• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Ahmed Faraz Birthday Today

احمد فراز اردو ادب کا ایسا نام ہے جسے ہر خاص و عام جانتا ہے ۔ ان کا کلام کسی کے لئے ’اجنبی‘ نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ان پر جس قدر قدغن لگی وہ اتنے ہی ’عوامی‘ ثابت ہوئے۔

احمد فراز12 جنوری 1931 کو کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ اُن کا اصل نام سید احمد شاہ تھا۔انہوں نے دوران تعلیم اپنا پہلا شاعری مجموعہ ’ تنہا تنہا‘ مرتب کیا۔

farazT

آپ نے اردو اور فارسی میں ماسٹرزکیااور دوران تعلیم ریڈیو پاکستان کے لیے فیچر بھی لکھے۔

پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز ہوا تو اسلامیہ کالج پشاور میں لیکچرر شپ اختیار کر لی ۔ اسی ملازمت کے دوران آپ کا دوسرا مجموعہ ’’ درد آشوب ‘‘چھپاجس پر آپ کوپاکستان رائٹرزگلڈ کی جانب سے ’’آدم جی ادبی ایوارڈ ‘‘سے نوازا گیا۔

احمد فرازاُردو کے ان جواں فکر شاعروں میں سے تھے جنہوں نے جدید تقاضوں کے دلکش رنگ اور آہنگ سے اُردو شاعری کوقابل قدر سہارا دیا ۔

آپ کی شاعری میں قرب محبوب کے موضوعا ت بھی ملتے ہیں اور یہ صرف ان کی شاعری تک محدود نہیں رہا بلکہ اُردو غزل کا بیشتر سرمایہ فراق کی طویل گھڑیاں گننے اور ہجر کی صعوبتوں کو برداشت کرنے کے مراحل سے بھرا ہوا ہے۔

مگر یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس طرح کی غزلیات تنگ و تاریک گوشے میں بھی زندگی کی جھلک دکھاتی ہےجس کا ایک عملی نمونہ احمد فرا ز کی غزل’’ ہوئی ہے شام تو آنکھوں میں بس گیا پھر تُو‘‘ہے۔

ہوئی ہے شام تو آنکھوں میں بس گیا پھر تُو
کہاں گیا ہے مرے شہر کے مسافر تو
فضا اُداس ہے رت مضمحل ہے میں چپ ہوں
جو ہو سکے تو چلا آ کسی کی خاطر تو

اپنے شعری لہجے کی انتہا کو پانے کے لیےاحمد فراز کو کافی حد تک محنت کرناپڑی ۔چانچہ غزل ہو یا نظم یا شعری پیکروں کی نرمی ان کا کلام پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تازگی کی ایک نئی فضاء پیدا ہوگئی ہو۔

فراز کی زندگی کا ایک پہلو اِن کی پاکستان میں آمریت کے خلاف جدوجہد بھی رہی ہے۔جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت کے دوران احمد فراز نے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کی اور اس دوران تین سال تک برطانیہ ، کینیڈا اور یورپ میں قیام پذیر رہے جلا وطنی کے دوران انہوں نے اپنی بہترین انقلابی نظمیں تخلیق کیں جن میں ’ محاصرہ ‘ مشہور ترین ہے۔

آپ کےمجموعہ کلام میں’ سب آوازیں میری ہیں‘ ، ’دردِ آشوب‘، ’غزل بہانہ کروں‘،’ شب خون‘، ’جاناں جاناں‘ ، ’خوابِ گُل پریشاں ہے‘ ، ’میرے خواب ریزہ ریزہ‘ اور دیگر شامل ہیں۔

faraz-mid

فراز دور حاضر کا بہت بڑا نام ہے ، انہیں نوجوان نسل کا پسندیدہ شاعر کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا لیکن موت سے انہیں بھی رستگاری نہ تھی اسی لئے پچیس اگست 2008ءکو موت کا فرشتہ ان کے سرہانے آکھڑا ہوا اور فراز کو ’لبیک‘کہنا پڑا۔

ایسا ہے کہ سب خواب مسلسل نہیں ہوتے
جو آج تو ہوتے ہیں مگر کل نہیں ہوتے
سب خواہشیں پوری ہوں فراز ایسا نہیں ہے
جیسے کئی اشعار مکمل نہیں ہوتے

 

تازہ ترین