اسلام آباد(نمائندہ جنگ )سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ پاکستان کو پانچ لاکھ اعطائیوں کی نہیں بلکہ ڈاکٹروں کی ضرورت ہے جو اتنی قابلیت رکھتے ہوں کہ آپریشن کرسکیں، ایسے ماہرین نہیں چاہئیں جو داتا دربار سے کسی نشئی کو اٹھا کر لے جائیں اور اسکا گردہ نکال کر کسی عربی کے ہاتھ بیچ دیں،عدالت عظمیٰ نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کی تحلیل اور سنٹرل ایڈمیشن پالیسی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران نجی میڈیکل کالجوں کی جانب سے طلباء سے عطیات لینے کے لئے شکایت سیل قائم کرنے کی تجویز مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اس حوالے سے عدالت خود حکم جاری کر ے گی اور عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی کی جائے گی جبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 3رکنی بینچ نے جمعرات کے روز کیس کی سماعت کی تو پاکستان ایسوسی ایشن پرائیویٹ میڈیکل اینڈ ڈینٹل انسٹی ٹیوشنز کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے موقف اختیار کیا کہ پاکستان میں رجسٹرڈ طبی معالجین کی تعداد ایک لاکھ 64 ہزار اور اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی تعداد 47 ہزار سے زائد ہے جبکہ 25 ہزار سپیشلسٹ ڈاکٹرز بیرون ملک ملازمت کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم طبی شعبوں میں چار ممالک سے ٹیکنالوجی اور معیار سے پیچھے لیکن تعداد میں برابر ہیں جبکہ طبی مراکز میں 5 لاکھ ڈاکٹروں کی ضرورت ہے،جس پر فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان کو پانچ لاکھ عطائیوں نہیں بلکہ ڈاکٹروں کی ضرورت ہے جو اتنی قابلیت رکھتے ہوں کہ آپریشن کرسکیں، دوران سماعت فاضل عدالت نے عطیات لینے والے میڈیکل کالجز کیلئے شکایت سیل کے قیام کی تجویز مسترد کردی ، علی ظفر ایڈوکیٹ نے کہا کہ نجی میڈیکل کالجوں کی جانب سے طلباء و طالبات سے عطیات لینا غلط اقدام ہے ،اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے بتایا کہ کابینہ نے کل مجھ سے پی ایم ڈی سی آرڈینینس اور میڈیکل کالجز کے موضوع پر بریفنگ لی ہے اور حکومت اپنے مشترکہ اجلاس میں اس معاملے پر اہم فیصلے کرکے اس معاملے پر قانون سازی کرے گی،اس حوالے سے مشاورت جاری ہے جس پر فاضل چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیس کئی ماہ سے ہائی کورٹ میں چلتا رہا ہے لیکن کسی کو ہوش نہ آیا اور حکومت خاموش تماشائی بنی رہی ،جیسے ہی کیس سپریم کورٹ میں آیا ہے تو حکومت بھی ہوش میں آگئی ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو تحریری طور پر اپنے دلائل فراہم کر دیے جائیں گے اور کوشش ہوگی کہ قانون سازی کا عمل جلد مکمل ہو جائے ، تاہم عدالت کو بہترین معاونت فراہم نہ کرنے پر معذرت خواہ ہوں،چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے، قانون ختم ہونے کے بعد کونسل قائم نہیں رہ سکتی ہے، اٹارنی جنرل پارلیمنٹ کو نہیں کہہ سکتے کہ کتنے دن میں قانون بنائے، جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، اگر آپ کابینہ یا وزیراعظم کو بریفنگ دے رہے ہیں تو انہیں بتائیں یہ بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے ،اوراس مسئلے کے حل کیلئے فوری قانون سازی وقت کی ضرورت ہے، جس پر پی ایم ڈی سی کے سابق چیئرمین ڈاکٹر عاصم حسین کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ پارلیمنٹ اس پر قانون سازی نہیں کریگی، یہ معاملہ پہلے بھی سینیٹ میں اٹھایا گیا تھا تاہم وہاں پر اس کی شدید مخالفت کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ یہ معاملہ مشترکہ مفادات کونسل سے متعلق ہے، انہوں نے کہا کہ حکومت نے ہر ادارے کو قابو میں کر رکھا ہے ،ادارے قابو کرنا موجودہ حکومت کا وطیرہ ہے، اگر عدالت نے یہ اپیلیں خارج کردیں تو پی ایم ڈی سی کو کون چلائے گا؟ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ بالکل درست ہے، جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ اس مسئلے کا حل اٹارنی جنرل کی معاونت سے ہی نکلے گا ، قانون سازی کرنا حکومت کا کام ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت میں جو بھی بحث ہو گی اس سے حکومت کو بہت مدد ملے گی، بعد ازاں کیس کی مزید سماعت آج تک ملتوی کردی گئی۔