(گزشتہ سے پیوستہ)
لاہور میں کئی ایسے پرائیویٹ اسپتال ہیںجن کے کار پارکنگ کے ٹھیکے سالانہ دو سے تین کروڑ روپے تک ہیں۔ یہ سرکار کی زمین پر پارکنگ کرتے ہیں اور کروڑوں روپے کماتےہیں ہم تو عدالت عظمیٰ سے درخواست کریں گے کہ وہ پرائیویٹ اسپتالوں کے کمروں کے کرائے ،علاج اور فیسوں کے بارے میں بھی کوئی ایکشن لے ۔ پھر ہر پرائیویٹ اسپتال کو پابند کرےکہ وہ اپنے اسپتال میں پچاس فیصد بستر غریبوں کے لئے مختص کرے اور اس بارے میں کوئی مانیٹرنگ کا نظام بھی بنایا جائے۔امریکہ نے کہہ دیا ہے کہ وہ 2023ء کے بعد پاکستان کے غیر معیاری میڈیکل کالجوں کی ڈگریوں کو تسلیم نہیں کرےگا ۔
پہلے حکومت کے تمام ادارے کسی بھی پرائیویٹ میڈیکل کالج اور اسپتال کو قانونی تقاضوں کو نظر انداز کرکے سفارش اور رشوت کے زور پر بننے دیتے ہیں اس کے بعد جب برائیاں سامنے آتی ہیں تو پھر شور مچایا جاتا ہے۔ یہ کیسے ہوا؟ کس نے کیا؟ ارے بابا جب ناجائز کام ہورہا تھا اس وقت کیوں نہیں شور مچایا جاتا؟آج کس پرائیویٹ میڈیکل کالج کے ساتھ پانچ سو بستروں کا ٹیچنگ اسپتال ہے؟
بے شمار پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کے پاس فیکلٹی پوری نہیں بعض پروفیسر دو، تین پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں پڑھا تے ہیں۔ آج میڈیکل پروفیشن نالائق لوگوں کے ہاتھوں میں آچکا ہے۔ ایسے خاندان ہیں جن کے سارے افراد سرکاری اور پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں مل کر کام کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کو سپورٹ کررہے ہیں۔
اس وقت ملک میں بڑی سیاسی جماعتیں اور بعض مذہبی جماعتیں صرف اپنی پاور شو میں لگی ہوئی ہیں۔ عوام کے مسائل جوں کے توں ہیں، یہی وجہ ہے کہ عدلیہ کو آج پینے کے صاف پانی کا مسئلہ، پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی فیسوں اور سرکاری اسپتالوں کے معاملات پر بات کرنا پڑ رہی ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ عوام بھی پاور شو کے جلسوں میں شریک ہو کر اپنے بنیادی مسائل پر بات ہی نہیں کرتے۔ جس ملک کے لوگوں کو پینے کا صاف پانی، خالص غذا اور ادویات بھی نہیں ملتی ہوں اس کی آنے والی نسلیں اور موجودہ نسلیں خوفناک بیماریوں میں مبتلا نہیں ہوں گی تو اور کیا ہو گا۔
پاکستان میں آج سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار پرائیویٹ میڈیکل کالج بنانا ہے۔ ایک پرائیویٹ میڈیکل کالج جیسے تیسے بنا لیںپھر آپ کی کئی نسلوں کی روٹی پانی کا انتظام ہو جائے گا۔ پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی وباءسب سے زیادہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں شروع ہوئی۔ ویسے تو سب سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے 1975میں راتوں رات پانچ نئے میڈیکل کالج قائم کرنے کا اعلان کیا تھا اس وقت ان میڈیکل کالجوں کے پاس اپنی فیکلٹی تک پوری نہیں تھی۔ پاکستان میں 2008ء تک کل 26میڈیکل کالج بنے۔ ڈاکٹر عاصم حسین جب پی ایم ڈی سی میں آئے تو موصوف نے 2009 سے 2011ء تک 97 پرائیویٹ میڈیکل کالج بنانے کی اجازت دے دی۔ ڈاکٹر عاصم نے ایک ایک دن میں تین سے چھ تک پرائیویٹ میڈیکل کالج قائم کرنے کی منظوری دی ۔ پیپلزپارٹی کی حکومت جب ختم ہوئی تو ملک میں 123پرائیویٹ میڈیکل کالج بن چکے تھے۔ دلچسپ اور انتہائی مضحکہ خیز صورت حال یہ تھی کہ ایک ہی فیکلٹی کے بعض اساتذہ تین تین میڈیکل کالجوں میں پائے گئے۔ پھر ان پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں تنظیمی ضوابط کے مطابق پانچ سو بستروں کا ٹیچنگ اسپتال اور ضروری سازو سامان، آلات اور مشینری تک بھی نہیں تھی، پھر بھی ان میڈیکل کالجوں کو منظو ر کیاگیا اورانہیں کام کرنے کی اجازت دی گئی ۔
