اسلام آباد(نمائندہ جنگ)چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثارنے کہاہے کہ کوئی کچھ بھی کہے، پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے اورہم پارلیمنٹ کی بہت عزت کرتےہیں،یہاں پر بیٹھ کرآنکھیں کھلی رکھنا پڑتی ہیں، سیاسی اقربا پروری کا خاتمہ کرینگے،ادارے اپنا کام نہیں کرینگے توہم کرینگے، لیکن پھرہم سے اختیارات سے تجاوزکرنے کاشکوہ نہ کیا جائے، عدالت نے چیئرمین متروکہ وقف املاک کی عدم حاضری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ سماعت پر ہم صدیق الفاروق کی تقرری سے متعلق قانونی نکتے پر پیرا گراف لکھوائیں گے ، اداروں کو اس طرح چلنے نہیں دیں گے،چیف جسٹس نے بول ٹیلی ویژن نیٹ ورک کے مالک شعیب شیخ کی کمپنی ایگزیکٹ کی جانب سے جعلی ڈگریا ں فروخت کرنے کا عالمی اسکینڈل دوبارہ سامنے آنے اور کراچی میں رہائش پذیر جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نقیب اللہ محسودکے ماورائے عدالت قتل سے متعلق نشر ہونے والی قومی میڈیا کی خبروں پرازخود نوٹس لیتے ہوئے رپورٹس طلب کرلیں۔ایگزیٹ جعلی ڈگری اسکینڈل کیس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جعلی ڈگریوں کے اسکینڈل نے سر شرم سے جھکا دیئے، ڈی جی ایف آئی اےجعلی ڈگری سے متعلق مہم کاپتہ چلائیں، پاکستان کو بدنام کرنیوالا بچ نہیں سکےگا،چیف جسٹس نے نقیب اللہ کے قتل پرآئی جی سندھ سے7روز میں رپورٹ طلب کرلی۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے جمعہ کے روزچکوال میں واقع ہندوئوں کے مقدس مقام اور تفریحی مرکزکٹاس راج کے تاریخی تالاب میں پانی کی سطح خطرناک حد تک کم ہو جانے سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کی ،عدالت عظمیٰ نےچیئرمین متروکہ وقف املاک بورڈ سے بورڈ کی جائیدادوں کے کرائے سے ہونے والی آمدن کی تفصیلات اورپاکستان میں رہائش پذیر ہندو برادری کے مسائل پر تحریری نکات طلب کر لئے جبکہ کٹاس میں واقع چار سیمنٹ فیکٹریوں کی انتظامیہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 15 روز کیلئے ملتوی کر دی۔ اس موقع پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ چکوال سے سارا لائم اسٹون بھارت بھیجا جا رہا ہے لیکن دوسری جانب کٹاس راج مندر میں شری ہنومان کی مورتیاں تک نہیں رکھی گئی ہیں، اقلیتوں کا تحفظ ہمارے دین کاحصہ ہے، کٹا س میں واقع سیمنٹ فیکٹریاں بند کرکے سیمنٹ کے سیکٹر میں بحرانی صورتحال پیدا نہیں کرنا چاہتے۔سماعت کے دوران مسلم لیگ (ن) کے اقلیتی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار پیش ہوئے اور عدالت سے استدعا کی کہ متروکہ وقف املاک بورڈ کا چیئرمین اقلیتی کمیونٹی سے ہونا چاہئے،جس پرچیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا ہم پارلیمنٹ کو ایسا کرنے کی ہدایت دے سکتے ہیں؟ کوئی کچھ بھی کہے،پارلیمنٹ سپریم ہےاور ہم پارلیمنٹ کی بہت عزت کرتے ہیں، عدالت کے نوٹس کے باوجود چیئرمین متروکہ وقف املاک بورڈ، صدیق الفاروق حاضر نہ ہوئے جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کیوں نہ صدیق الفاروق کو اس عہدہ سے ہی ہٹا کر بورڈ کوٹیک اوور کرلیا جائے ، صدیق الفاروق کوہر پیشی پر حاضری کا کہا تھا لیکن وہ کیوں نہیں آئے، کہیں میرے ہاتھوں چیئرمین کو کچھ ہو نہ جائے، خدا کا واسطہ ہے متروکہ وقف املاک نقصان نہ کرے کیوں نا عدالت متروکہ وقف املاک کا انتظام سنبھال لے۔ انہوںنے ریمارکس دیئے کہ مال روڈ لاہور میں متروکہ وقف املاک بورڈ کی جانب سے اونے پونے کرایہ پردی گئی جائیدادیں ،کرایہ داروں نے آگے مہنگے کرایوں پر دے رکھی ہیں، متروکہ وقف املاک بورڈ کی جائیدادوں اور آمدن کی تفصیلات نہ عدالت میں پیش نہیں کی جاسکتیں تو صدیق الفاروق کوچلے جانا چاہیے، ہمیںیہاں بیٹھ کر آنکھیں کھلی رکھنی پڑتی ہیں، سیاسی اقربا پروری کا خاتمہ کرینگے۔ انہوںنے کہا کہ صدیق الفاروق کی ساری اہلیت اپنی پارٹی کی 30 سالہ سیاسی خدمات ہیں، پارٹی سیکرٹریٹ میں اخبارات اکٹھے کرنے والے کو ملک کے اس اہم ترین عہدے پر لگا دیا گیا ہے ، اس عہدہ پربیٹھے شخص کوقانونی چیزیں بھی دیکھنا ہوتی ہیں، آئندہ سماعت پر ہم صدیق الفاروق کی تقرری سے متعلق قانونی نکتے پر پیرا گراف لکھوائیں گے۔ انہوںنے کہا کہ اداروں کو اس طرح چلنے نہیں دینگے، جہاں ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرینگے ،ہم کرینگے، پھر دائرہ اختیار سے تجاوز کا شکوہ نہ کیا جائے۔ انہوںنے کہا کہ کٹاس راج مندر کا تالاب اب ہمیشہ بھرا رہنا چاہیے،جس پر ڈاکٹر رمیش کمار نے کہا کہ تالاب کو قدرتی چشموں کے پانی سے نہیںبلکہ ٹیوب ویل سے پانی ڈال کر مصنوعی طریقے سے بھرا گیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اسٹڈی کروالیں چشمہ کیوں سوکھا ہے؟ اگر اللہ کی ناراضگی سے چشمہ سوکھا ہو توپھر انسانی عمل دخل نہیں ہو سکتا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم پر الزام لگ رہا ہے کہ عوامی مفاد کے مقدمات میں معمول کے مقدمات کو بھول گئے ہیں، لیکن میں یہ الزام ماننے کیلئے تیار نہیں اور اسی بناء پر ہم اتوار کو بھی بیٹھتے ہیں تاکہ عام مقدمات متاثرنہ ہوں۔ انہوںنے کہا کہ اتوار کو عدالت لگانے پر کراچی میں میری بہت مخالفت ہوئی ،عدالتی کام کیلئے اتوار کو بھی عدالت لگا رہے ہیں، بھینسوں کو لگانے والے ٹیکوں پر پابندی لگائی ہے تو گجر برادری مخالف ہوگئی ہے، کہتے ہیں کہ ہمارے دودھ کی پیداوار کم نہ ہو چاہے ، کینسر والا دودھ ہی لوگوں کو ملے،عدالت شہریوں کی صحت کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کریگی، جس نے ہڑتال کرنی ہے کرلے۔ انہوں نے کہا کہ کٹا س میں واقع سیمنٹ فیکٹریاں بند کرکے سیمنٹ کے سیکٹر میں بحرانی صورتحال پیدا نہیں کرنا چاہتے، کیونکہ اس وقت ملک میں سی پیک کے اقتصادی راہداری منصوبے سمیت دیگرترقیاتی منصوبے چل رہے ہیں اورآئندہ دنوں میں ملک کو سیمنٹ کی شدیدضرورت ہوگی۔ بعد ازاں عدالت نے مذکورہ بالا حکم جاری کرتے ہوئے سماعت 15 روز کیلئے ملتوی کر دی۔علاوہ ازیںچیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بول ٹیلی ویژن نیٹ ورک کے مالک شعیب شیخ کی کمپنی ایگزیکٹ کی جانب سے جعلی ڈگریا ں فروخت کرنے کا عالمی اسکینڈل دوبارہ سامنے آنے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے سے 10 روز کے اندر مفصل رپورٹ طلب کر لی ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے جمعہ کے روز ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران ایگزیکٹ جعلی ڈگری اسکینڈل کے حوالے سے قومی اور بین الاقوامی میڈیا پر آنے والی خبروں پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ پاکستان کی بدنامی کرنے والا کوئی شخص بھی بچ نہیں سکے گا، اس اسکینڈل سے ہمارے سر شرم سے جھک گئے ہیں، ڈی جی ایف آئی اے جعلی ڈگری سے متعلق مہم کا پتہ چلائیں، اگر یہ خبریں سچی ہیں تو اس اسکینڈل کا تدارک کیا جانا چاہیے اوراگر جھوٹی ہیں تو پاکستان اپنا دفاع کرے۔ انہوں نے کہا کہ ایگزیکٹ کی مبینہ جعلی ڈگریوں سے متعلق اسکینڈل کی خبریں ملکی و بین الاقوامی میڈیا میں آرہی ہیں، جس سے عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی ہو رہی ہے، غالباً یہ معاملہ پہلے بھی منظرعام پر آیا تھا اوراسکے حوالے سے مقدمات نچلی عدالتوں میں زیرالتوا بھی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر جعلی ڈگریوں کا اسکینڈل حقیقت پر مبنی ہے تو پھر ذمہ داروں کو ضرور سزا ملے گی اور اگر یہ خبر غلط ہے تو بطور پاکستانی ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس حوالے سے بھی کارروائی کی جائے کیونکہ اس خبر سے ملک کو عالمی برادری میں بدنام کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ متعدد جعلی ڈگریوں کے مقدمات اب بھی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، تعلیم اور صحت دو ایسے شعبے ہیں جہاں پر کوتاہی یا جعل سازی کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ بعد ازاں فاضل چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے سے 10 روز کے اندر مفصل رپورٹ طلب کرلی اور جعلی ڈگریوں کے بارے میں جتنے بھی مقدمات عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں، انکی تفتیش کے بارے میں بھی تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔واضح رہے کہ 2016میں ایگزیکٹ کی جعلی ڈگریوں کے بارے میں ایک امریکی اخبار میں خبر یںشائع ہونے کے بعد قومی میڈیا پر بھی خبریں آنے کے بعد اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی ہدایت پر ایف آئی اے حکام نے اس کمپنی کے سربراہ شعیب شیخ اوردیگر ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے بعد انہیں گرفتار کرلیا تھا،تاہم بعد میںایڈ یشنل اینڈ سیشن جج اسلام آباد ، پرویز القادر میمن کی عدالت نے ملزم شعیب شیخ وغیرہ کو بری کردیا تھا،جس کے کچھ عرصہ بعد میڈیا پرانکشاف ہوا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ایڈ یشنل اینڈ سیشن جج اسلام آباد ، پرویز القادر میمن کو مببینہ طور پر کروڑوں روپے لیکر ملزم شعیب شیخ وغیرہ کواس مقدمہ سے بری کرنے کی پاداش میںان کے عہدے سے ہٹا دیا اور ان کے خلاف تحقیقات شروع کر دی ہیں تاہم اس کے بعد سے آج تک ان تحقیقات میںہونے والی کوئی بھی پیشرفت رپورٹ سامنے نہیں آئی ہے ، بول نیوز نیٹ ورک ٹیلی ویژن چینل بھی ملزم شعیب شیخ کی ملکیت ہے،جس کے ڈائریکٹروں کی مختلف خفیہ اداروں سےسکیورٹی کلیرنس نہ ہونے سے متعلق معاملہ بھی عدالت میں زیر التواء ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ بی بی سی نے چند روز پہلے برطانیہ میں ایگزیکٹ کی جانب سے دنیا بھر میں جعلی ڈگریاں فروخت کرنے سے متعلق اسکینڈل سے متعلق خبر دی تھی، رپورٹ میں ہزاروں برطانوی شہریوں کے ڈگری فراڈ کا نشانہ بننے کے انکشاف کے بعد وہاں پر بھی کھلبلی مچ گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں ایگزیکٹ کی جعلی ڈگریاں لینے والوں میں ڈاکٹرز، نرسیں اور محکمہ دفاع کے کنٹریکٹرز بھی شامل تھے۔ دوسری جانب خلیجی اخبار نے بھی اپنی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا تھا کہ ایگزیکٹ ایجنٹس نے خود کو اماراتی عہدیدار ظاہر کر کے ڈگریوں کی دھڑا دھڑ فروخت کی ہے ،اس کیلئے کمپنی کے نمائندے کالر آئی ڈی سافٹ ویئر استعمال کرتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کراچی میں رہائش پذیر جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نقیب اللہ محسودکے ماورائے عدالت قتل سے متعلق نشر ہونے والی قومی میڈیا کی خبروں پرازخود نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سندھ سے 7 روز کے اندر حقائق پر مبنی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ سپریم کورٹ کے ترجمان شاہد حسین کمبوئیو کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز میں بیان کیا گیا ہے کہ میڈیا رپورٹوں کے مطابق نقیب اللہ محسود 2008سے کراچی میں رہائش پذیر تھا اور وہ ماڈل بننا چاہتا تھا،جسے 2جنوری 2018کو حراست میں لیا گیا اور 17جنوری کو پولیس مقابلہ ظاہر کرکے قتل کردیا گیا۔یاد رہے کہ ایس ایس پی ملیر رائوانوار کی سربراہی میں پولیس پارٹی کے ہاتھوں کراچی کے علاقہ شاہ لطیف ٹائون میں مبینہ پولیس مقابلے کے دوران پاکستان تحریک طالبان اور کالعدم لشکر جھنگوی سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعوی کیا گیا تھا، جن میں مبینہ مقتول نقیب اللہ محسود بھی شامل تھا، تاہم پولیس کے اس دعویٰ کے جواب میں مقتول کے رشتے داروں اور دوستوں نے رائو انوار پر جعلی پولیس مقابلے کا الزام عائد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ مقتول کاروبار کے سلسلے میں کراچی میں رہائش پذیر تھا اور اسکی الآصف اسکوائر پر کپڑے کی دکان تھی ، وہ کسی قسم کی غیر قانونی سرگرمیوںمیں ملوث نہیں تھا،جس پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین، بلاول بھٹو زرداری نے صوبائی وزیرداخلہ انور سیال کو مبینہ پولیس مقابلے کی انکوائری کرنے کا حکم جاری کیاتھا۔