سانحہ قصور اپنی نوعیت میں ایسا اندوہناک ہے کہ اس پر احتجاج کا سلسلہ تھمنے میں نہیں آرہا اور خدشہ ہے کہ مجرموں کی عدم گرفتاری اسے مہمیز دے اور احتجاج کا دائرہ کار وسیع تر ہو جائے۔ ننھی زینب کے بہیمانہ قتل کی خبر کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ، آرمی چیف اور وزیراعلیٰ پنجاب نے سانحے کا فوری نوٹس لیا۔ تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی بنا ئی گئی، حکومت پنجاب نے کہا کہ ملزموں کو جلد پکڑ لیں گے، چیف جسٹس آف پاکستان نے آئی جی پنجاب سے 24گھنٹوں میں رپورٹ طلب کر لی، آرمی چیف نے فوج کو مجرموں کی گرفتاری میں مکمل تعاون فراہم کرنے کی ہدایت کی اور وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے دعویٰ کیا کہ ملزموں کو 8سے10گھنٹے میں گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ اس پر عوام کو قدرے یقین ہوا کہ زینب کے قاتل گرفتار کر لئےجائیں گے لیکن افسوس کہ تادم تحریر ایسا نہیں ہوسکا۔ جس پر قصور ہی نہیں ملک کے مختلف شہروں میں حکومت مخالف مظاہرے پھیلتے چلے جارہے ہیں۔ دریں اثنا چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے آئی جی پولیس کو 36گھنٹوں میں ملزم گرفتار کرنے کا ٹارگٹ دیا ہے اور محکمہ داخلہ نے زینب کے والد کے اعتراض پر جے آئی ٹی کے سربراہ کو تبدیل کردیا ہے۔ حکومت پنجاب کے ترجمان ملک محمد احمد خان نے کہا ہے کہ ملزم کے قریب پہنچ گئے ہیں اور وہ جلد کیفر کردار تک پہنچے گا۔ جہاں تک محکمہ پولیس کا تعلق ہے اس کی کارکردگی تو اسی امر سے عیاں ہوگئی تھی کہ اسے سی سی ٹی وی فوٹیج بھی فراہم کردی تھی لیکن وہ 5دن تک کوئی کارکردگی نہ دکھا سکی۔ بہرکیف حکومت کو پیش نظر رکھنا ہوگا کہ اب یہ معاملہ سیاسی رنگ اختیار کرتا چلا جارہا ہے، اگرچہ ایسے المناک واقعے پر سیاست ایک ناپسندیدہ عمل ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس میں سیاست کا عنصر داخل ہوچکا ہے۔ چنانچہ حکومت جتنی جلد یہ معاملہ حل کرلے گی اس کے لئے بہتر ہے ورنہ اسے عوامی احتجاج کے ساتھ ساتھ سیاسی مخالفت کابھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