• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صوبہ بلوچستان میں جس طرح سیاسی تبدیلی آئی ہے یا لائی گئی ہے اس سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ پاکستان میں جمہوری نظام کی بنیادیں ابھی تک بہت کمزور ہیں۔ بلوچستان میں پارلیمانی جمہوریت کے ادب آداب ، قاعدوں اور ضابطوں کی کاغذی سطح پر پوری طرح سے پابندی کی گئی ہے لیکن اس عمل میں جمہوری روح تحلیل ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس تبدیلی سے نہ تو بلوچستان کی پسماندگی دور ہوگی اور نہ ہی بلوچوں کو وہ حقوق ملیں گے جس کے لئے وہ کافی دیر سے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس پس منظر میں سیاسی سازشوں کے ماننے والے ایک مرتبہ پھر سے یہ کہہ رہے ہیں کہ اب پاکستان مخالف بیرونی طاقتوں کے لئے ملک کو توڑنا آسان ہو گیا ہے۔ ہمارے خیال میں اس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن پاکستانی ریاست کو صوبے کی پسماندگی دور کرنے اور بلوچوں کو ان کے جائز حقوق دینے میں کسی بھی لیت و لعل سے کام نہیں لینا چاہئے۔
کچھ عرصہ پہلے تک بلوچستان کی حکومت مستحکم لگ رہی تھی اور کہا جا رہا تھا کہ مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کو صوبے سے چار پانچ سیٹیں مل جائیں گی اور اس کی سینیٹ میں برتری قائم ہو جائے گی۔ لیکن جس طرح سے اچانک وزیر اعلیٰ ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی اس سے یہ ثابت ہو گیا کہ بلوچستان میں ممبران صوبائی اسمبلی کی جماعتی وفاداریاں محض خیالی ہیں۔ قبائلی علاقوں سے منتخب ہو کر آنے والے ممبران اسمبلی یہ دیکھتے ہیں کہ مرکز میں کس پارٹی کی حکومت ہے اور وہ اسی کے ساتھ چلے جاتے ہیں۔ بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی اور مسلم لیگ (ن) کے بڑی تعداد میں منحرف ہونے والے ممبران اسمبلی یہ واضح اشارہ دے رہے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں یا تو مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہی نہیں ہوگی اور اگر ایسا ہو بھی گیا تو وہ حکومت ہمیشہ ڈانواڈول رہے گی۔ جس طرح سے 544 ووٹ لے کر صوبائی اسمبلی میں پہنچنے والے عبدالقدوس بزنجو کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا ہے اس سے یہی لگتا ہے کہ صوبے میں سیاست ایک کھیل ہے اور اس کا مقصد عوامی نمائندگی نہیں ہے۔
بلوچستان میں جو بھی ہوا اس کا بنیادی تعلق پنجاب کی سیاست سے ہے۔ بوجوہ پچھلے کئی سالوں سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو پنجاب میں غیر مستحکم کرنے کی کوششیں ہو رہی تھیں۔ حزب مخالف کی بڑی سیاسی پارٹیوں ، تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی، کو یہ یقین تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت چند دن کی مہمان ہے اور مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے الیکشن ممکن نہیں ہو پائیں گے۔ حزب مخالف کے حلقوں میں یہ بھی پختہ یقین تھا کہ میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعد مسلم لیگ (ن) تتر بتر ہو جائے گی اور اس کے موقع پرست سیاستدانوں کا ٹولہ اسے چھوڑ دے گا۔ اسلام آباد میں تحریک لبیک یا رسولؐ اللہ کے دھرنے اور پیر حمیدالدین سیالوی کے دعوئوں کے بعد تو یہ یقین اور بھی پختہ ہوتا جا رہا تھا کہ اب مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔ لیکن ایسا ہو نہیں سکا اور پنجاب میں عوامی دباؤکی وجہ سے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی مسلم لیگ (ن) کو چھوڑنے کے لئے تیار نظر نہیں آئے اور حکومت کے گرنے کے اسباب پیدا نہیں ہو سکے۔ اب یہ امکان بڑھ گیا تھا کہ مارچ میں سینیٹ کے الیکشنوں میں مسلم لیگ (ن) اکثریتی پارٹی کے طور پر سامنے آجائے گی۔ اس امکانی صورتحال سے بچنے کیلئے بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کا دھڑن تختہ کیا گیا ہے۔ اس عمل سے نہ صرف مسلم لیگ (ن) چار پانچ سینیٹ کی سیٹوں سے محروم ہو جائے گی بلکہ ملک بھر میں موقع پرست سیاستدانوں کو واضح اشارہ دیا گیا ہے کہ اب مسلم لیگ (ن) کو برداشت کرنے کے دن ختم ہو چکے ہیں۔
ماضی میں بھی بلوچستان کی سیاست باقی ماندہ ملک میں سیاسی تبدیلیوں کا پیش خیمہ بنتی رہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں کو معطل کرکے ایک غیر جمہوری عمل کا آغاز کیا تھا جس کا خمیازہ انہیں 1977میں بھگتنا پڑا۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی اکبر بگٹی کو قتل کرکے اپنے انجام کی بنیاد رکھ دی تھی۔ اب بھی بلوچستان میں جو ہو رہا ہے اس کے اثرات باقی ملک کی سیاست پر مرتب ہوں گے۔ جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے بلوچستان میں یک لخت تبدیلی لا کر ملک کے باقی ماندہ سیاستدانوں کو اشارہ دیا جا رہا ہے کہ ان کو 2018 کے انتخابات میں یہ سوچ کر حصہ لینا چاہئے کہ اب مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی پائیدار حکومت قائم ہونے کے امکانات نہیں ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ پنجاب میں بلوچستان کی حکومت کی تبدیلی کو کس طرح سے لیا جاتا ہے۔ ویسے ایک حقیقت تو واضح ہو گئی ہے کہ صرف پنجاب کی بنیاد پر مرکز میں بننے والی حکومت کو کئی طرح سے غیر مستحکم کیا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ملک میں قومی پارٹی کی عدم موجودگی کی وجہ سے پاکستان کی سیاست مضبوط بنیادوں پر کھڑی نہیں رہ سکتی۔
بلوچستان میں سیا سی تبدیلی کے انداز سے بہت سے سازشی نظریات پھر سے زندہ ہو گئے ہیں۔ ان نظریات کے مطابق اگر بلوچستان کی سیاست کو اسی طرح استعمال کیا جاتا رہا تو خدانخواستہ پاکستان دشمنوں کے پاکستان کو توڑنے کے خواب آسانی سے پورے ہو سکتے ہیں۔ ہندوستان کی بلوچ علیحدگی تحریک کی معاونت تو مسلمہ حقیقت ہے۔ اب اگر امریکہ بھی اس ہندوستانی منصوبہ بندی کا حصہ بن جائے تو بلوچستان کو علیحدہ کرنا آسان ہو سکتا ہے۔ اس سوچ کے حامل نام نہاد نظریہ دانوں کا کہنا ہے کہ اس طرح سے امریکہ اور ہندوستان چین کی گوادر تک رسائی کو بھی روک سکتے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ امر محال ہے کیونکہ بلوچستان کی پختون آبادی کے علاوہ بلوچوں کا بھی بہت بڑا حصہ پاکستان کا حامی ہے۔ البتہ جب تک بلوچستان میں معاشی اور سماجی ترقی ایک خاص سطح تک نہیںپہنچتی تب تک اسے سیاسی کھلواڑ کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس لئے پنجاب کے سیاستدانوں کے لئے لازم ہے کہ وہ ملکی سطح پر مستحکم حکومت قائم کرنے کے لئے بلوچستان کی ترقی کو تیز کرنے میں مدد کریں اور بلوچوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کریں۔

تازہ ترین