• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شام کو ٹھنڈی ہوا ان کے لئے چلتی ہے ...ناتمام…ہارون الرشید

”سیف # اپنی قبر کے سوا ، تھوڑا تھوڑا ان سب دوستوں کے ساتھ دفن ہو چکا جو اس سے پہلے چلے گئے“۔
فریاد ہے یا رب فریاد! ملگجی شام ہے ، جھٹ پٹے کا وقت۔ شام گہری ہوتی جا رہی ہے۔ شب طلوع ہونے والی ہے ۔اردو کے بجائے جو ہمیشہ سے میری زبان تھی، میں اب پنجابی میں سوچنے لگا ہوں۔ تب ترجمہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں، ہوتا نہیں، اداسی گھمبیر ہو جاتی ہے۔ ”ہاڑا اوئے“ پنجابی میں فریاد کی لَے ہے۔” فریاد ہے، یا رب فریاد“۔ نہیں یہ تو بالکل ادھورا سا ترجمہ ہے۔ہر زبان میں کچھ لفظ، کچھ اصطلاحات، تشبیہات، محاورے، استعارے، مصرعے ، اشعار اور ضرب الامثال ایسی ہوتی ہیں دوسری زبان میں جو منتقل نہیں ہو سکتیں۔ میرے گرامی قدر استاد انیس احمد اعظمی کو میرا مہربان مالک جیتا رکھے۔ ان کی زیارت کر لینے کی تمنا ہے۔ اردو زبان کے ساتھ باقی رہنے والی الفت ان کی عنایت ہے۔ احسان کا بار اٹھائے نہیں اٹھتا۔ جی چاہتا ہے صرف ان سے ملاقات کی خاطر ، صرف ان سے ملاقات کی خاطر بھارت کا سفر کروں۔ واہگہ پار پہنچ کر کسی سے پوچھوں: بھائی اعظم گڑھ کا راستہ کیا امرتسر سے ہو کر گزرتا ہے۔
میں تے ڈھوک سجن دی جاناں نال میرے کوئی چلّے
ڈاکٹر خورشید رضوی نے پوچھا: اردو تم نے کس سے پڑھی۔ ایک حسرت سی دل میں تڑپ کر جاگی: گاؤں کا گنوار کہاں سے پڑھتا ڈاکٹر صاحب ؟ ایک استاد کو چند برس رحیم یار خان میں قیام گوارا ہوا۔ مجھ سے کچھ دیہاتیوں کو اردو شاعری تعلیم کی اور اپنے وطن لوٹ گئے۔ چونک کر انہوں نے دیکھا اور فرمایا : انیس صاحب سے جس نے اردو پڑھ لی، کسی اور سے پڑھنے کی اسے ضرورت کیا تھی۔ سچ کہا بخدا سچ کہا، ہم ہی ناقص تھے ورنہ استاد تو ایسا کامل۔ ایسا مشفق، اتنا مہربان، جیسے کوئی بادل کہ برس جانا چاہے۔ کھیتوں میں سبزہ اور باغوں میں پھول بن کر اگنا چاہے۔
بے ساختہ فاروق گیلانی نے بایاں ہاتھ میز پر مارا، واہ، واہ، واہ ہ ہ ہ ہ ، واہ ! آنکھوں میں وہی چمک ، چہرے پہ وہی دھیمی سی مسکراہٹ، وہی ادھورا قہقہہ، وہی پوری بشاشت۔
ہائے او موت تجھے موت ہی آئی ہوتی
شاہ جی کچھ دن جی لیا ہوتا، کچھ دن اور جی لیا ہوتا۔ ہمیں کون سی عمر نوح جینا تھی۔ پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب کے دونوں ہاتھ تھام کر عرض کیا: اب کوئی زخم سہنے کی تاب نہیں۔ حیران اور بھلے چنگے خاموشی سے وہ اس احمق کو دیکھتے رہے۔ ”سیف اپنی قبر کے سوا، تھوڑا تھوڑا ان سب دوستوں کے ساتھ دفن ہو چکا جو اس سے پہلے رخصت ہو گئے“۔ اس ایک جملے نے زخم ہرے کر دیئے ہیں، سب زخم ہرے کر دیئے ہیں۔ اس جادوگر اسد اللہ خان غالب# کو کیا سوجھی تھی۔ اس نے یہ کیوں کہا تھا ۔
رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
1857ء کے بعد کی اجڑی ہوئی دلّی کا سناٹا ۔ایک خط میں دور دیس میں جا بسنے والے دوست کو لکھا ”تمہارے خط نے میرے ساتھ وہ کیا جو پیرہن نے یعقوب کے ساتھ کیا تھا“۔ کچھ دن بعد کے ایک دوسرے مکتوب میں رقم ہے ”بیمار ہوں اتنی دیر میں بستر سے اٹھتا ہوں جتنی دیر میں قد آدم دیوار اٹھتی ہے“ شاعر کے نالہ و شیون کو یعقوب علیہ السلام کے صبر و قرار سے کیا نسبت۔
غنی روز سیاہِ پیرِ کنعاں را تماشا کن
کہ نور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را
ہمیشہ باقی رہنے کے لئے سورئہ یوسف دونوں پیغمبروں کی روداد بیان کرتی ہے۔ فقط دو لفظ میں پوری داستان۔ سانحہ کی جھوٹی داستان سنائی دے چکی تو ارشاد کیا تھا کہ ”فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ“۔ صبر ہی سب سے اچھا ہے۔
محمد زبیر مسلم، اٹھارہ سال بیت گئے لیکن یوں لگتا ہے ابھی کل سہ پہر کی بات ہے۔ معلوم نہ تھا کہ موت اسے دبوچنے آ پہنچی ہے۔ میرے پیارے چھوٹے بھائی کو۔ امریکیوں نے اسے زہر دے دیا تھا۔ مرگ کی سنگین سیاہ آہٹ اسے خوفزدہ نہ کر سکی۔ خوف کیا معنی پریشان بھی نہیں لیکن پھر تیمار دار کے رخصت ہونے کا وقت آیا۔ زندگی میں پہلی بار ان آنکھوں کو نم دیکھا، جن میں کبھی الم اترا تھا نہ ہراس۔ اچانک کٹورے پانی سے بھر گئے۔ کم ہمتی ہو نہیں سکتی تو پھر یہ کیا ہے۔ کوئی دن میں خبر آئی اور اس سوال کا جواب بھی۔ یہ وداع کے آنسو تھے۔ ہار جانے کے نہیں۔
پندرہ سو برس ہوتے ہیں۔ عرب شاعر نے کہا تھا ”دمِ وداع اس نے مجھے گلے سے چمٹا لیا، آنکھوں کے پیالے آنسوؤں سے بھرے ہوئے اور فقط یہ کہا : اب ملاقات کب ہو گی؟ کب ؟ “کبھی نہیں، کبھی نہیں، ستاروں سے بھرے اس نیلے آسمان تلے کبھی نہیں۔ نوابزادہ نصر اللہ خان کی تصویر ہنستی ہے۔ اسی کرارے لہجے میں۔ وہی شعر وہ پڑھتے ہیں
شام کو ٹھنڈی ہوا ان کے لئے چلتی ہے
جن کے محبوب بہت دور کہیں رہتے ہیں
”آپ بھی کیا ستم کرتے ہیں، دل سینے میں کانپ اٹھتا ہے“ تصویر نے جواب دیا ”کانپتا ہوا قلب پتھر سے تو بہرحال بہتر ہے“۔
