• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چھ فروری کی رات ڈاکٹر قیوم سومرو چادر لئے اسلام آباد کے ایک جدید ریسٹورنٹ میں داخل ہوئے، ان کے ساتھ پیپلز پارٹی کے کچھ اہم رہنما بھی تھے۔ جونہی میں نے ان کے ساتھ فیصل کریم کنڈی، اعجاز درانی اور فیصل سخی بٹ کو دیکھا تو میں ان کا مشن سمجھ گیا۔ ڈاکٹر قیوم سومرو اسی شخصیت کا نام ہے جس کو آپ نے حال ہی میں بلوچستان حکومت کی تبدیلی کے وقت بڑا متحرک دیکھا تھا۔ زرداری صاحب نے تو بلوچستان والوں کو دعا دی تھی مگر اصل میں ’’دوا‘‘ ڈاکٹر قیوم سومرو لے کر گئے تھے۔ ڈاکٹر قیوم سومرو نے وہاں تندرستی کی تمام دوائیاں دیں۔ جسے گولی کی ضرورت تھی اسے گولی دی گئی اور جسے انجیکشن لگانا تھا اسے انجیکشن لگا دیا گیا۔ سب کے لئے حیرت کا مقام تھا کہ پیپلز پارٹی جس کا بلوچستان اسمبلی میں ایک بھی رکن نہیں تھا اس نے منظر کو کیسے خوبصورتی سے تبدیل کر دیا۔ دشمنوں کو جلانے کے لئے کر اچی میں ایک اجلاس بھی کر ڈالا، اس اجلاس کا منظر بھی حیران کر دینے والا تھا۔ آصف علی زرداری اجلاس کی صدارت کر رہے تھے جبکہ ان کے دائیں ہاتھ پر بلوچستان کی پوری کابینہ اور بائیں ہاتھ پر سندھ کی پوری کابینہ تشریف فرما تھی، اس منظر نے سیاست کے بہت سے چالبازوں کو نہ صرف حیران کیا بلکہ پریشان بھی کر دیا۔ اس اجلاس کے بعد باقی پارٹیاں سینیٹ الیکشن کے لئے پریشان ہو گئیںکیونکہ سیاسی پارٹیوں کو پیپلز پارٹی کی بلوچی چال نے پریشان کر دیا۔
آج کل سینیٹ الیکشن کے لئے جوڑ توڑ جا ری ہے ۔ پیپلز پارٹی کے میڈیکل اسپیشلسٹ ڈاکٹر قیوم سومرو بہت متحرک ہیں ۔ انہوں نے اسلام آباد کو کیمپ آفس بنا رکھا ہے کیونکہ اس مرتبہ انہوں نے سارا کھیل لاہور، پشاور اور اسلام آباد میں کھیلنا ہے۔ جس وقت میں یہ سطور لکھ رہا ہوں وہ اپنا بہت سا کام مکمل کر چکے ہیں۔ آپ سینیٹ الیکشن کا منظر تو دیکھیں بلوچستان میں پیپلز پارٹی نے سات آزاد امیدوار میدان میں اتار دئیے ہیں ۔ سندھ میں بھی وہ اپنی نشستوں سے زیادہ دو مزید سیٹیں حاصل کر نےکے چکر میں ہیں۔ فنکشنل لیگ کی سیٹ پر تو قریباً ان کا قبضہ ہو چکا ہے۔دوسری سیٹ کے لئے کچھ لوگوں کو دوائی دے دی گئی ہے باقی کچھ شہری لوگوں کو جڑی بوٹیوں سے تیار دوائی دے دی جائے گی ۔ شاید اسی لئے ٹیسوری کی پسوڑی پڑی ہوئی ہے۔
آپ حیران ہو ں گے کہ میں پیپلز پارٹی ہی سے متعلق کیوں لکھ رہا ہوں، سیدھی سی بات ہے یہی پارٹی سینٹ الیکشن میں سب کو حیران کرے گی (اگر الیکشن میں کوئی اور رپھڑنہ بنا تو) اکثریت پیپلز پارٹی ہی کی ہو گی (مگر ابھی سینیٹ الیکشن کے سامنے دھند ہے، ہو سکتا ہے یہ الیکشن نہ ہو سکیں) اگر ہو گئے تو پھر بلوچستان اور سندھ کے علاوہ خیبر پختونخوا ، فاٹا اور پنجاب میں کچھ نہ کچھ ہوتا ہوا نظر ضرور آئے گا۔ حیرت اور اس پر مزید حیرت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے پاس پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اتنے ووٹ نہیں ہیں جتنے انہوں نے امیدوار کھڑے کر دئیے ہیں، آج کل پیپلز پارٹی کے تکنیکی ماہرین کا اجلاس ہر شام ہوتا ہے اس اجلاس میں دن بھر کے ’’حصول شدہ مثبت نتائج‘‘ پر غور بھی کیا جاتا ہے۔
