• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دادو، غیر حاضر ٹیچرز کیخلاف انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج

Todays Print

کراچی ( امداد سومرو ) ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج دادو کے حکم پر محکمہ تعلیم سندھ کے وزارتی سٹاف سمیت پندرہ مرد و خواتین ٹیچرز کے خلاف اینٹی ٹیررزم ایکٹ ( اے ٹی اے) کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ، ان پر ڈیوٹی سے غیر حاضری اور ضلع دادو میں سرکاری سکول کی عمارت کے غیر قانونی استعمال کا الزام ہے۔ 27جنوری کو بھی سیشن جج دادو اشوک کمار کے حکم پر دو ٹیچرز غلام نبی مستوئی اور غلام عباس کے خلاف اے ٹی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ سکولوں سے ٹیچرز کی غیر حاضری اور سکولوں کی بندش کا مسئلہ بہت پرانا ہے، آزاد ذرائع کے مطابق صوبے میں دس ہزار سے زائد ٹیچرز سکولوں میں ڈیوٹی سے غائب ہیں،یہ صحافت، ذاتی کاروبار، بیرون ملک ملازمتیں اور این جی اوز کے ساتھ کام کر رہے ہیں ۔ دوسری طرف سیکڑوں سکول بند ہیں ، انہیں علاقے کے با اثر افراد گودام، رہائشی اور مویشی فارمز کے طور استعمال کر رہے ہیں ، اگرچہ سیشن جج دادو کے فیصلے کی عوام نے تحسین کی ہے لیکن ماہر ین قانون کا کہنا ہے کہ ڈیوٹی سے غیر حاضری پر ٹیچرز کے خلاف اے ٹی اے کے تحت مقدمے کے اندراج نامناسب اور ماتحت عدالت کا حدود سے تجاوز ہے، آئینی و قانونی ماہرین جن میں سندھ ہائیکورٹ کے معروف جج، سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے سابق نامور وکیل رشید رضی ،سینئر وکیل سجاد احمد چانڈیو، آصف کم بہار ایڈووکیٹ،محمد شریف ایڈووکیٹ، شبیر سومرو ایڈووکیٹ اور دیگر شامل ہیں ، ان کا خیال ہے کہ ماتحت عدلیہ کا یہ اختیار نہیں کہ وہ سکولوں پر چھاپے مارے اور دورے کرے اور اے ٹی ا ے کے تحت مقدمات کا اندراج کرنے کا ایگزیکٹو کردار ادا کرے، قانونی حلقوں کا موقف ہے کہ اپنی ڈیوٹی سے غیر قانونی طور پر غیر حاضر ٹیچرز کے خلاف سروس لاء کے تحت مناسب کارروائی کی جانی چاہئے۔ سیشن جج نے اس رپورٹر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس نے تمام فیصلے قانون کے مطابق، بلا امتیاز اور بالائی عدالت کی ہدایات کے تحت میرٹ پر کیے ہیں ، ایف آئی آر کا اندراج بھی قانون کے مطابق کی گیا ہے۔ سیشن جج کمار نے مزیدکہا کہ وہ اپنے فرائض قانون کی اپنی تشریح کے مطابق ادا کرتے ہیں دیگر جج جو کرتے ہیں وہ اس کے ذمہ دار نہیں ،وہ اللہ، سپریم اور سندھ ہائیکورٹ کو جوابدہ ہیں ۔ یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ دسمبر2017میں اسی سیشن جج کے حکم پر ضلع دادو کے مہر تعلقہ ہسپتال کے ڈاکٹروں اور پیر میڈیکل سٹاف کے خلاف بھی ڈیوٹی سے غیر حاضری پر اے ٹی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا لیکن چند دن میں ہی اے ٹی اے واپس لے لیا گیا تا ہم ٹیچرز کے خلاف اب بھی اے ٹی اے کے تحت کارروائی جاری ہے۔ اس ضمن میں15اگست2017کو جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میںسپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے فیصلہ دیا تھا کہ ماتحت عدلیہ عام جرائم کے ملزمان کو اے ٹی اے میں ملوث نہ کرے،حال ہی میں سیشن جج کے حکم پر دو دوسرے ٹیچرز پر بھی اے ٹی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا،ان میں غلام نبی مستوئی سپروائزر اور غلام عباس ٹیچر نے عدالت کے رو برو بتایا کہ جس روز سول جج اور جوڈیشل مجسٹریٹ نے سکول کا دورہ کیا اس روز ٹیچراور طلبہ مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے سہون شریف گئے ہوئے تھے تا ہم سپر وائزر نے بتایا کہ سکول چل رہا ہے اور داخلے بھی ہورہے ہیں ، انہوں نے ٹیچر کی غلطی پر معافی بھی مانگی۔سیشن جج کے احکامات میں مزید کہا گیا ہے کہ سندھ ہائیکورٹ نے دو آئینی درخواستوں میں سندھ کے تمام ججوں کو یہ ہدایات دی ہیں کہ وہ اپنے اپنے علاقے میں موجود سکولوں کا اچانک دورہ کر سکتے ہیں ، موقع پر ہی سندھ حکومت کے تمام اداروں کے بارے میں مناسب ہدایات جاری کر سکتے ہیں ۔ان احکامات سے عیاں ہے کہ عدالتی فرائض کی ادائیگی کے بعد سکولوں کے دورے سے جہاں ایک طرف ان کاعدالتی کام متاثر ہو تا ہے وہاں سکول کھولنے کے احکامات کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔ سیشن جج نے اپنے عدالتی حکم کے آخر میں لکھا ہے کہ انہوں نے 1997کے اینٹی ٹیررسٹ ایکٹ پر عمل کیا لیکن اس کی تعریف میں درج ہے کہ جو کوئی بھی محکمہ صحت اور تعلیم کو تباہ کرے گا ، نقصان پہنچائے گا یا اس کی تذلیل کرے گا اس کے خلاف اے ٹی اے کے تحت مقدمہ درج کیا جائے گا، تا ہم سیشن جج کے مطابق سپر وائزر اور ٹیچر جو تعلیم یافتہ اورمعاشرے کےذمہ دا ر فرد ہیں فرائض کی ادائیگی میں ان کےرویے اور عمل کے نتیجے میں قوم تباہ اور پتھر کے زمانے میں گنی جا سکتی ہے ،چنانچہ انتہائی مجبوری کی حالت میں ایس ایچ او جوہی کو دونوں کے خلاف اے ٹی اے کے تحت مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا گیا ہے، انہوں نے سیکرٹری ایجوکیشن کو بھی حکم دیا ہے کہ دونوں کومعطل اور تنخواہ بھی بند کی جائے ، یہاںیہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ دادو صوبہ سندھ میں واحد ضلع ہے جہاں ٹیچرز کے خلاف اے ٹی ا ے کے تحت مقدمات کا اندراج کیا گیا ہے۔ 

تازہ ترین