ماہرین نفسیات و سماجیات کا کہنا ہے مسائل اور المیے معاشروں کی ترقی اور تنزلی میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ اپنے اردگرد نظر دوڑاتی ہوں تو گن نہیں سکتی کہ ہمارے مسائل زیادہ ہیں یا المیے؟ مسئلہ کے معانی و مطالب سے ہم سب بخوبی واقف ہیں لیکن جب ذاتی مفادات آڑے آتے ہیں تو جنگ میں سب جائز ہوتا ہے کی مانند ہم ہر وہ عملی قدم اٹھا لیتے ہیں جو قانون، ضابطہ یہاں تک کہ اخلاقیات کے سب اصولوں کی بھی دھجیاں اڑا دیتے ہیں۔ آج مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہمارےمسائل حل نہیں ہوتے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ہم مسائل کو المیہ میں بدلتے بدلتے اس میں ماہر ہونے کی سند پاچکے ہیں۔ مسائل اگر حل ہوجائیں تو معاشرے ترقی کرتے ہیں لیکن اگر حل نہ ہوپائیں تو المیے کے ناگ بن کر معاشروں کو ڈستے ہیں اور تنزلی کی ایسی اندھی کھائی میں دھکیل دیتے ہیں جہاں سے واپسی ناممکن ہوجاتی ہے۔ من حیث القوم کس منزل کی جانب گامزن ہیں اس ضمن میں ایک واقعہ بیان کروں گی۔ یہ واقعہ چیئرمین پی ٹی وی عطا الحق قاسمی کے استعفیٰ کی بابت ہے۔ دوسال قبل جب انہوں نے بطور چیئرمین سربراہی سنبھالی تو یہ ریٹنگ کی بنیاد پر ادارہ کا سورج ٹائی ٹینک کی مانند غروب ہوچکا تھا۔ یہاں آکر قاسمی صاحب اپنےجبلی تقاضوں کے زیر اثر جامد نہ بیٹھے بلکہ مزید تحرک کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ مصدقہ معلومات کے مطابق عطا الحق قاسمی صاحب نے یہاں دو متحرک ترین سال گزارے۔ دو دہائیوں سےمنہ موڑ چکے ادبی حلقوں کو ایک بار پھر انہوں نے یہاں آنے کا راستہ دکھلایا۔ اندھیروں میں ڈوبے اسٹوڈیوز کی رونقیں بحال کیں۔ ٹی وی کی ترقی کہ کہانی میں کلائمکس کا آغاز ہوا ہی چاہتا تھا کہ اینٹی کلائمکس ہوگیا۔ ہر ہیرو کی زندگی میں ایک ولن ضرور پایا جاتا ہے لیکن یہاں ایک نہیں متعدد ولن بدرجہ اتم موجود تھے۔ وہ اس ادارہ کو ڈبونے پر اتارو ہیں۔ سرکاری ٹی وی کو قومی شناخت دلانے، ثقافت کے فروغ اور عظمت رفتہ کی بحالی کیلئے ان کی دی گئی تجاویز کو ٹوکری کی نذر کردیا گیا۔ خاندان غلاماں کی سوچ پر چلنے والا قابض انتشار پسند ٹولہ جیت گیا اور قاسمی صاحب نہ صرف استعفیٰ دینے پر مجبور ہوگئے بلکہ ان کا استعفیٰ منظور بھی کر لیا گیا۔ آج سرکاری ٹی وی کی صورتحال یہ ہے کہ وہاں کے کارکن عالم سوگ میں ہیں۔ انہیں یقین نہیں آرہا ہے کہ انہیں ایسے شخص سے محروم کردیا گیا ہے جو محض سربراہ نہیں بلکہ شفقت اور رواداری میں ایک والد سے کسی طرح بھی کم نہیں تھا۔ ان کی کی تعیناتی کے بعد کارکنان ان سے بے انتہا خوش تھے اور توقع کررہے تھے کہ نہ صرف ان کے چولہے جلیں گے بلکہ اب سرکاری ٹی وی ایک بار پھر بام عروج کو چھو لے گا لیکن بوجوہ ان کی خواہشیں پوری نہ ہو سکیں۔ مخصوص ٹولے نے نہ صرف انہیں وہاں سے جانے پر مجبور کیا بلکہ قابل احترام عطا الحق قاسمی کے خلاف غلیظ اور مکروہ پراپیگنڈہ مہم شروع کردی ہے جس کی اجازت نہ ہمارا مذہب دیتا ہے اور نہ اخلاقیات۔ گزشتہ دنوں ان کی75 ویں سالگرہ منعقد ہوئی جس میں وہ حسب عادت شگوفے چھوڑتے رہے۔ اس موقع پر بلاامتیاز جس طرح قریبی دوستوں، ناقدین اور مداحوں نے اس تقریب میں شرکت کی وہ یادداشت کا حصہ رہے گی۔ ان کے مداحین نے اپنے خیالات اور محبت کا اظہار کیا ان میں سے یہ تین جملے تو عین ان کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اول یہ کہ فرائض منصبی اور خواہشات قلبی جب ایک ہوجائیں تو عظیم کارنامے برپا ہوتے ہیں۔ دوم یہ کہ عطا الحق قاسمی جس زمین پرعمر بھر براجمان رہے اسی کا آسمان بنے رہے۔ سوم یہ کہ ان کے فن پر گفتگو کے لئے سینکڑوں پہر اور لکھنے کیلئے کئی دفاتر درکار ہیں۔ قاسمی صاحب جہاں بھی گئے وہاں انہوں نے جدت پسندی کے ایسے اسلوب متعارف کروائے جنہیں عصر حاضر کے ناقدین نے سراہا۔ ان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والوں کیلئے عرض ہے کہ مالی مفادات سے بے نیاز قاسمی صاحب کی طبیعت غالب کے اس شعر پر عین منطبق ہوتی ہے کہ؎
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی درد بے دوا پایا