کراچی (نیوز ڈیسک) بھارت میں مارکسی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی ایم) کے جنرل سیکریٹری سیتا رام یچوری اور نیشنل کانگریس پارٹی (این سی پی) کے رہنما طارق انور نے کہا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں بھارتی چیف جسٹس دیپک مشرا کیخلاف پارلیمنٹ میں مواخذے کی تحریک لانے پر غور کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہی وہ طریقہ ہے جس کے تحت پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے چار سینئر ججوں کی جانب سے عائد کیے جانے والے ’’ سنگین معاملا ت‘‘ کی انکوائری کو یقینی بنا سکتی ہے۔ 12؍ جنوری کو سپریم کورٹ کے چار ججوں جستی چیلمیشور، رنجن گوگوئی، مدن بی لوکوُر اور کوریان جوزف نے حیران کن انداز سے عوامی سطح پر اپنی شکایات کا اظہار کیا اور ان ججوں کو سماعت کیلئے مقدمات دینے کے معاملے میں چیف جسٹس انڈیا دیپک مشرا کے رویے پر سوالات اٹھائے تھے لیکن اب تک ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ بھارتی سپریم کورٹ میں پائے جانے والے اس ڈیڈلاک کے حل کیلئے کوئی اقدامات کیے گئے ہوں۔ وزیراعظم نریندر مودی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ حکومت اور سیاسی جماعتیں اس معاملے سے دور رہیں کیونکہ عدلیہ اپنے مسائل خود حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ تاہم، سیتارام یچوری نے بھارتی اخبار انڈین ایکسپر یس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سیکولر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مشاورت کا سلسلہ جاری ہے تاکہ چیف جسٹس انڈیا دیپک مشرا کیخلاف مواخذے کی تحریک لائی جا سکے۔ این سی پی کے رہنما طارق انور نے بھی یچوری کی تائید کی۔ جس وقت بھارتی سینیٹ (راجیہ سبھا) میں اپوزیشن لیڈر غلام نبی آزاد کہہ رہے تھے کہ وہ ایسے کسی بھی اقدام سے بے خبر ہیں اسی وقت کانگریس کے کے سینئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس رواں ہفتے کے اختتام پر اجلاس ہوگا تاکہ اس معاملے پر بحث و مباحثہ کیا جا سکے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کانگریس نے ابھی تک اس معاملے پر حتمی موقف اختیار نہیں کیا۔ یچوری کہتے ہیں کہ ہم مواخذے پر غور کر رہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ دو ہفتے گزر چکے ہیں اور سینئر ججوں نے کچھ اہم مسائل کی نشاندہی کی ہے۔ ہمیں امید تھی کہ معاملہ عدلیہ کے اندر ہی حل ہو جائے گا، کم از کم سی پی ایم کی حد تک ہم اس موقف پر قائم ہیں کہ عدلیہ کی آزادی اور ساکھ پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو سکتا، ان کی بالادستی قائم رہنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت کے تینوں ستونوں، عدلیہ، پارلیمنٹ اور ایگزیکٹو، کو اس اہم مسئلے کے حل کیلئے آگے آنا چاہئے۔ پارلیمنٹ کے پاس ایسا کرنے کا راستہ موجود ہے اور ایسا مواخذے کی تحریک لا کر کیا جا سکتا ہے۔ 29؍ جنوری کو جب پارلیمنٹ کا اجلاس ہوگا تو اس وقت تک ہم حتمی فیصلہ کر چکے ہوں گے۔ یاد رہے کہ ججز انکوائری ایکٹ 1968ء کے تحت کسی بھی جج کیخلاف شکایت سامنے آنے پر لوک سبھا کے 100؍ یا راجیہ سبھا کے 50؍ ارکان تحریک پیش کرتے ہیں۔ ارکان کی جانب سے تحریک پیش کیے جانے کے بعد، پرزائیڈنگ افسر تین رکنی کمیٹی تشکیل دیتا ہے جس میں دو ججز ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک جج سپریم کورٹ سے تعلق رکھتا ہے اور اگر شکایت ہائی کورٹ کے جج کیخلاف ہو تو دوسرا جج ہائی کورٹ کا چیف جسٹس ہوتا ہے۔ اور اگر شکایت سپریم کورٹ کے جج کیخلاف ہو تو دونوں جج سپریم کورٹ کے ہوتے ہیں۔ تیسرا رکن ماہر قانون ہوتا ہے جو شکایت کے حوالے سے مکمل تحقیقات کرتا ہے اور اس بات کا تعین کرتا ہے کہ معاملہ مواخذہ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے یا نہیں۔