• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جامعہ کراچی کے سابق استاد ڈاکٹر حسن ظفر عارف جن کی لاش گزشتہ روز پراسرارحالات میں ان کی گاڑی سے برآمد ہوئی، کم و بیش ڈیڑھ سال سے اگرچہ ایم کیوایم لندن سے بحیثیت ڈپٹی کنوینر وابستہ تھے لیکن ان کی اصل پہچان ایک ترقی پسند دانشور اور عوام کے جمہوری حقوق کے علم بردارسیاسی کارکن کی تھی۔ ضیاء دور میں انہوں نے بحالی جمہوریت کی تحریکوں میں فعال کردار ادا کیا تھا۔ نوے کی دہائی میں مسلم لیگ (ن) سے بھی ان کی قربت رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی پراسرار موت پر، نہ صرف ان کے مخالف گروپ ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار بلکہ دوسرے سیاسی رہنماؤں نے بھی کراچی میں بدامنی پھیلانے کی سازش کے شبہ کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے قائد بلاول بھٹو نے بھی جمہوریت کے لئے ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ کو ان کی موت کی مکمل تحقیقات کرانے کی ہدایت کی ہے۔ ڈاکٹر حسن ظفر اگست 2016ء میں الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقریر کی تیاری میں سہولت کاری کے الزام میں گرفتار بھی ہوئے تھے لیکن پھر عدالتی حکم کے تحت ان کی رہائی عمل میں آگئی تھی۔ڈاکٹروں نے اگرچہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ان کے جسم پر تشدد کا کوئی نشان نہیں پایا گیالہٰذا قتل کا امکان کم ہے لیکن مزید تفصیلات کے لیے پوسٹ مارٹم رپورٹ کا انتظار کرنا ہوگا۔تاہم قتل کا کوئی ظاہری ثبوت سامنے نہ آنے کے باوجود ان کا ایک دن پہلے لاپتہ ہونا جس کی اطلاع ان کی اہلیہ نے ان کے وکیل کو دے دی تھی اور ان کی گاڑی کا ان کے معمول کے راستوںسے کوسوں دور پایا جانا ، بہرحال صورت حال کو پراسرار بنا رہا ہے۔ اس بنا پر ضروری ہے کہ اصل حقائق سامنے لانے کی تمام تدابیر اختیار کی جائیں۔ ان کی موت طبعی نہیں ہے تو ذمہ داروں کا تعین کرکے قانون کی گرفت میں لایا جائے اور طبعی ہے تو اس کے مکمل ثبوت و شواہد بھی سامنے لائے جائیں تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں اور شکوک و شبہات کی بنیاد پر شہر میں انتشار اور بدامنی کا کوئی امکان نہ رہے۔

تازہ ترین