پیپلز پارٹی کا منظر تو میں نے لکھ دیا۔ اب ایک بات پورے وثوق سے لکھ رہا ہوں کہ سوائے اے این پی کے باقی سب جماعتوں نے مالداروں کو خوب ایڈجسٹ کیا ہے۔ تحریک انصاف نے مال دار پارٹیوں کے ساتھ ساتھ ایک کارکن فیصل جاوید خان کو بھی ٹکٹ دیا ہے، اس نوجوان کا تعلق متوسط طبقے سے ہے۔ باقی اعظم سواتی سمیت سب مالدار ہیں۔ جے یو آئی کے لئے طلحہ محمود ہی کافی ہیں۔ ن لیگ کے فاروق خان، ہارون اختر اور حافظ عبدالکریم کی صورت میں مالدار ٹکٹ ہولڈر ہیں، ن لیگ نے چوہدری جعفر اقبال سمیت کئی اہم لیگی رہنمائوں کو نظر انداز کر دیا ہےاور ان کی جگہ ’’کام‘‘ دکھانے والے رانا مقبول کو بہتر سمجھا گیا ہے۔ ایک اور ’’کام‘‘ دکھانے والے عابد باکسر بھی پکڑے گئے ہیں۔
عابد باکسرکی گرفتاری بھی کسی کی مشکلات میں اضافہ کرے گی کیونکہ عابد باکسر کی داستان میں کئی سبزہ زار ہیں ۔ بیرسٹر سعدیہ عباسی کو بھی ٹکٹ دیا گیا ہے ، ان کی سفارش ان کے بھائی شاہد خاقان عباسی نے نہیں کی تھی۔ سعدیہ عباسی پہلے بھی سینیٹر رہ چکی ہیں جب وہ پرویز مشرف کے دور میں ن لیگ کی طرف سے سینیٹر بنی تھیں تو انہیں چند ووٹ چوہدری شجاعت حسین نے دلوائے تھے یہی چودھری شجاعت حسین کی وضعداری ہے۔ ان کی وضعداری نے آج بھی کامل علی آغا کو امیدوار بنایا ہے مگر شاید ساتھ پنجابی گیت بھی گایا ہو’’........ تے اگے تیرے بھاگ لچھیے........‘‘ اے این پی نے مسعود عباس خٹک اور شگفتہ ملک کو امیدوار بنایا ہے۔ اس لئے اے این پی مبارک باد کی مستحق ہے ۔ خاص طور پر شگفتہ ملک تو پکی نظریاتی کارکن ہیں۔ سینیٹ الیکشن کے سامنے دھند ہے، اس دھند میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ کچھ درخواستیں اعلیٰ عدلیہ میں پیش ہونے والی ہیں ان پر کچھ نہ کچھ تو ہو گا۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں نے ملک کی بہتری کے لئے بہت تیزی سے کام شروع کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کو داد دینی چاہئے کہ وہ ایسا کام کر رہے ہیں جو تاریخی ہے،پاکستان کی تاریخ میں میاں ثاقب نثار کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ آج کل ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں کے جج صاحبان بلا خوف و خطر فیصلے کر رہے ہیں انہیں نہ کسی مافیا کا خوف ہے اور نہ جلسوں کا ڈر۔ بلکہ گزشتہ روز تو چیف جسٹس نے بڑے واضح انداز میں کہا کہ’’ ......... ہمیں کوئی باہر نہیں کر سکتا، عدالتیں ختم ہو جائیں تو جنگل کا قانون ہو گا، ہم پریشان ہیں نہ ہی قوم، راجہ ظفر الحق صاحب! ہمیں ڈرانے والے لوگ عدالت نہیں آئے، انہیں تو لے کر آئیں۔بلاجواز تنقید پر جج جواب دینے کے مجاز، ہم جلسہ کر سکتے ہیں نہ لوگوں کو ہاتھ کھڑا کرنے کا کہہ سکتے ہیں، تضحیک پر شق 204 کے تحت سزا دے سکتے ہیں، عوام سپریم کورٹ کی ریڑھ کی ہڈی بنیں گے.........‘‘
خواتین و حضرات !عدالتوں کے فیصلے بولیں گے، جج بھی بولیں گے ، ملک کی تاریخ لکھی جا رہی ہے، عدالتوں سے انصاف ہو رہا ہے عدالتیں ہی ملک کی سیدھی سمت کا تعین کریں گی کہ
تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں، تیری رہبری کا سوال ہے

تازہ ترین