• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز کی پارٹی صدارت کو کالعدم قرار دیئے جانے سے سنگین مسائل ہونگے

Todays Print

اسلام آباد(تبصرہ:طارق بٹ)نواز شریف کی پارٹی صدارت کو کالعدم قرار دیئے جانے کی صورت میں سنگین مسائل پیدا ہونگے۔3مارچ کےسینیٹ انتخابات میں تاخیر سمیت ٹکٹ کے حامل امیدواروں کو بھی انتخابی عمل سے باہر کیا جاسکتا ہے۔عدالت عظمیٰ اگر معزول وزیر اعظم نواز شریف کے بطور ن لیگ کے صدر امیدواروں کو سینیٹ ٹکٹ دینے کے اختیار کو کالعدم قرار دیتی ہے تو 3مارچ کے سینیٹ انتخابات میں تاخیر سمیت سنگین مسائل سامنے آسکتے ہیں۔یہ معلوم نہیں ہے کہ فیصلہ سینیٹ انتخابات سے قبل یا بعد میں سنایا جائے گا ، جس کے انعقاد میں اب صرف 15دن باقی رہ گئے ہیں ۔اعلیٰ عدالتی فورم 21فروری کو سماعت کا دوبارہ آغاز کرے گا جو کہ معزول وزیر اعظم کے ایک مرتبہ پھر ن لیگ کے صدر بننے سے متعلق ہے ۔یہ واضح نہیں ہے کہ فیصلہ آنے میں کتنے وقت درکار ہوگا۔ایک سوال یہ بھی پیدا ہوگا کہ کیا ن لیگ ٹکٹ کے حامل امیدوار وں کو بھی کیا انتخابی عمل سے باہر کردیا جائے گا اور ان کے مخالفین کے لیے میدان کھلا چھوڑدیا جائے گا ، دوسرا مسئلہ یہ کہ کیا ن لیگ کے کامیاب امیدوار وں کو کیا عہدے سے ہٹادیا جائے گا ، جو کہ بہر صورت ٹکٹوں کیتقسیمکے خلاف کسی بھی فیصلے سے قبل مکمل طور پر جائز ہو گا۔اس کے علاوہ ایک سوال یہ بھی کہ کیا فیصلہ ان کے درست انتخابی عمل کی ان کی واپسی کے بعدتوثیق کرے گا۔کیا ن لیگ کو اس کے نئے منتخب ہونے والے پارٹی صدر کی جانب سے دوبارہٹکٹسدینے کی اجازت دی جائے گی۔ایک اور سوال یہ کہ اگر فیصلے سے ٹکٹ حاصل کرنے والوں کو نقصان پہنچنے کی صورت میں کیوں کہ نوا ز شریف کو ٹکٹ دینے کی اجازت نہ دیئے جانے کی صورت میں کیا وہ ایوان بالا کے انتخابی عمل میں شریک ہونے کے اپنے آئینی حق سے محروم ہوجائیں گے ۔تاہم اگر ن لیگ کے صدر کو عہدے کے لیے اعلیٰ عدالت نااہل قرار دیتی ہے تو ان کی پارٹی کو نیا صدر منتخب کرنے کے لیے کچھ وقت تو درکار ہوگا، جو قانونی طور پر سینیٹ امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرے گا۔اگر ان کے امیدواروں کو انتخابی عمل میں شریک ہونے کی اجازت نہ دی گئی توکیا ن لیگ سینیٹ انتخابات کا بائیکاٹ کرے گی ؟بدتر صورت حال یہ ہوسکتی ہے کہ ن لیگ کے ارکان اسمبلی عدالتی فیصلے کے بعد انتخابی عمل میں شریک ہی نہ ہوں اور پنجاب اسمبلی میں خاص طور پر صرف چند ووٹ ہی حزب اختلاف کی جانب سے ڈالے جائیں گے ۔اس طرح دیگر پارلیمانی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے امیدوار صرف چند ووٹوں سے ہی کامیاب ہوں گے ۔کیا یہ عمل درست اور قانونی ہوگا کہ تقریباًپوری صوبائی اسمبلیوں کے حقوق ضبط کرلیے جائیں؟ان میں سے کچھ سوالات شاید پیدا ہی نہ ہوں ، لیکن اس کا دارومدار عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر ہوگا۔یہ سمجھا جارہا ہے کہ عدالتی فیصلے میں ان سب باتوں کا خیال رکھا جائے گا کیوں کہ عدالت عظمیٰ کئی مرتبہ کہہ چکی ہے کہ وہ جمہوری عمل کو نقصان یا آئین کے خلاف کچھ نہیں کرے گی۔گزشتہ کئی ماہ سے ایک مضبوط مہم سینیٹ انتخاب کو روکنے کے لیے چلائی جارہی ہے ، جس کا مقصد ن لیگ کو ایوان بالا کی سب سے مضبوط جماعت بننے سے روکنا ہے کیوں کہ ن لیگ اس وقت عددی اعتبار سے سب سے مضبوط جماعت ہے جو سینیٹ چیئرمین تقریبا دو دہائیوں بعد اپنی اتحادی جماعتوں کی مدد سے منتخب کراسکتی ہے۔پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اور دیگر کی جانب سے دائر کردہ پٹیشنز پر تین رکنی بینچ جس کی سربراہی چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کررہے ہیں جب کہ ان کے ساتھ جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن ہیں جو کہ الیکشن ایکٹ ،2017کے درست ہونے کا جائزہ لے رہے ہیں، خاص طور پر اس کے سیکشن 203پر سماعت ہورہی ہے جس کے تحت نااہل شخص بھی پارٹی سربراہ بن سکتا ہے۔نواز شریف کے سینیٹ ٹکٹس دینے کے معاملے کے قانونی جواز سے متعلق سوال خود چیف جسٹس نے دوران سماعت اٹھایا تھا۔ن لیگ کے وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا تھا کہ نااہل شخص کی جانب سے ٹکٹس جاری کرنے کے باعث پوری جماعت غلط نہیں ہوجائے گی ۔نااہل شخص پارلیمنٹ نہیں آسکتا لیکن وہ پارٹی چلا سکتا ہے، ایک شخص جو کہ اس ٹکٹ پر منتخب ہوجاتا ہے وہ اپنی عقل استعمال کرکے نتائج دے سکتا ہے اور وہ پارٹی سربراہ کے زیر اثر نہیں ہوگا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ فیصلے کا اطلاق ماضی سے نہیں ہوگا۔

تازہ ترین