چراغِ خویش برافروختم کہ دست کلیم
دریں زمانہ نہاں زیر آستیں کردند
مجھے اپنا چراغ اس لئے روشن کرنا پڑا ہے کہ اس دور کے کلیم اللہ موسیٰ نے اپنا روشن ہاتھ بغل میں چھپا رکھا ہے۔
مجھے ہرگز سیاسی جدوجہد میں کسی طور شامل نہ ہونا تھا مگر یہ احساس کہ ہم تباہی کی طرف دوڑ رہے ہیں۔جب گھر کی چھت گرنے کو ہو تو کھانے پکانے کی تیاری کا فیصلہ نہیں کیا جاتا ۔بہت سے لوگ جانناچاہتے ہیں کہ میری بھوک ہڑتال کا کیا بنا؟میرا فرض بنتا ہے کہ ان کو آگاہ کروں کہ 10ستمبر سے 15ستمبر تک مسلسل پانچ دن جاری رہی، اسپتال کی سیر بھی کی ۔ نہیں ہے اب زندگی ،لیکن ظلم کے خلاف جدوجہد۔ میری حیثیت اتنی بہت کافی ہے کہ میں نے اس مٹی سے جنم لیا ہے ،ایک شناختی کارڈ میرے پاس ہے ۔امید میرا ہتھیار ہے،انسانی سوچ، انسان سے آگے کا سفر کرتی ہے، اک در ابھی بند بھی ہوا کہ سو دریچے والگے۔ بھوک ہڑتال موٴخر ہوئی مگر احتجاج جاری رہے گا۔ایک دانشور نے کہاکہ آپ کا پہلا حملہ ناکام بنا دیا گیا،عرض کی کیا میں آپ کو محمود غزنوی کے سترہ حملے یاد دلانے کی جسارت کر سکتا ہوں؟ سات آٹھ حملے ناکام ہوچکے تو ایسے دانشوروں نے نہ جانے کیا کیا کہا ہو گا مگر اس کے بعد بھی کئی ناکام حملے کئے، ایک بار آخر کار کامیابی۔ مگر میں سلطان ہوں نہ تخت میری آرزو، نہ سومنات میری ضد، مجھے تو ظلم کے خلاف لڑنا ہے،آغاز ہی کامیابی ہے ۔
بیرون ملک اثاثوں اور دہری شہریت کے مطلق مطالبہ بنیادوں کو ہلا دینے والا ہے،کچھ لوگوں کی پریشانی سے ظاہر ہوا، معاملہ سنگین بھی ہے اور لڑائی کا آغاز ہو بھی چکا، نہیں میرے ستم گر نہیں،ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں،خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ گواہی آگئی،97/ارب ڈالر صرف سوئس بینک میں ہیں، ہمارے شہزادوں کے…97/ارب ڈالرکہنا بہت آسان ہے ،اگر واپس لائے جائیں اور ڈھنگ سے خرچ کئے جائیں تو مہنگائی کی چکّی میں پسے کروڑوں پاکستانیوں کی تقدیر بدل سکتی ہے…مگر ایساکرنا بہت ہی مشکل، بغیر ”دس نمبر کے چھتر“ کے چور ،چوری کب مانتا ہے مگر یہ ”دس نمبر کا چھتر“پاکستانی بدحال عوام کے پاس نہیں ہے”چھتر“بھی انہی کے پاس ہے ،پیسہ ہے جن کے پاس ، لہٰذا ”ساڈیاں جوتیاں ،ساڈا سر “غریب منتشر اور شب و روز میں الجھا ہوا ،نجات دہندہ کامنتظر، میرے ہر طرف ڈوبتی آنکھوں کی فریاد بکھری پڑی ہے۔کوئی آئے اور بچالے ہم کو، آشوبِ دہر سے نکالے ہم کو، یہی ہے غلاموں کی سوچ اور یہی ہے غلامی کی وجہ اور ظالم و غاصب طبقہ اکٹھا کر لیتا ہے ،”نشہ بڑھتا ہے، شرابیں جو شرابوں میں ملیں“ پورا سسٹم ان کے ہاتھ میں ہے،طاقتور مزید طاقت کے لئے طاقتوروں سے ہاتھ ملاتا ہے ”مایہ کو مایہ ملے کر کر لمبے ہاتھ“ اور ہاتھ کاٹنے والا کوئی نہیں کیونکہ اصل طاقت جمع نہیں ہو پاتی۔
میں خاکسار تحریک کی قائد ڈاکٹرصبیحہ مشرقی و کارکن تحریک استحکامِ پاکستان سے سید علی رضا، ڈاکٹر احسن محمود، چیئرمین فیگ کلب محمد ندیم بھٹی، جسٹس پارٹی سے منصف اعوان، پاکستان ڈیموکریٹک فرنٹ سے ملک اعجاز، مسلم لیگ آرگنائزیشن ،پاکستان بچاوٴ تحریک ،تحریک عظمت اسلام، تحریک رحمت کے بزرگوں کے علاوہ جناب قیوم نظامی، فیروزگیلانی، عزیزظفر آزاد، وقار شاہ کی خصوصی کاوش و یکجہتی کا شکر گزار ہوں، آج کا دوسرا موضوع، انقلاب کے تنقید نگاروں پر کچھ ضرور عرض کرنا چاہوں گا، محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیرخان سمیت بہت سے کالم نگاروں نے انقلاب کی ضرورت کے بارے میں لکھا تو اس فرسودہ نظام (جو کہ ظالم کا ہتھیار بنا ہوا ہے) سے چمٹی جونکوں نے حفاظتی انتظامات کرنے شروع کردیئے۔ حاشیہ برداران پکار اٹھے ”تاج و تخت زندہ باد“ ہوس سو لبادے بدلتی ہے، ڈھونڈ ڈھانڈ کر موتی لائے جاتے ہیں اور اچھی قیمت لگانے والوں کو بیچا جاتا ہے اگر کوئی کہے کہ نظام ٹھیک ہے، بس صرف تعلیم جیسی دو چار چیزیں ٹھیک ہو جائیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا ”پر کیتھوں؟“کہاں سے ٹھیک ہو جائے گا یعنی ” استرا“ بندر کے ہاتھ میں رہے اور شیو بھی صحیح ہو۔ پاکستانی بابا ارسطو سے لے کر چنو منو دانشور لوگوں کو کیسے گمراہ کر سکتا ہے ،انقلابی تبدیلیاں کیونکر آسکتی ہیں جب تک تبدیلیاں لانے والی تبدیلیاں نہ لائی جائیں، راستے دشوار ہیں، خون تو ویسے ہی ہمیشہ زیادہ غریب کا ہی بہا ہے اور زندگی موت سے بدتر بنا دی گئی ہے جن کی ۔آسانی سے جان نہیں چھٹے گی ان کی۔ اپنا تو یقین یہ ہے بھائی کہ
بدریا غلط بموجش درآویز
حیات جاوداں اندر ستیزاست
(دریاسے الجھ جااور اس کی سرکش موجوں سے ٹکرا جا، چونکہ حیات جاوداں اسی کشمش میں ہے)
چلو اِدھر مت دیکھو ،اُدھر دیکھو،کتنے ہی پڑھے لکھے لوگ ہیں مگر امریکہ کروڑوں انسانوں کا قاتل ،پوری دنیا پر حملہ آور ،یہ سوال چھوڑتا ہوں اور مزید تفصیل سے پھرکبھی، ابھی دو تین مختصر تبصرے، اگر ہم امریکہ جیسے قاتل مسیحا کو اپنی شہ رگ تک رسائی دے سکتے ہیں اور اپنی ”لسی“ پالیسی میں امریکی پالیسی کا پانی ملا سکتے ہیں اور چینی”مدھانی“ سے ”ریڑک “کرمکھن نکل سکتے ہیں تو آج حقانی گروپ سے کس ضابطے کے تحت رابطہ نہیں رکھ سکتے،امریکہ کو افغانستان میں کھلا چھوڑ جائے ،بھارت دندناتا پھرے اور پاکستان دور رہے۔کیوں؟ اگر فوجی قیادت پامردی سے جم سکتی ہے تو پھر دور تک فیصلے کرے،آنے والے تمام تر دباوٴ اور امریکہ سے فیصلہ کن اعصابی جنگ کے لئے تیار ہو جائے اگر فیصلہ مختصر نتائج کے لئے ہے تو ہماری ناکامی کا تسلسل جاری رہے گا، نتائج اگر کچھ مل بھی گئے تو بہت عارضی ہوں گے لیکن جب رحمن ملک بھی للکارنے لگیں تو عجیب لگتا ہے۔
کچھ لوگ بیک وقت دو کام کر سکتے ہیں اور بعض اوقات دو کیفیات یک بار آن پڑتی ہیں یوں انسان دوچار ہوجاتا ہے ،پچھلے دنوں ،جناب ہارون الرشید صاحب کے کچھ کالموں کو پڑھ کر بہت سراہنے کو جی چاہا ،کچھ جملے تاریخی ہیں اور ”لسی پینے والا شیر“ والا کالم تو بہت ہی جاندار تھا لیکن ساتھ ہی محترم عطاالحق قاسمی کی عمران خان پر تنقید کے نتیجے میں تو ان کو موصول ہونے والے دھمکی آمیزایس ایم ایس کی مذمت کرتا ہوں، تنقید کے جواب میں دھمکی کی کسی بھی صورت میں ہم سب ایک ہیں۔اسی طرح پوری قوم کو سندھ ،بلوچستان میں بارشوں کی وجہ سے ہونے والی تباہی کے ازالے کے لئے ایک ہونا ہے، ورنہ متاثرین کسی طور سنبھل نہ پائیں گے۔ طالب علموں رضاکاروں سے خصوصی گزارش ہے کہ وہ میدان میں آئیں ۔
ڈینگی مچھر کی تباہ کاری کس کی نااہلی ہے، یہ بحث آپ پر چھوڑتے ہیں کیونکہ مسئلہ قومی ہے،اس لئے میں اس وقت سب کچھ بھلا کر پیارے خادم اعلیٰ کی ڈینگی مکاوٴ مہم کا حصہ بننے کے لئے تیار ہوں، اگر اصلی اسپرے اب درکار ہے تو گلی گلی رضاکارانہ اسپرے کرنے کو تیار ہوں اور اسی طرح اگر ڈینگی مچھر وعدہ کرے ،وہ بھوکے ننگے غریبوں کو نہیں لڑے گا بلکہ غریبوں کے خون چوسنے والے ظالموں پر ٹوٹ پڑے گا تو پھر میں ڈینگی کی بھی حمایت کروں گا۔ میرے محترم پرویز رشید اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