• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئے سال کا پہلا مہینہ اپنے اختتام کو پہنچ گیا 2018 کی پیش گوئی کرنے والے مزید تازہ دم ہوگئے اور مارکیٹ میں اونچی اونچی آوازیں لگا کر اپنا چورن بیچ رہے ہیں۔ 2017 میں سیاسی پیش گوئیوں کا بازار تیزی سے کامیاب ہورہا تھا اور نجومیوں نے پیش گوئی کرنے کے اعتبار سے اپنے اپنے علاقے بانٹے ہوئے تھے مگر کوئی ایک پیش گوئی بھی سچ ثابت نہ ہوسکی تھی ایک سیاسی و صحافی نجومی صاحب روز ٹی وی پر آکر آرمی کے فیصلوں کے بارے میں مستقبل کی کہانی بیان کرتے تھے تو دوسرے نواز شریف کے، تیسرے نجومی نے عمران خان کے مستقبل کے فیصلوں کو پہلے سے عوام کے سامنے لانا شروع کردیا تھا۔ کوئی شہباز شریف کو تو کوئی مذہبی جماعتوں کو اپنی دکان بناکر بیچ رہا تھا اور ہمارے جیسے معصوم عوام ان کی پیش گوئیوں کے حساب سے اپنے مستقبل کے فیصلے کررہے تھے نہ جانے کتنے ہم میں سے صرف اس لئے ملک چھوڑ گئے کہ ان نجومیوں نے ہر سال کی طرح 2017 میں بھی اس ملک کے مکمل طور ہر دیوالیہ ہونے کی پیش گوئی کردی تھی اور ان کے مطابق آگ اور خون کی ایک بہت بڑی ہولی بھی کھیلی جانی تھی۔ کچھ ہر سال کی طرح گزرنے والے سال میں بھی امپائر کی اُنگلی اٹھنے کی پیش گوئی کرتے رہے ۔ امپائر کی اُنگلی تو نہ اُٹھی روز روز کے ان بیانات کی وجہ سے امپائر کی طرف انگلیاں اُٹھنے لگیں اور شاید یہ ہی وہ چاہتے تھے۔ ایک صاحب گزشتہ چار سال سے قربانی کی تاریخ دیتے آرہے ہیں مگر قربانی اس لیے نہ ہوسکی کیونکہ ہر دفعہ اُن کا قصائی دھوکہ دے جاتا ہے اور دیتا رہے گا۔ اور اب جبکہ سینیٹ کے انتخابات کا شیڈول تک سامنے آچکا ہے تو سازشی عناصر کسی نئے معجزے کے انتظار میں ہیں۔ بار بار کی غلط پیش گوئیوں کی وجہ سے پورے کا پورا معاشرہ ایک مذاق بن چکا ہے اور ہرآدمی صرف ایک ہی کام تندہی سے کررہا ہے کہ روز صبح اُٹھ کر ایک نئی پیش گوئی کردے اور دوسرے دن اُس پیش گوئی کے غلط ثابت ہونے پر بجائے شرمندہ ہونے کے ایک اور نئی پیش گوئی کردے اور یہ سب ہماری قوم نے سیکھا ہے صادق اور امین کے لبادے میں لپٹےہوئے اُن جھوٹوں سے جن کے باعث آج ہمارا پورے کا پورا معاشرہ بے بنیاد اور بغیر کسی ثبوت کے الزام تراشی کرنا ،سرعام کسی کو بھی گالی دینا اور بس اپنے آپ کو سب سے زیادہ سچا سمجھنا جیسے بڑے زہر کا شکار ہوچکا ہے۔ روز رات کو ٹی وی پر بیٹھ کر کچھ لوگ پاکستان کی صبح سے کھیلنا اپنی اولین ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ یو ٹرن والے اب مائی ٹرن کے نعرے لگارہے ہیں اور اس ٹرن کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں ۔
اگر ہم اپنے خطے کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ہمارا ایک ایسے معاشرے سے تعلق ہےجہاں کسی بھی خان وڈیرے سردار مولوی یا چوہدری کی کہی گئی بات پر فوری یقین کرلیا جاتا ہے اور اُسے سُن کر ایک لمحے میں ہزاروں لاکھوں لوگوں تک پہنچادیا جاتا ہے کسی بھی معاشرے میں اس طرح کا طبقہ جہالت کے باعث پھلتا پھولتا ہے جہاں سنی سنائی بات کو فوری طور پر حرف آخر سمجھ لیا جاتا ہے۔ دنیا کے ہر معاشرے میں تین طرح کے طبقے ہوتے ہیں ایک وہ جو عملی طور پر کسی بھی عمل یا واقعہ کا حصہ ہوتے ہیں دوسرے وہ جو لوگوں سے سُن کر کسی بھی عمل یا واقعہ پر یقین کرلیتے ہیں اور تیسرے وہ جو بغیر کسی مدلل ثبوت کے کسی بھی عمل یا واقعہ پر یقین نہیں کرتے۔ آخر الذکر کی ہمارے معاشرے میں تعداد نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں تعلیم کی کمی کے باعث عوام الناس کو اتنا ہوش ہی نہیں کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح ہے جس کے باعث افواہ سازی موجودہ دور کا سب سے بڑا ہتھیار بن گیا ہے اور بادشاہ وقت امریکہ نے دنیا خصوصاً ہمارے معاشرے کی اس کمزوری کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے افواہ سازی کی فیکٹریاں قائم کیں اور ان میں بھرپور سرمایہ کاری کی۔ ان فیکٹریوں میں میڈیا سوشل میڈیا اور مقامی سطح کی قیادتیں جن کا خواہ کسی بھی زبان مذہب یا طبقے سے تعلق ہو شامل ہیں۔ کیونکہ اس تحریر کا مقصد اپنے ملک کی صورتحال پر گفتگو کرنا ہے لہذا ہم صرف اسی کے متعلق بات کریں گے ۔ پاکستان بننے کے بعد نوزائیدہ مملکت کا سب سے بڑا ہتھیار آپس کی محبت ،اخوت ،بھائی چارہ اور اتحاد تھا اور اسی بنیاد پر ہم نے فرنگیوں کا جسم چیر کے اپنے لئے ایک نئی مملکت حاصل کی تھی ورنہ اس نوزائیدہ مملکت کے پاس نہ تو تعلیمی سہولتیں تھیں نہ ہی دیگر بنیادی سہولتیں جس سے زندگی کو بہتر بنایا جاتا مگر اتحاد اور اخوت کی طاقت نے اس پوری قوم کو ایک دوسرے کے دکھ درد کا ساتھی بنادیا تھا اور یہ اتحاد امریکہ جیسے طاقتور ملک جو کہ دنیا پر ہزاروں سال حکومت کرنے کی ہر وقت تیاری کرتا رہتا ہے کے لیے ناقابل برداشت تھا لہذا امریکہ نے اس اتحاد کو توڑنے کے لیے پہلے ضیا الحق کے ذریعے اس قوم کو مذہبی اور لسانی طور پر تقسیم کیا ورنہ اگر بھٹو کے دور تک دیکھا جائے تو یہ قوم مذہبی تقسیم سے بہت دور تھی بنیادی اختلافات سے ہٹ کر کوئی ایسی مثال نہیں ملتی جہاں لوگ ایک دوسرے کی جان لینے کے در پر ہوں مگر امریکہ نے یہ کام ضیا الحق کے ذریعے بڑی آسانی سے کردیا اور ضیا الحق کو اس خدمت کے بدلے میں منہ مانگی طاقت دی گئی جس کا استعمال کرتے ہوئے ۓ ضیا الحق نے اس قوم کو نہ صرف مذہبی اور لسانی طور پر تقسیم کیا بلکہ کلاشنکوف اور ہیرؤین کے ذریعے تعلیم سے دور کرکے دہشت گردی اور افراتفری پیدا کرنے والے عناصر سے قریب کردیا جس کی قیمت ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ تاہم ضیاالحق کی اچانک موت کے بعد یہ ایجنڈا ادھورا ہی رہ گیا اور کمزور سویلین حکومتیں اپنے آپ کو ہی نہ بچاسکیں تو ضیا الحق کے ایجنڈے کو کیا فروغ دیتیں ۔ اس ایجنڈے کی تیزی سے اس لئے ترسیل ہوئی کیونکہ اُس میں خوف کا عنصر بھی شامل تھا جس طرح پیپلز پارٹی کے لیڈروں کو سرعام کوڑے مارے گئے اور ہر مخالف کا طاقت کے زور پر سر کچلا گیا عوام الناس میں ایک خوف پھیل گیا اور انھیں مرتے کیا نہ کرتے ہر بات کو تسلیم کرناپڑا ۔ ضیا الحق کا یہ نا مکمل ایجنڈا جس میں معاشرے کو تعلیمی اخلاقی اور سماجی طور پر مکمل طور پر تباہ کرنا شامل تھا اب ایک نئے ۓ انداز سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جارہا ہے گزشتہ دو تین سالوں کے دوران قوم کو ایک نئے انداز گفتگو سے متعارف کرایا گیا ہے اور یہ طے کرلیا گیا ہے کہ جھوٹ اتنا بولو اتنا بولو کہ سچ لگنے لگے اور بغیر کسی تصدیق کے ہر بات پر یقین کرنے والی قوم کے سامنے ایسے لوگ لیڈر اور مسیحا بناکر پیش کرو جو اُن پر سحر طاری کردیں کہ پھر یہ لیڈر یا مسیحا جو بات بھی کہیں عوام کو سچ لگے اور بلا کسی تاخیر کے وہ اُس پر یقین کرکے ردعمل دینا شروع کردیں۔ یہ ہی سب کچھ ہمارے ساتھ گزشتہ تین سال سے ہورہا ہے قوم کو رنگ و خوشبو کے سحر میں لاکر جھوٹ کو سچ بناکر پیش کیا جارہا ہے جس کا ملک کو شدید نقصان اُٹھانا پڑرہا ہے بیرون ملک بیٹھے لوگ ہم پر ہنستے ہیں اور ہم یہاں ایک ایسے اندھیرے میں دھکیلے جارہے ہیں جسے روشنی بناکر پیش کیا جارہا ہے مگر چمکتی چیزوں سے متاثر ہماری آنکھیں یہ اب سب دیکھ نہیں پارہی ہیں۔ بس ہُش میں خوش ہیں سب۔

تازہ ترین