بڑا ظلم کیا ہے سید فاروق گیلانی، آپ نے بڑا ظلم کیا ہے۔ محمد زبیر بہت دن بیمار رہا۔ نوابزادہ نصراللہ خان ،ان کی تو عمر ہو گئی تھی۔ شاہ جی آپ تو ابھی جوان جہان تھے۔ کیا کیا منصوبے آپ نے بنا رکھے تھے۔ اخبار، کالج، میرے ساتھ مل کر نواح اسلام آباد میں ایک نئے شہر کی تعمیر۔ ”شاہ جی سارے مکان اجلے سفید رنگ کے ہونے چاہئیں“ وہی ادھورا قہقہہ، وہی ادھوری بشاشت۔ فاروق گیلانی سب دوستوں کو آپ نے دھوکہ دیا، سب کو۔ نواسے نواسیوں کو، بیگم اور بیٹیوں کو، بوڑھی ماں کو۔ چند دن پہلے ہی بتا دیا ہوتا۔ اس ایک سوال کا جواب ہی دے دیا ہوتا: ہمہ وقت اتنا انہماک، اس قدر عرق ریزی کیسے ممکن ہو جاتی ہے؟ بے شمار موضوعات کا اس قدر ادراک، اتنی کتابیں، اتنے متنوع میدان اور اس پر ایسی اجلی زندگی، ایسی اجلی زندگی۔ شب کے آخری پہر یادوں کے ہجوم میں، تاریک سناٹے میں انیس احمد اعظمی کی آواز ابھرتی ہے
زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی
کیوں ترا راہ گزر یاد آیا
اس آواز کا درد۔ کئی برس بعد اچانک ایک دن استاد نے شاگرد سے پوچھا :اس نئی گلوکارہ ریشماں کی آواز میں کیا چیز مختلف ہے؟ عرض کیا: استاد گرامی ظاہر ہے کہ سوز۔ فرمایا: نہیں زندگی، اس لئے کہ درد ہی زندگی ہے۔
دل گیا رونق حیات گئی
غم گیا ساری کائنات گئی
ریڈ انڈین سردار نے امریکی صدر کے نام اپنے خط میں لکھا ” جنگل کٹے اور پرندے چلے گئے۔ زندگی ختم ہوئی اب تو محض جینا ہے۔ تمہارے شہروں کا شور انسانی سماعت کی توہین ہے۔ چہرے اگر تازہ ہوا کا لمس محسوس نہ کریں تو آدمی زندہ ہی کیوں رہے۔ “
اسلام آباد شہر سے گاڑی نکلتی اور پہاڑوں کے درمیان سے گزرتی ہوئی مرغزاروں میں داخل ہو جاتی۔ حسن کو سادگی میں پُرکاری اور میدانوں میں ناہمواری کی ضرورت ہوتی ہے۔ راولپنڈی اور کوہ مری کے درمیان شاید یہ پاکستانی میدانوں کا خوبصورت ترین حصہ ہے۔ ایک حسین ندی کے کنارے وہ ایک چھوٹا سا ریستوران، دامن کوہ میں ندی کے پار کھیت، گویا کسی آسمانی مصور کے مشورے سے تراشے گئے، حتیٰ کہ شام پہاڑوں سے اترنے لگتی۔
یہ موسم گرما کا آغاز تھا ” شاہ جی اسلام آباد کلب سے بیس منٹ کی مسافت پر شاہدرہ کی حسین و جمیل وادی میں مٹی کے اونچے پہاڑ پر جگہ میں نے چن لی ہے۔ طارق پیرزادہ، آپ کے ہم جماعت ڈاکٹر شعیب سڈل اور دوسرے دوستوں کو میں آمادہ کر لوں گا۔ بہتے پانیوں اور سبز کوہساروں کے درمیان گھر اب وہیں بنائیں گے۔ چھوڑیئے اسلام آباد کے اس خرابے کو“۔ وہی ادھورا قہقہہ، وہی پوری بشاشت۔ ”ڈاکٹر شعیب سڈل تو کبھی نہ مانیں گے“ … ”ان کے تو فرشتے بھی مانیں گے“ ایک اور قہقہہ۔
”سیف # اپنی قبر کے سوا ، تھوڑا تھوڑا ان سب دوستوں کے ساتھ دفن ہو چکا جو اس سے پہلے چلے گئے“۔ کہاں چلے گئے؟ کیوں چلے گئے؟ یا رب وہ کیوں چلے گئے؟
تازہ ترین