• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سواتی طالبان کے عروج کی یاد رکھنے والے افراد صوفی محمد کو جیل سے رہائی پانے کے بعد سیدھا ٹی وی اسکرینز پر دیکھ کر ششدر رہ گئے ہوں گے ۔ وہ ایک تائب شخص کی طرح اپنے سابق نظریاتی بچوں سے مخاطب ہوئے۔ان بچوں میں اُن کا بدنام ِزمانہ داماد،فضل اﷲ بھی شامل ہے جو آج کل افغانستان میں روپوش ہے ۔ صوفی محمد وہ شخص ہیں جو دیر اور مالا کنڈ میں نفاذ شریعت کی نام نہاد تحریک کےروح ِرواں تھے ۔ اس تحریک کی وجہ سے بہت سی اموات ہوئیں اور افراتفری پھیلی۔ وہ ٹریفک کو دائیں ہاتھ چلانے (کیونکہ اُس کے نزدیک بائیاں ہاتھ ناپاک ہوتا ہے )جیسی چھوٹی سی خواہش سے لے کر جمہوری نظام کی تطہیر کرتے ہوئے اسے خلافت میں ڈھالنے کا عزم رکھتےتھے۔ کئی سال بعد ویسی ہی خلافت عراق اور شام میں البغدادی نے قائم کردکھائی۔ ہمارے ہاں ایک انچ کی کسر رہ گئی تھی۔
ڈگمگاتی ہوئی ریاستی عملداری سے شہ پاتے ہوئے صوفی محمد نے افغان جنگ میں دل کھول کر حصہ ڈالا اور ایک بڑی تعداد میں نوجوانوں کو کلہاڑیاں اور تلواریںاور ڈنڈے دے کر کفار سے لڑنے کے لئے بھیج دیا۔جدید فوج کے مقابلے میں لڑنے والے ان نہتے نوجوانوں کی اموات نے صوفی کے شوق شہادت پر پانی پھیر دیا اور وہ واپس پاکستان سدھارے۔ یہاںوہ سواتی طالبان کے سرپرست بن گئے۔ صوفی محمد اُن کے نظریاتی رہنما تھے، جبکہ طالبان کے جنگجو بازو کی قیادت فضل اﷲ کے ہاتھ میں تھی ۔ باقی تاریخ ہے ۔
لیکن ٹھہریں، تاریخ آگے بڑھتی ہے ۔ اب لاتعداد بے گناہ جانوں کو ہلاکت میں ڈالنے اور قیمتی وسائل کی تباہی کا باعث بننے وال چند کلمات بول کر تائب اور ایک محب وطن پاکستانی بن چکا ہے ۔ اُن کی زبان فوج کی تعریف سے تر ہے ۔ صرف یہی نہیں، وہ طالبان کی مذمت بھی کررہےہیں۔ تو کیاہم مکمل طور پر فراموش کرچکے ہیں کہ وہ کس چیز کی علامت تھے؟ ہمیں شاید یاد نہیں کہ اُن کے جتھوں نے کس طرح پاکستانی سرزمین کو ٹیک اوور کرنے کی ایک غیر معمولی کوشش کی تھی؟ ہماری یادداشت سے محو ہوچکا ہے کہ کس طرح برس ہا برس کے تجاہل ِ عارفانہ کے بعد ریاست نے پوری طاقت سے کارروائی کرتے ہوئے اُن سے کھوئی ہوئی سرزمین واپس حاصل کی تھی۔
مالا کنڈ میں ابھرنے والی شورش ، جس کے ساتھ بعد میں باجوڑ، مہمند، جنوبی وزیرستان اور فاٹا کی دیگر ایجنسیوں میں بپا ہونے والی شورش بھی شامل ہوگئی ، ہماری قومی زندگی کا ایک شرمناک باب اوراہم ترین لمحہ تھی۔یہ حقیقت انتہائی شرمناک تھی کہ ریاست نے دیر اور سوات جیسے علاقوں کو اپنے ہاتھ سے نکلنے دیا اور معصوم شہریوں کو وحشی قاتلوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔ اہم ترین واقعہ یہ کہ ریاست نے پوری طاقت سے ایک کامیاب آپریشن کیا اور انسداد دہشت گردی کے خلاف بے مثال دلیری کی تاریخ رقم کی ۔ آپریشن کے دوران لاکھوں بے گھر ہونے والے افراد کی دیگر علاقوں میں کئی ہفتوں تک میزبانی اورپھر محفوظ گھروں کو واپسی بھی ایک اہم کارنامہ تھی۔
