب داؤد علیہ السّلام کی حکمت اور قوّتِ بیان کا ذکر کیا ۔ اور ایک مقدمے کا بھی ذکر کیا کہ جناب داؤد علیہ السّلام اپنے محل میں لیٹے ہوئے تھے کہ اچانک ان کے محل میں دو افراد داخل ہوئے۔ جناب داؤد علیہ السّلام ان کے اچانک داخل ہونے پر تشویش کا شکار ہو گئے تو انہوں نے جناب داؤد سے عرض کی کہ ہم آپ سے ایک تنازع کا فیصلہ کر وانے کے لیے آئے ہیں۔ جناب داؤد نے ان کے اختلاف کو سنناشروع کیا، پہلے شخص نے کہا کہ یہ میرا بھائی ہے ، اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک دنبی ہے اور وہ اس کو بھی حاصل کرنا چاہتا ہے تو جناب داؤد نے دوسرے شخص کی بات سننے سے پہلے ہی اس سے مخاطب ہو کر کہا کہ تم نے دنبیوں کے بارے میں سوال کرکے زیادتی کا ارتکاب کیا ہے جبکہ تمہارے پاس پہلے ہی ننانوے دنبیاں موجود ہیں، یکلخت داؤد علیہ السّلام کے ذہن میں خیال آیا کہ مجھے دوسرے فریق کا موقف بھی سننا چاہیے تھا۔آپ کو اپنی رائے پر شدید صدمہ لاحق ہوا اور آپ اللہ تبار ک و تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے ۔مالک کائنات نے جب اپنے عظیم بندے کو اپنے سامنے جھکے ہوئے دیکھا تو ان کو بخش دیا اور ساتھ ہی نصیحت بھی فرمائی کہ اے داؤد آپ زمین پر خلیفہ ہیں پس لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ دیں اور اس معا ملے میں اپنی خواہش کی کبھی بھی پیروی نہ کریں ۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے جناب سلیمان علیہ السّلام کی دعا کا بھی ذکر کیا کہ انہوں نے پروردگار عالم سے دعا مانگی کہ اے میرے پروردگار مجھ کو بخش دے اور مجھے ایسی حکومت دے جو میرے بعد کسی دوسرے کے نصیب میں نہ آئے بیشک تو بخشنے والاہے۔ اللہ تعالیٰ نے جناب سلیمان علیہ السّلام کی دعا کو قبول فرما کر ہواؤں کو آپکے تابع فرمادیا ۔ان کو ایسی حکومت عطا کی ، جس کی نظیر نہیں ملتی۔
اس سورة میں اللہ تعالیٰ نے جناب ایوب علیہ السّلام کی بیماری اور شفا کا ذکر کیا۔ جناب ایوب علیہ السّلام بہت لمبے عرصہ تک بیمار رہے اور اس بیماری نے آپ کو مکمل طور پر بے بس کر دیا۔جناب ایوب علیہ السّلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا مانگی کہ اے پروردگار شیطان مجھے تکلیف دے رہا ہے، آپ مجھ پر رحم فرمائیں بے شک آپ سب سے زیادہ رحم کرنے والے ہیں، ا س پر اللہ تعالیٰ نے جناب ایوب علیہ السّلام کی دعا کو سن لیا اور ان کی تمام تکلیفوں کو دور فرمادیا ۔
سورة ص کے بعد سورہ الزّمر ہے۔سورة الزّمر میں اللہ تعالیٰ نے حبیب علیہ السّلام سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر حق کے ساتھ کتاب کو نازل کیا ہے۔ پس آپ پورے خلوص سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں بہت سے لوگ اللہ تعالیٰ کے علاوہ مددگار تلاش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ان کی پوجا اس لیے کررہے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے قریب کر دیں۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان اختلافات کا فیصلہ وہ خود فرمائیں گے اور بے شک وہ جھوٹ بولنے والے گمراہوں کو کچھ ہدایت نہیں دیتے ۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہوں نے انسانوں کو تین اندھیروں میں سے پیدا فرمایا تھا ۔اس سورت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں حقیقی گھاٹا ان لوگوں کے لیے ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے آخرت میں گھاٹا دیا۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جن کو اوپر اور نیچے سے آگ کا عذاب سہنا ہو گا اور ان کے مقابلے میں جنّتیوں کو ایسے کمرے ملنے والے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتے۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ جس کے سینے کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لیے کھول دیا وہ اپنے رب کی طرف سے روشنی پر ہے اور بدنصیب ہیں وہ لوگ جو کھلی گمراہی میں ہیں ۔اس سورت میں اللہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے بہترین بات کو نازل کیا ہے جسکے مضامین میں ہم آہنگی اور تکرار بھی ہے۔ اس کو پڑھنے کے بعد جن کے دلوں میں اللہ کا خوف ہوتا ہے، ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، پھر ان کے رونگٹے اور دل اللہ کی طرف متوجّہ ہو جاتے ہیں اور جسکو اللہ گمراہ کرے، اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن پڑھنے ،سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین)
ibtisamelahizaheer@yahoo.com