• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز میں ہر طرف افراتفری مچی ہوئی ہے ہر کوئی اپنا راگ الاپ رہا ہے سیاسی جماعتیں ہوں یا مذہبی، سب آنے والے انتخابات کی تیاری میں لگ چکی ہیں، سب پر امید ہیں کہ اس بار تو یقیناً ان کا ہی نمبر ہے اس وقت تین بڑی جماعتوں کے تین وزارت عظمیٰ کے امیدوار میدان میں نظر آرہے ہیں ویسے مولانا طاہر القادری کا اتحاد جو ابتدا میں ہی فساد کی نذر ہوگیا مگر اس اتحاد سے انہیں اب بھی بڑی امید ہے کہ اس بار تو وہی کامیاب ہو گا ان کے مدمقابل دوسرے گروپ کو بھی یقین ہے کہ ووٹ کی طاقت صرف اس کے پاس ہے، ان کا دعویٰ ہے کہ آنے والا وقت ان کا ہی ہے وہ اقتدار ملتے ہی سب کو اور سب کچھ درست کردیں گے۔ فی الحال طرح طرح کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں جبکہ دشمن سرحد پر اپنی کارروائیوں میں مصروف ہے دوسری طرف امریکہ بہادر کی سمجھ میں نہیں آرہی کہ آخر وہ کیا چاہتا ہے پاکستان کو ڈرا کر رکھنا چاہتا ہے اور بھارت کو سر پر سوار کر رہا ہے سارے اکابرین سیاست آنے والے خطرات کو محسوس نہیں کر رہے، میاں نواز شریف اور ان کے ساتھی سب یک زبان ہو کر اپنی ہی حکومت کا برا بھلا کہہ رہے ہیں، انہوں نے غالباً عوام کو بالکل ہی بے وقوف سمجھ رکھا ہے کہ جب چاہیں گے جس طرف اور جس طرح چاہیں گے ان کا رخ موڑ کر اپنا کام نکال لیں گے لیکن عوام اب نہ اتنے بھولے نہیں، جبکہ مدمقابل بھی کسی طرح کمزور نہیں میاں نوازشریف جانے کس یقین پر مسلسل عدلیہ اور انتظامیہ کیخلاف مہم جوئی میں لگے ہوئے ہیں جبکہ ان کے حریف اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو چکے ہیں یا ہوسکتا ہے کہ میاں صاحب کو یہ کامل یقین ہوگیا ہو کہ آنے والا وقت بھی ان کا ہے اقتدار ان کے ہاتھوں سے کوئی نہیں چھین سکتا لیکن کوئی نہیں جانتا کہ سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھنے والا ہے۔
دوسری طرف آصف علی زرداری اور ان کے صاحبزادے بلاول زرداری کو یہ گمان ہے کہ اب کے ان کی باری ہے۔ ان کو یقین ہے کہ عوام اس بار ان کے لئے راہ ہموار کریں گے عمران خان ابھی ناتجربہ کار ہیں انہیں سیاست کی الف ب نہیں آتی اس لئے ان کا اقتدار میں آنا ناممکن ہے قسمت نے انہیں ایک صوبے کی حکمرانی کا موقع دیا جس میں وہ بری طرح ناکام ہوگئے، اس بار اگر انہیں خیبر پختونخوا میں بھی حکومت مل جائے تو یہ کسی معجزے سے کم نہیں ہوگا پچھلی بار لوگوں نے تحریک انصاف کو اس لئے موقع دیا تھا کیونکہ ان کے سامنے اس وقت تک تحریک انصاف کی نہ کوئی برائی تھی نہ اچھائی لوگوں کو امید تھی کہ شاید وہ کچھ نیا کر دکھائیں جس کا وہ بار بار اعلان کررہے تھے تحریک انصاف نیا پاکستان تو کیا بناتی وہ ایک صوبے تک کو تو کچھ نیا نہیں دے سکی۔ اس لئے خطرہ ہے کہ اس بار اس قدر سیٹ نہ حاصل کرسکے جس سے وہ حکومت سازی کرسکے، پورا ملک تو دور کی بات ہے کچھ یہی صورت حال پیپلز پارٹی کی بھی ہے انہیں بھی سندھ میں مکمل حکمرانی کا موقع ملا لیکن انہوں نے سندھ میں کچھ کر دکھانے کی بجائے محاذ آرائی کی سیاست کی ہے جس کی وجہ سے سندھ بدحال اور بدنما ہو کر رہ گیا ہے اس بار امید ہے کہ کوئی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت لسانی بنیادوں پر کامیابی حاصل نہیں کرسکے گی نہ ہی پیپلز پارٹی اس قدر اکثریت حاصل کرسکے گی جتنی اسے ہر بار حاصل رہی ہے، سندھ کی شہری آبادی کی بڑی اور اہم جماعت ایم کیو ایم کو گو کہ کئی حصوں میں تقسیم کرنے میں کامیابی تو ہوگئی ہے لیکن اس تمام تر تقسیم کے باوجود ایم کیو ایم کا ووٹ بینک کسی طرح بھی کسی دوسری جماعت کے کام نہیں آئے گا نہ تحریک انصاف کے نہ ہی پیپلزپارٹی کے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خود پیپلزپارٹی اپنے موجودہ رویوں کے باعث سندھ بھر میں وہ اکثریت حاصل نہ کرسکے جس کی وہ خواہش مند ہے اس بار خدشہ ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ مرکز میں اور تمام صوبوں میں کسی بھی جماعت کو اتنی اکثریت نہیں ملے گی کہ وہ اکیلے حکومت سازی کرسکے مرکز میں بھی اور صوبوں میں بھی مخلوط حکومتیں بننے کا خدشہ صاف نظر آرہا ہے۔
حکمراں ساز ادارے ہر طرح کی صورت حال پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں انہیں شدید احساس ہوچکا ہے کہ کسی ایک جماعت وہ چاہے مرکز میں ہو یا صوبے میں بھاری مینڈیٹ حاصل نہیں کر پائے گیا یہ اور بات کہ اللہ تعالیٰ اگر کسی سے کوئی کام لینا چاہے تو اسے نواز دے ورنہ زمینی حالات و واقعات تو ایسے نظر آرہے ہیں جس سے عوام میں اور اہل سیاست میں بے یقینی بڑھتی ہی جا رہی ہے اقتدار کا ہماکس کے سر پر بیٹھے گا یہ کوئی پیش گوئی نہیں کرسکتا۔ اس صورت حال کا اہل سیاست جو سنجیدہ اور تدبر والےہیں کو پورا پورا ادراک ہے لیکن جو سیاست دان خوابوں کی دنیا میں رہ رہے ہیں ہر روز ایک نیا خواب دیکھتے ہیں اور اس کی تعبیر پانے نکل پڑتے ہیں، جگہ جگہ جلسوں، جلوسوں سے جو انہیں غلط فہمی ہو رہی ہے وہی انہیں لے ڈوبے گی ہر سامع جو کسی بھی لیڈر کی تقریر سننے آتا ہے وہ ضروری نہیں کہ اس لیڈر کا ووٹر بھی ہو، پھر آج کل تو پیسوں کے زور پر لوگوں کو جلسوں جلوسوں میں لایا اور بلایا جاتا ہے پیسے لینے والے تماش بین ووٹ بھی پیسے لے کر ہی دیتے ہیں غالباً یہی وجہ ہے کہ الیکشن اس قدر مہنگا ہوچکا ہے کہ عام آدمی تو الیکشن میں حصہ لینے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ بڑے بڑے وڈیروں، سرداروں اورساہوکاروں نے دولت ایسے کاموں کے لئے جمع کی ہوتی ہے وہی اپنا شوق پورا کرنے میدان میں آتے ہیں کیونکہ اس طرح انہیں نا صرف عزت ملتی ہے بلکہ دولت بھی بے پناہ ہاتھ آتی ہے اللہ ہمارے وطن عزیز کی حفاظت فرمائے اور نیک اور صالح حکمرانوں کو وطن عزیز کی باگ دوڑ سنبھالنے کی توفیق دے آمین یا رب العالمین۔

تازہ ترین