دوسری جانب پی ایم ڈی سی کی باڈی میں حکومتی اراکین کی تعداد کم ہوگئی اور پرائیویٹ نمائندوں کی تعداد بڑھا دی گئی۔ پی ایم ڈی سی کے معاملات پر بھی عدالت کہہ چکی ہے کہ پی ایم ڈی سی کی باڈی کے بارے میں کوئی واضح صورت حال اختیار کی جائے۔
ہم عدالت عظمیٰ سے درخواست کریں گے کہ جس طرح انہوں نے شعبہ صحت، دودھ،اسموگ اور صاف پانی کے بارے میں سخت ریمارکس دیئے ہیں وہ پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی فیسوں، ان کے معیار فیکلٹی اور ان کے ساتھ ٹیچنگ اسپتالوں میں بستروں کی تعداد کے بارے میں بھی انکوائری کرائے۔ حالات یہ ہیں کہ ان پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کے بورڈ آف گورنرز کے اراکین اپنی سیٹیں تیس سے پچاس لاکھ روپے میں فروخت کر رہے ہیں۔ یہ سارا ڈرامہ ڈونیشن کے نام پر کر رہے ہیں۔
امریکہ، یورپ، آسٹریلیا اور عرب ممالک وسائل ہونے کےباوجود آج تک اپنی ملکی ضرورت کے مطابق میڈیکل کالج نہیں بنا سکے۔ دوسری طرف اپنے ملک میں پی ایم ڈی سی کے ایک کرتا دھرتا نے صرف تین سال میں سو کے قریب پرائیویٹ میڈیکل کالج بنا ڈالے۔ اس ملک کے شعبہ صحت کے ساتھ جو کچھ آج ہو رہا ہے آپ دیکھئے گا کہ آنے والے چند برسوں میں اس کے کس قدر خوفناک نتائج سامنے آئیں گے۔ پیٹ، انتڑیوں، جگر، معدے اور جلد کی وہ خطرناک بیماریاں آچکی ہیں جن کا علاج کرنے کے لئے لائق ڈاکٹر نہیں ملیں گے۔ سپریم کورٹ نے خشک اور ڈبوں میں بند دودھ فروخت کرنے والی کمپنیوں کو ہدایت بھی کی تھی کہ ٹی وائٹنر پر واضح طور پر لکھیں کہ یہ دودھ نہیں کسی دھوکے میں مت آئیں۔دودھ کے نام پر کیمیکل فروخت کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ میں خود بچپن میں سوکھے دودھ کو دودھ سمجھ کر کھاتا رہا ہوں۔ دوسری جانب حال ہی میں ایک رپورٹ سامنے آئی کہ پنجاب بھر میں زہریلا دودھ بنانے والی 2ہزار فیکٹریوں کا پتہ چلا ہے۔ دودھ کی تیاری بڑی فیکٹریوں کے علاوہ گھروں میں موجود ایسی فیکٹریوں میں ہو رہی ہے جو معروف برانڈ کے دودھ کے جعلی ڈبے تیار کرکے مضافات اور چھوٹی دکانوں پر فروخت کر رہی ہیں۔ کہا گیا ہے کہ ایسی دو نمبر فیکٹریاں صرف لاہور شہر میں چار سو سے زائد ہیں۔
امریکہ میں مقیم بچوں کی ڈاکٹر عائشہ نجیب کا یہ کہنا ہے کہ دودھ میں آئرن کم ہوتا ہے جبکہ ہمارے جسم کو آئرن اور وٹا من ڈی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں لوگ دودھ، دہی اور چائے میں دودھ صرف اور صرف اس لئے ڈالتے ہیں کہ چائے سفید ہو جائے اور شاید کچھ ذائقہ آ جائے۔ حالانکہ اس وقت جو ڈبوں کا دودھ ہمارے ہاں فروخت ہو رہا ہے اس میں کہیں بھی غذائیت اور طاقت نہیں، وہ چائے کو صرف سفید رنگ دار بنا رہا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ان کے مشاہدے میں ایسے بچے بھی آئے جو پانچ پانچ سال سے دودھ پی رہے تھے لیکن ان میں آئرن کی شدید کمی تھی ویسے بھی ایک سال کے بعد ہر بچے کو دودھ کے ساتھ ایسی غذا لازمی دینی چاہئے جس میں آئرن ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں حاملہ خواتین کی اکثریت شدید آئرن کی کمی کا شکار ہے۔
ہمارے ملک میں جو سب سے خطرناک چیز ہے وہ چینی ہے جس کے استعمال سے انسان طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہا ہے۔ ہمیں لوگوں کو یہ شعور دینا چاہئے کہ وہ چینی کا استعمال کم کردیں۔ یہ چینی انسانی جسم کے لئے زہر قاتل ہے۔ اس وقت پورے ملک میں مضر صحت گوشت، انتہائی غیر معیاری خوردنی تیل استعمال ہو رہا ہے۔ ملک میں غذائی ماہرین کی بہت کمی ہے۔ ہوم اکنامکس کالجوں اور یونیورسٹیوں کونیوٹریشن کے ماہرین پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