کراچی(اسٹاف رپورٹر‘ایجنسیاں) سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں آلودہ پانی اورنکاسی آب سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کراچی میں ایسا علاقہ بھی ہے جہاں لوگ دو دوماہ تک نہانہیں سکتے‘ شہر کو ٹینکر مافیا سے نجات دلاکر رہیں گے‘ مافیا کی باتیں سب کرتے ہیں مگر نام کوئی نہیں لے رہا ‘اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کرکے دکھائیں گے‘ خداکاخوف کرو لوگوں کو پینے کا صاف پانی نہیں دے سکتے‘ ہمیںرپورٹس میں مت الجھائیں، یہ بتائیں کہ اس شہر میں پانی کی کمی کیوں ہے‘ سیدھا بتایا جائے کہ منصوبے پر عمل کب ہوگا‘ٹینکرز مافیا اربوں روپے کما رہا ہے ‘ سندھ حکومت شہریوں کو پانی تک فراہم نہیں کر رہی‘ وہ جھاکے والا دور گیا، اب ہم یہاں بیٹھیں ہیں‘ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ٹینکرز کے ٹھیکوں کے پیچھے کون ہے، غریبوں کو 4ہزار روپے کے ٹیکے لگا رہے ہیں‘ مافیا کے اپنے مفادات ہیں، بااثر لوگ ٹینکرز بند نہیں ہونے دیں گے۔ چیف جسٹس نے ایم ڈی واٹر بورڈ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ذمہ داری ادا نہیں کر رہے تو عہدہ چھوڑ دیں‘ اگر اختیار نہیں یا ناکام ہیں تو کوئی بات نہیں‘ ٹینکرز مافیا سے نمٹنا ہمارا کام ہے‘ اگر وہ ہڑتال کریں گے تو ان سے ہم نمٹ لیں گے ۔ سماعت کے دوران چیف سیکرٹری سندھ رضوان میمن نے استدعا کی کہ صرف 15دن دے دیں، 15دن میں بتا دیں گے کہ 6ماہ میں کون کون سے منصوبے پورے کریں گے سپریم کورٹ نے پینے کے صاف پانی کی فراہمی سے متعلق سپریم کورٹ کے ریٹائر جج جسٹس امیر مسلم ہائی کوواٹر کمیشن کا سربراہ مقررکردیااورپانی کے مسئلے کے حل کے لئے سندھ حکومت کو 15دن میں جامع منصوبہ بناکر واٹر کمیشن کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا۔سپریم کورٹ نے مئیر کراچی وسیم اختر سے پانی کی فراہمی و نکاسی آب سے متعلق مسائل کے حل کے لئے ایک ہفتے میں تجاویز پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی ہے۔تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی قائم تین رکنی بینچ کے رو برو اتوار کوسندھ میں پینے کے لئے صاف پانی کی فراہمی و نکاسی آب سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ،تین رکنی بینچ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے ہمراہ جسٹس فیصل عرب اور جسٹس سجاد علی شاہ شامل تھے۔ سماعت کے دوران چیف سیکرٹری سندھ رضوان میمن نے عدالت سے استدعا کی کہ انہیں مہلت دی جائے کہ پندرہ روز میں بتا دینگے کہ کون کون سے کام چھ ماہ میں مکمل ہوسکتے ہیں۔سپریم کورٹ نے کہا کہ لوگوں کے گھروں میں پانی آنا چاہیے ، میئر نے کہاشہر میں پانی نہ ملنے کےباعث لوگ دو دو ماہ تک نہاتے نہیں ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خدا کا خوف کرو، لوگوں کو پانی نہیں دیتے‘ایم ڈی واٹر بورڈ ہاشم رضا زیدی نے عدالت کو بتایا کہ بہت سے علاقے کچی آبادیاں ہیں، جہاں لائنیں نہیں جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پانی کی کمی ٹینکرز سے کیوں پوری ہوتی ہے، چلیں پینے کے پانی کو چھوڑیں، استعمال کا پانی ٹینکرز سے کیوں پورا ہورہا ہے۔اس موقع پر ایم ڈی واٹر بورڈ نے کہا کہ پانی کی طلب اور رسد میں فرق ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ذریعہ آپ ہی ہیں، خود پانی کی فراہمی کا انتظام کیوں نہیں کرتے، کیا ڈیفنس میں پانی کی فراہمی کا کوئی اپنا نظام نہیں۔عدالتی حکم پرمیئر کراچی وسیم اختر نے عدالت میں پیش ہوکر بیان دیاکہ شہرکے مسائل اس وقت تک حل نہیں ہونگے جب تک شہر ایک چھتری کے تلے نہ آجائے‘شہر کے ڈھانچے کو درست کرنے کی ضرورت ہے، قبضے چھوٹوں نے نہیں بلکہ بڑوں نے بھی کیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مئیر صاحب آپ بری الذمہ نہیں ہوسکتے ‘اس شہر میں آج بھی آپ کی پارٹی ہے اور زیادہ تر دور تو آپ ہی کارہاہے۔کیا آپ کہہ سکتے ہیں کراچی والے سکون میں ہیں؟۔ وسیم اختر نےکہاکہ وہ سیاست سے بالاتر ہوکر کام کرینگے اورایک ہفتے میں اسلام آباد تجاویز کے ساتھ پیش ہونگے۔عدالت نےکہاکہ مئیرکراچی کی زبانی سن کر افسوس ہواکہ ایسے علاقے بھی ہیں جہاں لوگ پانی کی قلت کے باعث دو دو ماہ تک نہاتے نہیں۔کچھ بھی ہو شہر سے ٹینکرمافیا کا خاتمہ کرکے دم لیں‘چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جج چوبیس گھنٹے جج ہوتاہے۔کسی بھی وقت کہیں بھی عدالت لگاسکتے ہیں چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ ضمیر گھمبروسے استفسار کیا کہ جسٹس امیر ہانی مسلم کی تقرری کا سن کر آپ کیوں اداس ہو گئے اس سے پہلے آپ کو اتنا پر یشا ن نہیں دیکھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بچپن میں ہمیںنانی اماں کہتی تھیں سوجاو نہیں تو "بھئو"آجائیگا۔ چیف جسٹس کے ریمارکس پر کمرہ عدالت قہقہوں سے گونج اٹھا۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ گنے کی فیکٹریاں کس کی ہیں ۔سنا ہےفیکٹری مالکان کسانوں کو گنے کی قیمت نہیں دے رہے۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ سندھ ہائیکورٹ میں کیس زیر سماعت ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ کیوں نہ یہ کیس ہم ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ منتقل کرلیں؟۔