کراچی(اسٹاف رپورٹر‘ایجنسیاں)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ماتحت عدالتیں بروقت فیصلے کریں تو اعلیٰ عدلیہ کا بوجھ کم ہوگا‘ہائی کورٹ کے ججز 90روزمیں کیس نمٹائیں ‘ یہاں کسی کو مقدمے کی دھمکی دی جائے تووہ کہتاہے عدالت آجاؤ دیکھ لوں گاکیوں کہ لوگ جانتے ہیں کہ مکان کا کیس بھی برسوں چلتاہے‘عدلیہ مقننہ نہیں کہ قانون سازی کر سکے‘ قانون سازی اوراصلاحات کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے‘ عدالتی اصلاحات سے متعلق ہماری تجاویز پر حکومت جواب نہیں دے رہی ‘انصاف میں تاخیر بڑا مسئلہ ہے‘ مناسب قانون نہ ہونے سے مرضی کے فیصلے آرہے ہیں‘ ضابطہ اخلاق میں اگر ترامیم کرنا پڑیں تو کریں گے، انصاف بک نہیں سکتا، ججز کی دیانتداری پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے، عدالتوں میں وہ سہولتیں دستیاب نہیں جو ہونی چاہئیں، قانون کو اپ ڈیٹ کر دیا جائے تو اس کے بعد میرے ججز کوتاہی کریں تو ذمہ داری میں لیتا ہوں ، اداروں نے قوانین پر عمل نہ کرنے کی قسم کھائی ہے،ہمیں اپنے گھر کو منظم کرنا ہے ،وکلاءہڑتالوں کی روایت ختم کریں، ہم نے گلستان کو بچانے اور حفاظت کرنے کی قسم کھائی ہے‘ انصاف میں تاخیر کے ذمہ دارصرف ہم نہیںدیگر عوامل بھی ہیں‘ آئین کے آرٹیکل 212میں تبدیلی کی ضرورت ہے‘مجھے عدالتی اصلاحات سے متعلق سب سے اچھا کام پنجاب میں نظر آیا ہے‘ صرف پنجاب نے عالمی معیار کی فرانزک لیب قائم کی ‘عوام کی فلاح کیلئے آئی ٹی کے استعمال کا کارنامہ انجام دیا‘وہاں ماڈل عدالتیں بنائی گئیں‘جمہوریت میں اہم ہے کہ ہم کسی کام میں دخل اندازی نہ کریں‘لوگوں کو سستا انصاف ملنا چاہیے ٗمقدمات تیزی سے نمٹانے کا براہ راست فائدہ سائلین کو ہوگا ٗجج قانون کے مطابق فیصلہ کریں، انہیں اپنی منشا کے مطابق فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں‘ 1860میں بنا قانون کیا آج کے قانونی تقاضے پورے کرتا ہے؟۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں عدالتی اصلاحات سے متعلق منعقدہ اجلاس اور مقامی ہوٹل میں منعقدہ تیسری سندھ جوڈیشل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔چیفجسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ انصاف وقت پر اور قانون کے مطابق کرنا ہماری ذمہ داری ہے، ایک سول جج اور سپریم کورٹ کے جج میں کوئی فرق نہیں ہوتا، ہمیں وہ انصاف مہیا کرنا ہے جو قانون کے مطابق ہوہماری من مرضی پر نہ ہو‘بدقسمتی سے ہمارا جوڈیشل فورم تنقید کی زد میں ہے، جس کی ایک وجہ تاخیر ہے‘اختیارات شاید سپریم کورٹ کے جج کے پاس زیادہ ہوں مگر ذمہ داری سب کی یکساں ہے، ہماری ذمہ داری ہے کہ قانون کو سیکھیں اور لاگو کریں۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آج کل جو فیصلے آرہے ہیں ان میں من مرضی زیادہ جبکہ قانونی پہلو کم نظر آرہا ہے،ہائی کورٹ میں ایک لاکھ 47ہزار633کیسزجبکہ ضلعی عدلیہ میں 11لاکھ 87 ہزار 76کیسززیرالتواءہیں‘ سندھ ہائی کورٹ میں 93ہزار404کیسز اور سندھ کی ڈسٹرکٹ جوڈیشری میں 89ہزار820کیسز زیر التواءہیں‘دیکھنا چاہیے کہ جوڈیشری پر اتنا کام کا بوجھ ڈال دینا بھی مناسب ہے یا نہیں‘چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم ہے، عدالتوں میں وہ سہولتیں دستیاب نہیں جو ہونی چاہئیں، سہولتوں کی کمی کی وجہ سے جج پورا ان پٹ نہیں دے پاتے، یہ سہولتیں ہم نے نہیں دینی،آپ جانتے ہیں کہ کس نے دینی ہیں، قانون کو اپ ڈیٹ کر دیا جائے تو اس کے بعد میرے ججز کوتاہی کریں تو ذمہ داری میں لیتا ہوں،پارلیمنٹ ایک سپریم ادارہ ہے اور قوانین بنانا اسی کی ذمہ داری ہے اور ریفارمز کرنے کی ذمہ داری بھی پارلیمنٹ کی ہے۔کیس میں فیصلے کےلئے 90روز بہت ہوتے ہیں‘ کیسز میں لوگوں کو ایک ،ایک سال کی تاخیر میں مت ڈالیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے گھر کو منظم کرنا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ جتنے بھی زیر التوا کیسز ہیں ان کا بخوبی انداز ہے‘انہوں نے کہا کہ ایک کوشش کی جاسکتی ہے کہ اسی قانونی دائرے اور انہی ججز کی تعداد کے ساتھ ہر جگہ قانون کے مطابق جلد کام کریں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ مجھے سب سے اچھا کام پنجاب میں نظر آیا ہے ٗوہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی کوبروئے کار لایا گیا ہے، پنجاب میں ماڈل کورٹس بنائی گئی ہیں‘انہوںنے کہا کہ ہم مقننہ نہیں‘ ہم قانون سازی نہیں کرسکتے‘ معزز چیف جسٹس نے کہا کہ کیس جب سپریم کورٹ میں آتا ہے توپتہ چلتا ہے وہ بے گناہ ہیں، جیل میں ایک دن گزارنا بھی مشکل ہے، جنہوں نے کئی سال جیلوں میں گزارے ان کا کیا کریں ۔عدالت سے لوگ فیصلے کی توقع کرتے ہیں لیکن انہیں تاخیر مل جاتی ہے‘ کیس میں تاخیر کا الزام آخر کار عدلیہ پرہی آتا ہے ‘جج ان مقدمات کو نمٹا نہیں سکا تو کیا قصور وار ہے، کیا ڈسٹرکٹ اورسول جج کام نہیں کررہے؟جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ جمہوریت میں اہم ہے ہم کسی کام میں دخل اندازی نہ کریں ٗکیا قوانین کوپارلیمنٹ سے اپڈیٹ کیا گیا ہے؟ کسی کومورد الزام نہیں ٹھہرارہا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم کس دور میں جی رہے ہیں؟ پنجاب کے علاوہ پاکستان میں کہیں بھی معیاری فرانزک لیب نظرنہیں آئی، کروڑوں روپے کی پراپرٹی زبانی طور پر ٹرانسفر کردی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ لوگوں کے مقدمات کئی سال تک چلتے ہیں، جس کوقوانین میں ترمیم کرنی ہے وہ اس پرتوجہ دے۔ماتحت عدالتوں میں فیصلہ بروقت ہو گا تو اعلیٰ عدالتوں پر بوجھ کم ہو گا، عدالتی فیصلوں کے ذریعے کوئی قانون نہیں بنایا جا سکتا، قانون میں بہتری لانے والے اس معاملے پر توجہ دیں‘کسی جج کو من پسند فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں، جج صاحبان قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کے پابند ہیں۔عدلیہ اپنی حدود میں رہتی ہے اختیارات سے تجاوز نہیں کرتی۔