اردو ہے جس کا نام ہم اتنا جانتے ہیں کہ عجب شے ہے۔ کتنے ہی لوگ کہتے ہیں کہ یہ ہماری نہیں مگرذرا دھیان سے دیکھیں توصاف لگتا ہے کہ ہر ایک کی ہے۔جس زمانے میں یہ راہ چلتے لوگوں میں رواج پارہی تھی تو اس کا کوئی نام نہ تھا۔ہر علاقے کی کوئی نہ کوئی بولی تھی۔ ہر بولی کے نام کے ساتھ علاقے کا نام بھی نتھی تھا۔ مگر یہ ایک ایسی زبان تھی کہ بر صغیر کر ہر علاقے میں رائج تھی مگر اس کے ساتھ کسی بھی علاقے کا نام جڑا ہوا نہیں تھا۔ یہ بات مجھ سے بہت پہلے اور بہت زیادہ انگریزوں نے محسوس کی۔ انہوں نے دیکھا کہ اس کا چلن پورے ہندوستان میں ہے، اسی مناسبت سے انہوں نے اس کا نام ’ہندوستانی‘ رکھ دیا۔پھر کسی نے اسے ریختہ کہا ، کسی نے ہندوی یا ہندی کا نام دیا۔عام لوگ اسے اردو کی زبان کہنے لگے۔ان دنوں لشکر یا چھاؤنی کو اردو کہا جاتا تھا۔ آخر معاملہ لفظ اردو پر آکر ٹھہرا۔ اب ایک داغ ہی کیا، ہم سب جانتے ہیں کہ سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے۔
اس دھوم میں کراچی والے بھی اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور کراچی کی آرٹس کونسل ہر برس دھوم دھام سے ایک عالمی اردو کانفرنس کرتی ہے۔ اس سال یہ دسویں کانفرنس تھی۔میں سات آٹھ کانفرنسوں میں شرکت کر چکا ہوں اور اس بار ایک عجب احساس نے مجھے آن گھیر ا ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ سال کے سال دو ایک ایسی ہستیاں اس کانفرنس میں نظر آنی بند ہوجاتی ہیں جن کے ہونے سے اردو زبان میں ایسی آب و تاب موجود ہوتی ہے جو اُن ہی کا حصہ کہی جاسکتی ہے۔ یا یوں کہئے کہ زبان اردو کے بزرگ اکابرین ایک ایک کرکے اٹھتے جاتے ہیں۔ ہر سال کسی نہ کسی کو غیر حاضر پاکر ایک تو زبان کے خسارے کا احساس ہوتا ہے دوسرے دل یوں سوچتا ہے کہ کیا کراچی آرٹس کونسل ایک زیارت گاہ بنتی جارہی ہے۔ ہر بار خیال ہوتا ہے کہ یہ جو بزرگ زبان کے شگوفے کھلا رہے ہیں ،کیا اگلے برس بھی اس چمن میں مہکیں گے۔ کیا آنے والے سال بھی ہم ان کی زیارت سے فیض اٹھا سکیں گے۔اس طرح کے خیالات اس سالانہ اجتماع کی اہمیت دو چند کردیتے ہیں۔ اس پر انیس کا مصرعہ یاد آتا ہے: ’میری قدر کر اے زمین سخن‘۔اور ہم کراچی آرٹس کونسل کی اردو کانفرنس کو ہر بار پہلے سے زیادہ عزیز جان کر خلوص دل سے شریک ہوتے ہیں۔
اس سالانہ مجلس سے وابستہ ایک سالانہ مباحثہ بھی ہوتا ہے۔ کانفرنس کے دوران تو ریڈیو، اخبارات اور ٹیلی وژن میں اس کی روداد خوب خوب بیان ہوتی ہے، کانفرنس کے بعد اس کے نفع نقصان کی بحث ضرور چھڑتی ہے۔ کچھ لوگ تو قسم کھا کر اپنا خنجر پہلے ہی سے تیز کرنے لگتے ہیں۔ بعد میں وہ کانفرنس کی تکّا بوٹی کرتے ہیں۔ کچھ لوگ سنجیدگی سے کانفرنس کا تجزیہ کرتے ہیں اور چند معقول باتوں کی طر ف اشارہ کرتے ہیں۔ بعض مندوبین کو بلاوا جاتا ہے اور سواری کا خرچ آرٹس کونسل ادا کرتی ہے۔ کتنے ہی اپنی گرہ سے آتے ہیں لیکن جو آجائے آرٹس کونسل اسے مہمان کر لیتی ہے۔ یوں آنے والے سب ہی باکمال نہیں ہوتے۔ مجھے یاد ہے ایک صاحب یورپ کے کسی ملک سے آئے اور اپنے ملک کی تصویروں کا سلائیڈ شو کھول کر بیٹھ گئے۔ایسے مہمان منہ میں آجانے والے کنکر جیسے ہوتے ہیں۔ ٹھیک ہے، مندوبین کی فہرست طویل ضرور ہو جاتی ہے لیکن اس پر آٹوگراف بک والے اصطبل کا گمان گزرنے لگتاہے۔ اس تازہ کانفرنس کے بعد ایک اہم رائے سامنے آئی۔ کہنے کو یہ آرٹس کونسل کی فراخ دلی ہے کہ وہ ہر روز بڑی ضیافت کا اہتمام کرتی ہے اور سارے ہی شرکا کو کھانا پیش کرتی ہے۔ایک خیال یہ ہے کہ کتنے ہی لوگ بکرے کے گوشت کی بریانی کھانے کی نیت سے آتے ہیں لہٰذا کبھی کبھی تو بہت بڑا مجمع ہوجاتا ہے۔مجھے یاد ہے ایک بار ساراہال بھرا ہوا تھا۔ اسٹیج سے اعلان ہوا کہ جو لوگ کھانے کی غرض سے آئے ہیںوہ باہر چلے جائیں جہاں کھانا لگ رہا ہے۔ اس پر بہت سے مہمان سعادت مندی سے اٹھ کر ایوان سے چلے گئے۔ ایک دلچسپ تجویز یہ آئی ہے کہ ایوان سے باہر ’فوڈ کورٹ‘ بنائی جائے جہاں انواع وا قسام کا کھانا قیمتاً دستیاب ہو۔ یہ تجویز دینے والے کراچی لٹریری فیسٹیول کی مثال دیتے ہیں جہاں اس سے بھی بڑا مجمع آتا ہے اور قیمت ادا کرکے کھانا خریدتا ہے۔ یہی صورت انگریزی زبان کے اساتذہ کی بہت بڑی کانفرنس SPELT میں ہوتی ہے جہاں مہمانوں کو کھانا پیش کیا جاتا ہے البتہ حاضرین فوڈ کورٹ کا رُخ کرتے ہیں۔مگر جو لوگ کراچی آرٹس کونسل کے سربراہ محمد احمد شاہ کو جانتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ خاطر تواضع جیسی احمد شاہ کرتے ہیں، شاید ہی کوئی اور ویسی مہمان داری جُٹا پائے۔ اور اب تو کونسل کے احاطے کے اندر ادارے کی دوسری بڑی عمارت اتنی تیار ہے کہ ان دنوں اس کی نوک پلک سنواری جارہی ہے۔ وہ کھلے گی تو دیکھنے والے دیکھیں گے کہ احمد شاہ کا دامن اور کشاہ ہ ہوگا۔
ہمارے ایک دوست حال ہی میں ہندوستان سے لوٹے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اردو کی دھوم میں اپنا حصہ ڈالنے والوں میں ہندوستانی بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ بتارہے تھے کہ ریختہ کے نام سے دلّی میں اردو کا جیسا جشن منایا جاتا ہے، ایسا ہوتا ہے کہ بس دیکھا ہی کیجئے۔ ایک خلقت اچھی اردو سننے کے لئے امڈ کر آتی ہے۔ سارے ہی بڑے اسکالر بولتے ہیں ، مجمع دھیان سے سنتا ہے۔ کہتے ہیں کہ نئے لڑکے لڑکیاں کمال کے شعر کہہ رہے ہیں جنہیں ہزاروں کا مجمع دل کھول کر داد دیتا ہے۔ بتاتے ہیں کہ مجمع میں بھاری اکثریت نوجوانوں کی ہوتی ہے اور وہ بھی ہندو نوجوان۔ آخر وہ بڑا راز جان گئے۔ وہ یہ کہ کوئی مانے یا نہ مانے، اردو اُن ہی کی زبان ہے۔ داغ نے اصل میں یہی کہا تھا: ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے۔