• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے شاعر اور افسانہ نگار دوست ایرج مبارک کہتے ہیں کہ یہ آن لائن رسالوں اور کتابوں کا زمانہ ہے۔ کاغذ پر چھپنے والے رسالوں اور کتابوں کا زمانہ لد گیا۔ ان کا خیال ہے کہ کاغذ پر چھپنے والے رسالے اور کتابیں زیادہ سے زیادہ پانچ سو چھپتی ہیں، اور چند سو سے بھی کم قارئین تک پہنچتی ہیں، جبکہ آن لائن چھپنے والے رسالوں اور کتابوں کے قاری ہزاروں کی تعداد میں ہو تے ہیں۔ کوئی رسالہ، کوئی مضمون، کوئی نظم یا کوئی غزل جب آن لائن جاتی ہے تو صرف ایک پڑھنے والا ہی اسے نہیں پڑھتا بلکہ اسکے ساتھ اسکے چالیس پچاس دوست بھی پڑھتے ہیں۔ اسکے بعد ہر پڑھنے والا اسے اپنے دوسرے دوستوں کیساتھ شیئر کرتا ہے۔ پھر دوست سے دوست اور دوست سے دوست اسے شیئر کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح ہزاروں پڑھنے والوں تک وہ پہنچ جاتی ہے۔ اچھا، عجیب بات یہ ہے کہ ادھر ہمارے ایرج مبارک آن لائن اشاعت کی وکالت کر رہے ہیں تو ادھر ہندوستان میں بنگال اردو اکادمی اس موضوع پر مذاکرہ کرا رہی ہے کہ اس ڈیجیٹل دور میں کاغذ پر چھپنے والی کتابوں اور رسالوں کا کیا مستقبل ہے؟ اس مذاکرے میں شمیم حنفی اور شافع قدوائی جیسے ہمارے دوست شرکت کر رہے ہیں۔ اب ہمیں یہ تو نہیں معلوم کہ وہاں کتابوں اور رسالوں کی قسمت کا فیصلہ کیا ہوا، لیکن ہمیں یاد آیا کہ ایسے خدشات تو مرحوم اشفاق احمد نے بیس پچیس سال پہلے ہی ظاہر کر دیئے تھے۔ وہ مشینوں کی طاقت کے کچھ ایسے قائل تھے کہ انہوں نے اپنے ایک افسانے میں ہماری داستانوں کے چغل خور طوطے کے بجائے آڈیو ریکارڈنگ مشین کو بے وفا بیوی کے شوہر کا جاسوس بنا دیا تھا۔ گویا انہوں نے اسی وقت ہمارا آنےوالا مستقبل دیکھ لیا تھا۔ پچھلے بیس پچیس سال میں جو تبدیلیاں ہوئی ہیں ان سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ کتابوں، رسالوں حتیٰ کہ اخباروں کا بھی پرانا دور اپنے آخری دموں پر ہے۔ دنیا کے کتنے ہی معروف اخبار ہیں جنہوں نے اپنی اشاعت آن لائن تک ہی محدود کردی ہے۔ باقی بھی اپنا آن لائن ایڈیشن چھاپ کر اپنے پڑھنے والوں سے چند ڈالر کا چندہ مانگتے ہیں۔ آپ کتابیں بھی آن لائن پڑھ سکتے ہیں بلکہ کتابیں کسی اور کو پڑھتے ہوئے سن بھی سکتے ہیں۔ لیکن یہ بھی دیکھیے کہ یہ کتابیں پہلے کاغذ پر چھپتی ہیں اسکے بعد آن لائن جاتی ہیں یعنی کاغذ کی مدد ابھی تک لی جا رہی ہے۔
ہم آن لائن رسالوں وغیرہ کی افادیت مانتے ہیں مگر کیا کریں کہ غالب کے بقول ’’پر طبیعت ادھر نہیں آتی‘‘۔ ہمیں یہ سوچ کر ہی خوف آتا ہے کہ آخر ہم مانیٹر پر کب تک اپنی آنکھیں پھوڑتے رہیں گے؟ ہمارے پاسKindle ہے۔ اس میں سینکڑوں کتابیں محفوظ ہیں بلکہ دنیا کا کلاسیکی ادب تو سارے کا سارا وہاں موجود ہے۔ نئی کتابیں بھی ہم تھوڑی سی رقم خرچ کر کے اس میں ڈلوا لیتے ہیں۔ ہم چلتے پھرتے یہ کتابیں پڑھ سکتے ہیں۔ لیکن،اگر آج کی نسل ہمارا مذاق نہ اڑائے تو، ہم عرض کریں کہ جو مزہ ہاتھ میں کتاب لے کر پڑھنے میں ہے وہ آن لائن پڑھنے میں نہیں ہے۔ ہمارے کئی دوست آن لائن رسالوں میں مضمون لکھ رہے ہیں اور ان کے پڑھنے والے بھی موجود ہیں۔ انہیں فائدہ یہ بھی ہے کہ ادھر ان کی کوئی تخلیق سامنے آئی اور ادھر انہیں علم ہو گیا کہ کتنے لوگوں نے اسے پسند کیا ہے۔ بلکہ اس پر تبصرے بھی فوراً ہی سامنے آ جاتے ہیں۔ لیکن ہم ابھی اس مقام تک نہیں پہنچے کہ کاغذ کا سہارا بالکل ہی ختم ہو گیا ہو۔ دنیا بھر میں کتابیں چھپ رہی ہیں۔ اور علمی و ادبی حلقوں میں جن کتابوں کا ذکر کیا جاتا ہے وہ کاغذ پر چھپنے والی کتابیں ہی ہوتی ہیں۔ نوبیل اور بکر جیسے انعام بھی انہی کتابوں پر دیئے جاتے ہیں۔ اس لئے یہ دیکھ کو ہمیں تسلی ہوتی ہے کہ ابھی سورج مغرب سے نہیں نکلا۔ کہتے ہیں نا کہ جب قیامت آئے گی تو سورج مغرب سے نکلے گا یعنی کتاب پر ابھی قیامت نہیں آئی۔ ہمارے درمیان ابھی کافی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کمپیوٹر استعمال ہی نہیں کرتے۔ اور پھر ہماری طرح ایسے پڑھنے والے تو لاتعداد ہیں جن کا کھانا ہماری طرح ہاتھ میں کتاب لے کر پڑھے بغیر ہضم ہی نہیں ہوتا۔ ہم آن لائن چھپنے والوں سے کہتے ہیں جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا۔ رسالے یا کتاب میں آئو تو سب پڑھیں گے اور اس کا ذکر بھی کریں گے۔ خیر، خوشی کی بات یہ ہے کہ اس کا احساس خود آن لائن چھپنے والوں کو بھی ہے۔ پیرزادہ سلمان انگریزی کے شاعر اور افسانہ نگار ہیں۔ وہ صرف اپنی انگریزی نظمیں ہی فیس بک پر نہیں ڈالتے بلکہ اردو شاعروں کے جو شعر انہیں اچھے لگتے ہیں وہ بھی فیس بک پر ہمیں پڑھوا دیتے ہیں۔ رسا چغتائی، جن کا ابھی چند دن پہلے انتقال ہوا ہے، پیرزادہ سلمان کے ذریعے ہی ہم تک پہنچے۔ ہماری نظر سے ان کا کلام تو گزرا تھا، مگر وہ کس پائے کے غزل گو تھے؟ سلمان نے ان کے منتخب شعر نقل کر کے ہی ہمیں بتایا۔ سلمان کی انگریزی نظمیں فیس بک کے ذریعے ہم تک پہنچ رہی تھیں۔ لیکن سلمان اس سے مطمئن نہیں تھے۔ اس لئے انہوں نےBemused کے نام سے اپنی نظموں کا مجموعہ چھپوا دیا۔ اب ہم کتاب سامنے رکھ کر ان کی نظموں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ اور کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کی انگریزی شاعری میں یہ ایک وقیع اضافہ ہے۔ اور ہاں، آصف فرخی بھی آن لائن رسالے میں مضمون لکھتے ہیں۔ لیکن یہی مضمون وہ اپنے رسالے ’’دنیا زاد‘‘ میں چھاپنا بھی نہیں بھولتے۔ یعنی کاغذ قلم کی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ موجود ہے۔ پاکستان میں کتابیں چھپ رہی ہیں اور خوب چھپ رہی ہیں۔ ہر موضوع پر چھپ رہی ہیں۔ ناول اور افسانے تو پہلے سے بھی زیادہ تعداد میں چھپ رہے ہیں۔ پچھلے سال ہی جو کتابیں چھپی ہیں ہم یہاں ان کی فہرست اس لئے نہیں دینا چاہتے کہ جس لکھنے والے کا نام بھی رہ جائے گا وہ ناراض ہو جائے گا۔ لیکن ایک نئے رسالے کا ذکر ضرور کرنا چاہتے ہیں۔ یہ رسالہ ہے ’’استعارہ‘‘۔ اسے ڈاکٹر امجد طفیل اور آرٹسٹ ریاظ ( وہ ظ سے ہی ریاظ لکھتے ہیں) نے لاہور سے نکالا ہے۔ یوں تو اس رسالے میں پڑھنے کو بہت کچھ ہے لیکن ہمیں ایک نئی شاعرہ عبیرہ احمد کی شاعری اچھی لگی۔ ا ن کی غزل کا ایک شعر آپ بھی پڑھ لیجئے
شام ڈھلے دالان کنارے چولہا چوکا کرتی بیٹی
اماں کو اچھی نہیں لگتی ڈھلتی دھوپ اور ڈھلتی بیٹی
تو صاحب، ابھی کاغذ قلم کی داستان ختم نہیں ہوئی۔ جو لکھنے والے آن لائن کی وکالت کرتے ہیں انہیں آن لائن مبارک۔ ہم توKindle رکھنے کے باوجود کاغذ قلم کے اسیر ہیں۔

 

تازہ ترین