اپنی صوفیانہ شاعری سے آنے والی نسلوں کی بھی آنکھیں کھلی رکھنے والے درویش شاعر بابا بلھے شاہ کی نگری قصور کے ایک سراپا بے قصور گھرانے میں کھلتی، بہار بکھیرتی اک کلی کو جس طرح نظام بد کی علامت، سنگدل قاتل کے قتل در قتل کرکے کوڑے پر ڈالنے کا جو عوامی ردعمل سامنے آیا ہے، اس سے تویوں لگا کہ ابھی ہمارے بیمار و لاغر معاشرے میں کچھ جان باقی ہے۔ انتہائی خوف و ہراس کے ماحول اور شدید جسمانی و ذہنی اذیت میں جس طرح 7سالہ زینب کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، اس پر جوملک گیر عوامی ردعمل پھوٹ پڑا ہے، لگتا ہے اسٹیٹس کو (نظام بد) کی شکست وریخت کا نتیجہ خیز عمل قصور ہی سے شروع ہو جائے، جواپنی بےقصوری اور فقط ایک ماہ میں اپنے 12بچے بچیوں کے پے درپے اغوا اور قتل پر بپھر گیاہے۔ جسے قابوکرنے پر دو قصوری پولیس کی فائرنگ سے شہیدہوگئے اور پوراملک اور بیرون ملک پاکستانی رنج و الم میں ڈوب گئے۔
واضح رہے شہر قصور، جس کے اس قدر ہراساں اور غیرمحفوظ ہونے پر شہر کی پولیس ٹس سے مس نہیں ہوئی، سے ہمارے لمحہ بہ لمحہ غیرمحفوظ حکمرانوں کا عوامی خرچے پر محفوظ ترین محل فقط دس بارہ کلومیٹر دور ہے جو 24گھنٹے سینکڑوں مسلح محافظوں سے گھرارہتاہے، تو قصور اتنا غیرمحفوظ کیوں ہے؟ اس بڑے سوال کے ساتھ یہ پاکستانی میڈیا کا مجموعی بیانیہ بنا ہے۔ کیا جواب ہے ن لیگی میڈیا سیل کے پاس اس سوال کا۔ زینب تو چلی گئی نظام بد کے ظالم ہاتھوں دم توڑتی پری کی معصومیت کے وحشیانہ قتل سے نکلنے والی طاقت کتنی ہے کہ سماجی پسماندگی کے غلبے میں دبےبے حس پاکستانی معاشرے کو بھی جھنجوڑ گئی۔ اس معاشرے کو جو ظلم و جور سہنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔
ابھی تک اسٹیٹس کو کا مکارانہ بیانیہ جو حکومتی وزرا نے گھڑا ہے، یہ ہے کہ سانحہ قصور کے واقع کو سیاسی رنگ نہ دیا جائے، کیوں نہ دیا جائے؟ یہ اسی بدبخت عوام دشمن اور خواص نواز حکومتی نظام کا شاخسانہ ہے، جس میں پولیس کا مقصد شہریوں کی حفاظت نہیں، فقط اسٹیٹس کو تشکیل دینے والے، تھانہ کچہری کلچر کے سرخیل حکمرانوں کی حفاظت اور معاشرے پر ان کا رعب داب قائم کرنا ہے۔
عمران خان نے قوم کوبالکل صحیح اور بروقت یاددہانی کرائی ہے کہ پنجاب کی یہ وہی پولیس ہے جس کے زیرسایہ صوبے میں جرائم کی بھرمارپر 2012میں لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر آئی جی پولیس نے عدلیہ میں جمع کرائی رپورٹ میں نشاندہی کی تھی کہ جرائم کی پرورش کرنے والی پولیس یا تو سیاسی بھرتی ہے یا اس کے ذمہ داران کی تقرریاں رشوت کی بنیاد پر ہوئیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ اس میں وہ ملزمان و مجرم بھی شامل ہیں جن کے خلاف تھانوں میں ایف آر درج رہیں۔
یہ پولیس اسٹیٹس کو کے مخصوص حربوں کے مطابق اپنے اپنے علاقے میں سیاسی برتری اورحمایت حاصل کرنے کابڑا موثر ہتھیاربھی ہے۔ جو حکمران جماعت کے منتخب نمائندوں کے مطابق علاقے کے کمزور ووٹروں پر ناجائز مقدمات بھی بناتی ہے۔ انہیں رشوت کا ذریعہ بھی بناتی ہے اور پھر ان ہی ’’عوام کے خادمین‘‘ کی سفارش پرعدالتی کارروائی سے پہلے ہی چھوڑ کر ان پر احسان عظیم بھی کرتی ہے جوووٹ لینے کے لئے موثر ترین حربہ ہے۔
آخر کیوں پولیس کو بلدیاتی اداروں کے تابع کرنے کی جدید اپروچ کرکے، پولیس کو سیاست دانوں کا نوکر چاکر بنانے کی بجائے حقیقی معنوں میں پبلک سرونٹ نہیں بنایاجاتا؟ اورکمیونٹی کورٹس نے اب تک ہمارے راشی اور نااہل کچہری کلچر کو کیوں نہ ختم کیا؟ اس لئے کہ یہ اسٹیٹس کو کے موثر ترین انسٹرومنٹ میں کامیاب ترین ہے، جو حکمرانوں کو محفوظ و مستحکم کرکےہر دم عوام کو دبائو میں ہراساں رکھتا ہے۔
پنجاب اور سندھ میںحکومتی جانب سے بمطابق آئین خودمختار پروپیپلز بلدیاتی اداروں کے قیام کے خلاف گزشتہ دس سالہ مزاحمت نے دونوں صوبوں کے اسٹیٹس کو کے علمبردار سیاستدانوں کی ذہنیت کا پردہ چاک کردیا ہے کہ وہ عوام کے کتنے اور کیسے خادم اور غم خوار ہیں۔ یہ ہی وہ ذہنیت ہے جو نظام و انتظام بد کی شکل اختیار کرکے جرائم کو مسلسل بڑھا رہی ہے اور سزائوں کی جگہ رشوت اور سیاست نے لے لی ہے۔ نظام بد کی اس ادارتی شیطانیت نے قصور میں ہونے والے کتنے ہی المیوں کو معمول کے جرم بنا دیا ہے۔ گویا سب کیا دھرا ظالمانہ عوام دشمن سیاسی حکومتی نظام کا ہے اگر سوال در سوال کرکے ان کے درست جواب جمع کئے جائیں تو ایسے تمام تر سنگین اور پاکستان کو دنیا میں رسوا کرنے والے جرائم کی ذمہ دار ہماری موجودہ روایتی حکمران سیاسی جماعتیں اور ان کا طرز ِ حکومت ہی ثابت ہوگا۔
دیکھنا یہ ہے کہ اب جو عوامی ردعمل اور اتحاد ننھی زینب کے قتل کے ردعمل کے طور سامنے آیا ہے، کیا یہ اسٹیٹس کو کی حتمی شکست و ریخت کا حقیقی چیلنج بن جائے گا اور اس سے پیدا ہونے والی کوئی تحریک کا کوئی منطقی انجام ہوگا یا خلق دشمن حکمرانوں کے راج کے ابھی کچھ سال اور باقی ہیں؟