• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منزل تو کھوٹی ہونی ہی تھی، متاع کارواں بھی لٹ گیا اور اصل نقصان یہ ہوا ہے کہ کارواں کے دل سے احساس زیاں بھی جاتا رہا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ احساس زیاں کو مٹانے میں ہمارے سیاسی کلچر کا کردار سب سے اہم ہے کیونکہ ہماری سیاست کی بنیاد ہی کرپشن پر ہے۔ سیاسی عمارت کی جس اینٹ کو ہاتھ لگایئے نیچے سے کرپشن برآمد ہوتی ہے اور پھر اس طرح کی کرامات دیکھنے میں آتی ہیں جس کی عملی شکل بلوچستان میں جھلک دکھا کر غائب ہوگئی۔ سیاسی منڈی لگی، خاموشی سے خرید و فروخت کا سلسلہ جاری رہا۔ جب صوبائی حکومت لڑکھڑاتی نظر آئی تو تجزیہ نگاروں کے ساتھ ساتھ حکومتی پارٹی کے ترجمانوں نے بھی فوج کے کردار کے حوالے سے شکوک کی چنگاریوں کو ہوا دینا شروع کردی۔ اراکین کی بدلتی وفاداریوں کو عسکری ایجنسیوں کے کھاتے میں ڈالا جاتا رہا۔ جب مطلع صاف ہوا تو راز کھلا کہ مسلم لیگ (ن) کا ایک سیاسی حریف ہاتھ دکھا گیا بلکہ ہاتھ کر گیا۔ اس واردات کا واضح پیغام تھا کہ پاکستان کی سیاست کی بنیاد اخلاقی اصولوں پر نہیں بلکہ کرپشن پر ہے، پاکستان کی جمہوریت دولت کی غلام ہے اور اسے دولت کی بنیاد پر لونڈی بنایا جاسکتا ہے۔ اسی پس منظر میں زرداری صاحب کے ایک دوست کبھی کبھی خود احتسابی کے موڈ میں ہوں تو ان کی زر پرستی کا راز میاں صاحب کے لعل و جواہرات میں ڈھونڈھتے ہیں۔ ان کا تجزیہ فقط اتنا سا ہے کہ جب زرداری صاحب محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ پہلی بار اقتدار میں آئے تو انہیںاحساس ہوا کہ ان کے حریف نہایت دولت مند ہیں اور اسی چمک میں ان کی کامیابی کا راز مضمر ہے۔ چنانچہ انہوں نے چمک کے میدان میں اپنے حریفوں کو شکست دینے کے لئے دولت اکٹھی کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ منصوبہ بندی اتنی کامیاب رہی کہ محترمہ دوسری بار بھی وزیراعظم بن گئیں اور زرداری صاحب تمام تر مبینہ الزامات کے باوجود اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر مملکت بن گئے۔ کرپشن کی کہانیوں کے پہاڑ ان کی راہ میں حائل نہ ہوسکے اور اگر محترمہ زندہ رہتیں تو پھر وزیراعظم بنتیں۔ مطلب یہ کہ کارواں نے نہ صرف منزل کی آرزو کھو دی ہے بلکہ کارواں کے دل سے احساس زیاں بھی جاتا رہا ہے۔ اس کا سادہ سا مفہوم یہ ہے کہ پاکستان میں اب کرپشن، سیاست کے ذریعے دولت کے انبار لگانا اور بیرون ملک اثاثوں پہ اثاثے بنانا کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ مسئلہ وہ ہوتا ہے جسے عوام اہمیت دیں اور رائے کا اظہار کرتے ہوئے اسے وقعت دیں۔ جب عوام کسی مسئلے سے ذہنی طور پر سمجھوتہ کرلیں اور شکست تسلیم کر کے اسے پس پشت ڈال دیں تو سمجھ لیجئے کہ سیاسی زندگی میں یہ مسئلہ اپنی اہمیت اور وقعت کھو چکا ہے۔ چنانچہ ووٹ دیتے ہوئے رائے دہندگان امیدوار کی مالی کرپشن یا اپنے عہدے سے ناجائز مفادات کشید کرنے کو کوئی الزام یا برائی نہیں سمجھتے اور نہ ہی کسی امیدوار کو صرف اس لئے ترجیح دیتے ہیں کہ اس کا دامن کرپشن اور شرعی عیوب سے پاک و صاف ہے۔ عام انتخابات سے لے کر ضمنی انتخابات تک آپ کامیاب امیدواروں اور ان کی سیاسی جماعتوں کی شہرت پر نظر ڈال لیں تو آپ کو کافی حد تک اندازہ ہو جائے گا کہ ہماری جمہوریت کرپشن سے تقریباً بے نیاز ہو چکی ہے۔ رائے دہندگان دولت سازی کو سیاسی حقیقت تسلیم کر چکے ہیں اور رائے کا اظہار کرتے ہوئے امانت و دیانت کے بجائے امیدوار کی دیگر صفات کو ذہن میں رکھتے ہیں جن میں امیدوار کا اثر و رسوخ، ووٹروں کے کام کرنے کی صلاحیت، برادری ازم، ذات پات، جماعتی ٹکٹ، ڈیرے داری وغیرہ شامل ہیں۔
