• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ میں میرے سفر کاآخری پڑائو ڈی ٹرایٹ میںتھا۔ ڈی ٹرایت جھیلوں کاشہر ہے ہر طرف صاف شفاف پانی کی جھیلیں ہیں۔ انہی کے کنارے بستیاں آباد ہیں۔ یہاں کے مکین خاص اہتمام کرتے ہیں کہ یہ پانی کسی بھی طور گندہ نہ ہونےپائے۔ اسی وجہ سے ان جھیلوں کے کنارے چرند پرند یعنی پرندے انواع و اقسام کے اورہرن چہلیں کرتے نظرآتے ہیں۔ ان بستیوں کے لوگ خاص خیال رکھتے ہیں کہ ان کی زندگی میں یہ خوبصورتی ورعنائی کسی طور کم نہ ہو نےپائے۔
سرگودھا کے علاقے میں کچھ عرصہ پہلے ایک فیکٹری کے قریب جوہڑ میں ایک بھینس گر گئی۔بھینس کو بچانے کوئی چھ لوگ جوہڑ میں کودے۔ بھینس اوریہ چھ لوگ پانی کی آلودگی کی وجہ سے مر گئے۔ رپورٹ میںہے کہ فیصل آباد اورسرگودھا کےدرمیان واقعہ زیرزمین پانی اس قدر زہریلا ہوچکا ہے کہ جس کا ہمیں اندازہ بھی نہیں۔
ڈی ٹرایٹ میں سبزہ، ہریالی، خوشبوئوں اور پرندوں کا ڈیرہ ہے۔ کسی بھی جگہ آپ نل کو منہ لگا کر پانی پی سکتے ہیں۔ ڈی ٹرایٹ کی انتظامیہ اس بات کا ’’خاص‘‘ خیال رکھتی ہے کہ شہریوں کو گھر پر پانی صاف شفاف ملے۔ شہر کی سیوریج کو صاف کرنےکےلئے ٹریٹمنٹ پلانٹ لگے ہوئے ہیں جوبغیر ٹریٹ کئے پانی کو جھیلوں میںنہیں گرنے دیتے۔ اگر کوئی فرد یا سوسائٹی اس نظام کے خلاف کوئی حرکت کرے تو اس کی سزا بہت سخت ہے۔
لاہور کی نہر کے حوالے سے ایک رپورٹ سامنے آئی ہے کہ یہ نہر اب پانی کی نہیں بلکہ زہر کی آماجگاہ ہے۔ جس قدر گند، غلاظت اور زہریلا پانی فیکٹریوں اور سوسائٹیوں سے بغیر ٹریٹ کئے اس کے اندر غیرقانونی طور پر پھینکاجارہا ہے اس کا ہمیں اندازہ ہی نہیں۔ یہی زہر یہاں سے ہوتے ہوئےدریائے راوی کے اندر جارہا ہے جو آس پاس کی بستیوں میںکھیتی باڑی کے لئے استعمال ہونے والے پانی میں شامل ہو جاتا ہے۔ پانی کے اندرسے جس قدر زہر پھلوںاورسبزیوں کے اندر جارہا ہےاس کے اثرات کے بارے میں ماحولیات کے ماہرین بولتے رہتے ہیں لیکن ان کی آوازپر کان دھرنے والا کوئی نہیں۔ رہی سہی کسرکیڑے مار دوائوںنے پوری کردی ہے۔کاٹن اور دوسری فصلوں پرکئے جانے والے سپرے فصلوں کے بعدزیرزمین پانی میں داخل ہو کر انسانی صحت کے لئے انتہائی مضر حالات پیدا کر رہے ہیں۔ یہ ایسا نقصان ہے جس کا اندازہ ہمیں شاید اس لئے نہ ہو پائے کہ ہم اپنے دیگر معاملات میں ایسے الجھے ہوتے ہیں کہ ہمیں اس طرف توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔
ایسی ہی زہرناک صورتحال ہمارے معاشرے کی ہو چکی ہے۔ صبیحہ سومار نے 2003میں اپنی فلم’’خاموش پانی‘‘ میں اس زہرناکی کی طرف اشارہ کیا تھا۔ وہ تقسیم اوراس کے نتیجے میںہونےوالےفسادات، قتل و غارت گری، انسانی بےرحمی اور عورتوں کےساتھ غیرانسانی سلوک کی طرف توجہ دلاتی ہیں لیکن فلم کاموضوع پھر اس سے آگے بڑھ کر ضیاء الحق کے دور میں بڑھنے والی شدت پسندی کی طرف نکل جاتا ہے۔ سلیم نام کا نوجوان ایک ایسی عورت کا بچہ ہے جواصل میں سکھ خاندان سےتعلق رکھتی ہے۔ فسادات میں بہت سی عورتوں کی طرح اسے سرحد کے اس پار ایک گھرانے کی بہو بنا دیاجاتاہے۔ ایسے وقت میں جب اس کے خاندان کی دوسری سکھ عورتیں کنویں میں ڈوبنے کوترجیح دیتی ہیں وہ زندہ رہنا چاہتی ہے۔ اس کابیٹا جوان ہو کر ایک آزاد منش نوجوان بنتاہے۔ جو بانسری بجاتاہے، محبت کرتاہے، لیکن پھر شدت پسندی کی لہر اس کو بہا لے جاتی ہے۔ یہ شدت پسندی جوزہر کی طرح پورے معاشرے میںپھیل رہی ہے اسےامن ومحبت کے سفیر کےبجائے نفرت کا سفیر بنادیتی ہے۔
ضیاء الحق کے انہی اقدامات کی وجہ سے معاشرہ ایسی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے جو آج ایک کربناک حقیقت بن کر ہمارے سامنے موجود ہے۔ جس وحشت و بربریت کے شکار ہم اس وقت ہیں اس سے نمٹنے کا کوئی راستہ سمجھ میں نہیں آ رہا۔ صبیحہ سومار نے 2003میں ’’خاموش پانی‘‘ بنا کر ہمیں ایک جھلک دکھلا دی ہے کہ اس عفریت سے بچ جائو وگرنہ انجام بہت براہوگا اورہم دوغلی پالیسیاںبنا کر مشرف کے دورمیںایسے اقدامات کرتے رہے کہ اب جان چھڑانا مشکل ہو رہاہے۔ صبیحہ سومار کا ’’خاموش پانی‘‘ ایسے تلاطم پیدا کرچکا ہے کہ جس کے سامنے دوسری آفات دب گئی ہیں لیکن کیا ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے یہ امید کرسکتے ہیں کہ ہمیں امن نصیب ہوگا؟ ہماری زندگیاں سکون سے گزریں گی؟ ایک بم تو پھٹ رہا ہے لیکن جس دوسرے بم کی طرف میں نے شروع میں اشارہ کیا وہ بھی پھٹنے کےقریب ہے۔ زہریلے پانی کازہر بھی اندر ہی اندر دیمک کی طرح پورے ماحول کو کھوکھلا کئے جارہا ہے۔
شہروں، گائوں، دیہات کی فضا پھولوں کی مہک سے نہیں بلکہ زہریلی کیمیائی دوائوں اور گندی نالیوں کی سڑاند سے بھرپور ہے۔ صبیحہ سومار نے ایک خطرے کی طرف اشارہ کیا لیکن یہ دوسرا خطرہ اس امر کا متقاضی ہے کہ اس کی طرف بھی توجہ دی جائے۔ میں نے شروع میں ڈی ٹرایٹ کے ماحول اور جھیلوں کا ذکر کیاہے، کیا ہم یہ خواہش نہ کریں کہ ہمارا ماحول بھی اتنا ہی پرسکون، شاداب اور معطر ہو جتنا ڈی ٹرایٹ کا ہے؟ کیا ہم اپنے بچوں کے لئے ایک ایسے ملک کا تصور نہ کریں کہ جہاں نہ تو خودکش بمبار ہوں اور نہ ہی پانی کی زہرناکی؟ ہم جہاں وحشت و بربریت سے نمٹنے کے لئے پلان بنا رہے ہیں، وہیں ہمیں پانی کےزہر کےلئے بھی بڑے پلان بناناپڑیں گےوگرنہ یہ خاموش پانی خاموش نہیں رہے گا، پھٹ پڑے گا۔
ایسے میں کچھ ذکر قصور کے واقعے کا بھی کرلیں۔ اس واقعے میں جنسی تشدد کی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے ہمیں کچھ بین الصوبائی سچائیوںکے بارے میں سوچنا چاہئے۔ یعنی مفلسی اور جہالت۔ ایک طرف تو جہالت کے تدارک کے لئے اقدامات کی کمی اور دوسری طرف اسی جہل کے مارے عوام کی طرف سے ہر برس آبادی میں بے تحاشا اضافہ۔ حکمران تو شاید اس پالیسی پر گامزن ہیں کہ اوپر کے عوام کی خوشحالی کے لئے گنتی کے چند اقدامات کرلیں اور باقی عوام کو جہنم میں جھونک دیں۔ یہ خواہ تعلیم کی بات ہو، صحت کی یامعاشرے میں بہتری لانے کی، حکمران طبقے کے اس عمل کو عیاری نہ کہیں تو اور کیاکہیں۔

تازہ ترین