مالاکنڈ صوفی محمد اور اُن کے داماد کی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔کیے گئے ان گنت دوروں کے دوران مجھے علاقے میں تعینات افسران نے بتایا کہ شورش پسندوں کے پاس ایسے جدید ہتھیار اور پلاننگ کے نقشے موجود ہیں جو صرف ا ن کی پشت پناہی کرنے والی بیرونی قوتیں ہی فراہم کرسکتی ہیں۔ میںنے اپنی آنکھوں سے ان گلیوں میں ہونے والی جنگ اور قتل و غارت دیکھی ہے ۔ میرے ساتھیوں میں سے ایک (جو ابھی بھی میری ٹیم کا حصہ ہے)، رضا آغا کو فضل اﷲ کے ٹھکانے کے قریب پھٹنے والے ایک بم کا کنکر لگا۔ خوش قسمتی سے اُن کی جان بچ گئی لیکن ایک بازوہمیشہ کے لئے ناکارہ ہوگیا ۔
ہم نے اپنی آنکھوںسے ’’خونی چوک ‘‘ میں لاشیں لٹکتی دیکھیں۔ طالبان کسی کو قریب جانے اور دفن کرنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے ۔وہ خوف اوردہشت میں ڈوبی ہوئی امارت قائم کرنا چاہتے تھے ۔ ۔۔ اور اُس وقت تک اُنہیں بڑی کامیابی مل چکی تھی۔ ہم نے سواتی طالبان کے ہاتھوں قتل ہونے والی لڑکیوں کے رشتے داروں سے انٹرویو لئے ۔ طالبان نے اُنہیں اس لئے مارا کیا تھا کیونکہ وہ اُن کے نزدیک ’’بد کردار ‘‘ تھیں۔ ہم نے سینکڑوںا سکول کو بنددیکھا ، یا پھر اُنہیں دھماکہ خیز مواد سے تباہ کردیا گیا تھا۔ ا س کی وجہ صوفی محمد کے فتوی تھے ۔اُن کے فتوے طالبان کو شہہ دے رہے تھے کہ جدید تعلیم اور تہذیب کو اس سرزمین سے مٹا کررکھ دیا جائے ۔
ہم نے سوات کے شاہی خاندان کو مصائب کا شکار دیکھا۔ اُنھوں نے اپنی دہلیز پرد ستک دینے والی تباہی سے بچنے کی کوشش کی۔ کبھی اُن کا دور بر ِ صغیر میں اچھی گورننس کی ایک مثال تھا ۔ ہم نے افضل خان لالہ کی جرات بھی دیکھی ۔ وہ طالبان کے سامنے سینہ تانے کھڑے تھے ۔ طالبان قاتلوں کے جتھے حملہ آور ہورہے تھے لیکن وہ اپنے آبائی گھر میں چند ایک ساتھیوںکے ہمراہ ڈٹے ہوئے تھے ۔ مالا کنڈ میں ابھرنے والی خوف اور دہشت کی لہر اُس وقت واپس ہوئی جب اس کے خلاف قومی سطح پر جنگ شرو ع کی گئی ۔ اس کے لئے فورسز نے وادیوں، گلیوںاور چوٹیوں میں رات دن جنگ کی ۔
مالا کنڈ کی فتح پاکستان کے شمال مغربی علاقوںسے طالبان کی طاقت کے خاتمے کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ۔ اس جنگ میں آزمائی گئی جنگی حکمت عملی اور پلاننگ ملک کے دیگر حصوں میں انتہا پسندوںکے خلاف کیے جانے والے آپریشنز کے لئے ایک معیاری پیمانہ ثابت ہوئی ۔ سوات کا ڈرائونا خواب اور یہاں کے شہریوں کی ناقابل ِ بیان اذیت ہمارے قومی عزم کا فیصلہ کن موڑ تھی کہ ہم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یہ فیصلہ کرلیںکہ اس اسلامی جمہوریہ میں کس کا حکم چلے گا۔یہ آنے والے برسوں میں انتہا پسندی کے خلاف بنائی جانے والی تزویراتی پلاننگ کی بنیاد بن گئی ۔ ریاست ِ پاکستان نے سوات آپریشن کوعالمی سطح پر ایک مثال کے طور پر پیش کیا کہ ایک ریاست جنگجوئوںکے خلاف کس طرح کامیاب آپریشن کرتے ہوئے جنگ جیت سکتی ہے ۔ یہ بات اس لئے بھی غیرمعمولی تھی کیونکہ امریکہ کی طرف سے کی گئی کئی ایک آفرز کے باوجود ہماری فوجی کمان نے آپریشن کرنے کے لئے کوئی غیر ملکی معاونت قبول نہ کی ۔ چنانچہ مالا کنڈاور سوات آپریشن خالصتاً پاکستانی کامیابی تھا۔ اور ہمیں اس پر ناز ہے ۔ لیکن ہم اپنا سنورا کام بگاڑنے اور اپنا دامن داغدار کرنے کی بھی مہارت رکھتے ہیں۔ اور ہم نے متعدد با ر اس مہارت کا اظہار کیا ہے ۔ سوات آپریشن کے بعد ہونے والی بحث کا موضوع یہ تھا کہ ریاست کیسے اقدامات اٹھائے کہ آئندہ ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہو اور شکوک و شہبات کا شکار آبادی کو یقین دہانی کرائی جاسکے۔