آج کل سینیٹ کے انتخابات کی چاپ سنائی دے رہی ہے۔ میں ان انتخابات کے اس پہلو پر تبصرہ کرنا وقت کا زیاں سمجھتا ہوں کہ کل تک ہمارے جگادری تجزیہ نگار سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے نہ صرف شکوک کا اظہار کررہے تھے بلکہ ان کے پس پردہ گرینڈ ڈیزائن تلاش کر کے ہر پیشرفت اور ہر واقعے کو اس گرینڈ ڈیزائن کا حصہ قرار دیتے تھے۔ شروع شروع میں بلوچستان اسمبلی میں عدم استحکام اور پھر قیادت کی تبدیلی کو بھی اسی حکمت عملی کا حصہ قرار دیا گیا اور عسکری قوتوں پر الزامات کے تیر برسائے گئے۔ ہمارے عالم و فاضل تجزیہ نگاروں کے لئے یہ مقام غور و فکر ہے کہ پاکستان میں سازشی تھیوری کیوں اس قدر تیزی سے مقبول ہوتی اور دلوں کو چھوتی ہے۔ سازشی تھیوریاں یا تو ان معاشروں میں کامیاب ہوتی ہیں جہاں گھٹن ہو، میڈیا آزاد نہ ہو اور اظہار پر پہرے بیٹھے ہوں یا پھر یہ معاشرے کی ذہنی بیماری کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔ ذہنی بیماری کا سبب اعتماد کا فقدان، سیاسی بلوغت کا قحط، ناخواندگی کا مرض اور شک کی نفسیات ہوتے ہیں۔
ذکر ہورہا تھا کہ کرپشن اب ہماری سیاسی زندگی میں کوئی مسئلہ نہیں رہی۔ دیکھ لیجئے کہ سینیٹ کے انتخابات کی قربت نے خرید و فروخت کا بازار گرم کر دیا ہے۔ جب ٹی وی چینلوں پر سینیٹ کے لئے ایک ایک ووٹ کی قیمت پانچ کروڑ سے لے کر پچاس کروڑ تک بتائی جائے اور اراکین اسمبلیاں اور بعض اہم سیاسی شخصیات برملا کہیں کہ انہیں پچاس کروڑ آفر کئے گئے ہیں تو اس کا معاشرے پر کیا اثر پڑے گا؟ ہر ووٹر جانتا ہے کہ اراکین اسمبلیوں کو ترقیاتی منصوبوں کی آڑ میں کروڑوں اربوں روپے ملتے ہیں حالانکہ یہ کام اراکین اسمبلیوں کا نہیں بلکہ بلدیاتی اداروں کا ہے۔ لوگ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ برسراقتدار پارٹی کے اراکین کو کیوں نوازا جاتا ہے اور کس طرح وہ ان وسائل سے انتخابات میں کامیابی کو یقینی بناتے ہیں اس کے باوجود عام طور پر وہ انہی کو ووٹ دیتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک کرپشن اب منفی فیکٹر نہیں رہا۔ لوگوں کوصالح، ایمان دار اور صادق و امین نمائندگان نہیں چاہئیں کیونکہ ہماری سیاست نے ان اقدار کو پروان چڑھنے ہی نہیں دیا۔ یقین رکھیں کہ گندگی کے تالاب میں نرگس کے پھول نہیں کھلتے۔ ہمارے محترم میاں نواز شریف صاحب سپریم کورٹ پر بار بار کڑی تنقید کرتے ہیں۔ حالانکہ انہیں سپریم کورٹ کا ممنون اور شکرگزار ہونا چاہئے جس نے انہیں اقتدار سے محروم کر کے مظلوم بنا دیا ہے اور عام انتخابات سے چند ماہ قبل ان کے حق میں ہمدردی کی لہر پیدا کردی ہے۔ ان کی حکومتی کارکردگی اپنی جگہ لیکن اس ہمدردی کی لہر نے ان کے ووٹ بینک میں اضافہ کردیا ہے اور ان کی سیاسی کشش کوکرشمہ بنا دیا ہے جس کا مظاہرہ نہ صرف ان کے جلسوں میں نظر آتا ہے بلکہ ضمنی انتخابات میں پے در پے کامیابیاں بھی اس کی مرہون منت ہیں۔ ان کے مخالف کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے ہاتھ ہلکا رکھا اور انہیں کرپشن کے الزام میں نکالنے کے بجائے اقامہ کو بنیاد بنایاجس سے انہیں سیاسی مہم چلانے کا شاندار موقع ملا۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی ماحول میں اگر ان پر کرپشن کا الزام بھی لگا کر نکالا جاتا تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا تھا کیونکہ عوامی سطح پر کرپشن اب کوئی فیکٹر یا مسئلہ نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ سینیٹ کے ٹکٹ ایسے حضرات کو بھی دیئے گئے ہیں جن کی شہرت داغ دار ہے لیکن وفاداری مسلمہ ہے۔ اگر کرپشن اہم فیکٹر سمجھا جاتا تو کرپٹ عناصر کو سینیٹ میں پہنچانے کی جرات نہ کی جاتی۔
اسی طرح اگر میاں صاحب نااہل بھی رہتے ہیں تو کچھ عرصہ کے لئے ان کا بادشاہ گر کا رول، سیاسی مقام اور ووٹ بینک بہرحال قائم رہے گا اور سیاسی قیادت ان کی تابع فرمان رہے گی۔ گویا حکومت کا ریموٹ کنٹرول ان کے ہاتھ میں رہے گا۔ کتنا عرصہ؟ فی الحال اس پر تبصرہ قبل از وقت ہے لیکن ظاہر ہے کہ مفاد پرستوں کی وفاداری مفادات سے ہوتی ہے نہ کہ شخصیات سے۔

تازہ ترین