• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مائنس ون فارمولا کیا ہے؟ حماد غزنوی

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سب سے معروف فارمولا "Minus one formula" کہیں نظر نہیں آئے گا۔ گوگل کی اس بے خبری کا ماتم کرنے کے بجائے مائنس ون نامی اس انتہائی مقامی فارمولے کو ٹٹولنا چاہئے تاکہ اس کا حدود اربع دریافت کیا جا سکے۔
سادہ لفظوں میں اس فارمو لے کا مطلب ہے کہ جو شخص آپ کی جماعت کا روح رواں ہے، آپ کا سب سے اعلیٰ آدمی ہے اور عوام میں سب سے زیادہ مقبول ہے وہ ہمیں قبول نہیں ہے لہٰذا آپ اگر اُسے جماعت سے مائنس کر دیں تو ہمیں آپ کی جماعت قبول ہے۔
یہ کیا بوالعجبی ہے!
یعنی انہیں جسم قبول ہے روح قبول نہیں، پاکستان قبول ہے قائداعظم قبول نہیں!
مائنس ون کی اصطلاح غالباً پہلی مرتبہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت (1988-1990) کے دوران سننے میں آئی مگر درحقیقت یہ فارمولا لگ بھگ پاکستان کا ہم عمر ہے۔
قائداعظم کا آخری سفر جس خستہ حال ایمبولینس میں ہوا وہ قضیہ تو چھوڑیئے، پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان سے شروع کر لیتے ہیں۔ کیا وہ قائد اعظم کے سب سے معتمد ساتھی اور عوام میں سب سے مقبول رہنما نہیں تھے؟ بالکل تھے، اور انہیں اپنی اس حیثیت کا اندازہ بھی تھا، یعنی ان میں وہ سب کوائف موجود تھے جو ’’مائنس ون‘‘ کے امیدوار میں ہونے چاہئیں۔ لہٰذا16 اکتوبر 1951کے دن ہزاروں آنکھوں کے سامنے انہیں مائنس ون کر دیا گیا۔ ہم نے اپنے اعلیٰ آدمی کو قتل کرنے کا رواج یہیں سے آغاز کیا۔ لیاقت علی خان کے قتل سے وہ تمام اثرات ہماری قومی زندگی پہ مرتب ہوئے جو اپنے اعلیٰ آدمی کو غیرفطری طریقے سے منظر سے ہٹانے سے ہوتے ہیں، یعنی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ کمزور ہوئی، فیڈریشن کمزور ہوئی اور 1958تک چھ ’’شوکت عزیز‘‘ مل کر بھی لیاقت علی خان کا خلا پر نہ کر سکے۔
آگے چلئے۔ قائداعظم کے بعد پاکستان کے عوام کے لئے سب سے محترم اور مقبول شخصیت مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح تھیں۔ قائد اعظم کی وفات کے فوراً بعد ہی مادر ملت کو قومی زندگی سے علیحدہ کر دیا گیا او ر انہیں عوام سے دور رکھنے کی مسلسل کوشش کی گئی، یعنی ارباب بست و کشاد نے انہیں ’’نا اہل‘‘ قرار دے دیا۔ لیکن مادر ملت آخری سانس تک باز نہ آئیں اور نتیجتاً 9جولائی 1967کو ’’حرکت قلب‘‘ بند ہو جانے سے ان کے انتقال کے بعد ان کے جسد خاکی کو غسل دینے والے کلو غسّال نے بتایا کہ محترمہ فاطمہ جناح کے جسم پر تشدد کے نشانات تھے جن سے خون رس رہا تھا اور ان کا لباس لہو میں تر تھا۔ یعنی سادہ لفظوں میں انہیں ’’مائنس ون‘‘ کر دیا گیا تھا۔ مدعی تھا، شہاد ت تھی، لیکن حساب پاک ہوا۔
اس کے بعد دو سیاست دان ملک میں مقبول ٹھہرے، مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان اور 1970کے انتخابات نے یہ ثابت کر دیا کہ دونوں ’’مائنس ون‘‘ کے بہترین امیدوار تھے۔ مجیب کو مائنس کرنے میں اندیشہ تھا کہ اس کے ساتھ آدھا ملک بھی مائنس ہو جائے گا، مگر یہ کڑوا گھونٹ بھی بھر لیا گیا اور مجیب اور اس کی مقبولیت سے جان چھڑا لی گئی، ہرچند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے۔
اس کے بعد بھٹو صاحب کی باری تھی۔ وہ اپنے دور اقتدار کی متعدد غلطیوں کے باوجود بھی ملک کے مقبول ترین عوامی رہنما رہے، لہٰذا آخرکار انہیں ایک عدالتی فیصلے کے ذریعے ’’مائنس ون‘‘ کر دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل آج تک قوم کی اجتماعی نفسیات میں رڑکتا ہے۔ بھٹو خاندان کی خون میں لتھڑی ہوئی تاریخ بھی بے نظیر بھٹو کو جمہوریت کے سفر سے نہ ر وک سکی اور وہ عمر بھر زندانوں اور جلاوطنیوں کے خارزاروں میں سرگرداں رہیں، مگر باز نہ آئیں۔ ان کی ناقابل رشک حکومتیں بھی انہیں عوام میں غیرمقبول نہ کر سکیں، لہٰذا بے نظیر بھٹو کا بھی فقط ایک ہی علاج تھا کہ انہیں مائنس ون کر دیا جائے، سو کر دیا گیا، اللہ اللہ خیر سلا۔
اس فارمولے کا اگلا شکار نواز شریف ہی کو ہونا چاہئے تھا، یہ ان کا حق تھا، سو حق بہ حق دار رسید۔ انہیں بھی جیل اور جلا وطنی کا مزا چکھایا گیا لیکن وہ باز نہیں آ رہے اور طرفہ ستم یہ کہ مائنس ون والے بھی باز نہیں آ رہے۔ ’’نہ تم باز آئو نہ ہم باز آئیں‘‘ کا یہ کھیل کیا گل کھلائے گا؟ اس دو طرفہ ضد کا کیا انجام ہو گا؟
آج ہماری قومی زندگی بھی لگ بھگ ایسا ہی منظر پیش کر رہی ہے۔ اب یہ فیصلہ آپ خود کیجئے کہ ان دونوں میں زیادہ ڈھیٹ کون ہے۔

تازہ ترین