اس بحث کا سب سے اہم پہلو ریاست کے خلاف بغاوت کرنے اور دشمن کے آلہ کار بن کر اپنے ملک کے خلاف جنگ کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنا تھا ۔جن افراد کو یہ یقین کرنے پر مجبور کیا گیا تھا ، یا جن کی برین واشنگ کی گئی تھی کہ تحریک نفاذ شریعت اورسواتی طالبان کے جنگی نظریات دراصل ایک مقدس جنگ ہے اور وہ اسلام کی عظمت کی خاطر لڑرہے ہیں، اُن کے نظریات کا تدارک ضروری تھا۔ ریاست نے اپنے شہریوں کو بتاناتھا کہ یہ غلطی دوبارہ نہ ہو۔ یہ بات اہم تھی ۔ تحریک طالبان پاکستان کی طرح سوات کے طالبان کو بھی سرا ٹھانے کا موقع اس لئے ملا تھا کیونکہ ریاست بروقت فیصلہ کن قدم اٹھانے میں ناکام رہی تھی ، نیز اس نے ایسے گروہوں کو کچھ احمقانہ مقامی منصوبوں کے لئے پروان چڑھایا تھا۔ اس پس منظرکی علامتی اہمیت کو دیکھتے ہوئے صوفی محمد کی واپسی کو ایک بدقسمتی ہی کہا جاسکتا ہے ۔اس نے یہ بات واضح کردی ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں شہری انتہا پسندی کاشکار بن گئے لیکن انتہا پسندوں کے خلاف کامیابیاں حاصل کرنے والی ریاست ابھی بھی صوفی جیسے افراد کی جگہ رکھتی ہے ۔ اس سے پہلے تائب ہونے والا احسان اﷲ احسان ایک اچھے مسلمان کے طور پر سندیافتہ ٹھہرا۔ درجنوں ایسے ہیں جو بے رحم طریقے سے شہریوں کو قتل کرتے تھے ۔ اب وہ محفوظ تحویل ہیں۔ سزا تو درکنار، اُنہیں یہ بھی نہیں کہا جارہا کہ وہ عدالت کے سامنے پیش ہوکر اپنے گھنائونے افعال کی وضاحت کریں۔ ہم ایسا کیوں کرتے ہیں؟ کوئی نہیں جانتا۔ یہ فیصلے کون کرتا ہے ؟ شاید ہم سچ جاننے کا حوصلہ نہیں رکھتے کیونکہ وہ بہت پریشان کن ہوتا ہے ۔
یہ درست ہے کہ پاکستان منظم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نمایاں کامیابی حاصل کرچکا ۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی مسلح گروہ ریاست کے کسی حصے پر اپنی عملداری قائم کرسکے ۔ لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ سرزمین کی نہیں، نظریات کی جنگ ہے ۔ یہ دل و دماغ میں لڑا جانے والا معرکہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ریاست منظم دہشت گردی کی علامات کو سینے سے لگاتی ہے تو ایک خاموش لیکن مہلک پیغام چلا جاتا ہے ۔ ہم خادم حسین رضوی کو اسلام آ باد کو یرغمال بنانے اور ان کے ساتھ ایک شرمناک قومی معاہدہ کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ ہم صوفی اور احسان کو میڈیا پر موقع دیتے ہوئے اُنہیں قابل ِ قبول کرداروں کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اور پھر ہم کہتے ہیں کہ ہم دہشت گردی کے خلاف بیانیہ رکھتے ہیں۔ کون بے وقوف ہماری باتوںپر یقین کرے گا؟ سچی بات یہ ہے کہ ہمارے پاس دہشت گردی کے خلاف کوئی بیانیہ نہیں ، مکمل ابہام موجود ہے ۔ قصور صوفی محمد یا احسان اﷲ احسان کا نہیں بلکہ اُن کا ہے جنہوں نے حالیہ تاریخ کو فراموش کرتے ہوئے اُن کا کھلے بازوئوںسے استقبال کیا۔

تازہ ترین