• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ کئی دنوں سے سوشل میڈیا کی اہمیت افادیت اور نقصانات کے متعلق ایک بحث چھڑی ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا ہمارے نوجوانوں میں منفی سرگرمیوں اورمنفی انداز زندگی کو زیادہ تیزی سے فروغ دے رہا ہے۔ جس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ سوشل میڈیا سے متعلق کوئی منظم ریگولیشن نہیں ہے اور ہمارے نوجوانوں کو منفی رحجان کی طرف مائل کرنے والے اس کا بھرپور فائدہ اٹھارہے ہیں۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر باجوہ نے متعدد مواقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ نوجوان ہمارے مستقبل کا انتہائی قیمتی اثاثہ ہیں اور ہم اس اثاثے کو کسی منفی تحریک یا دہشت گردی کے ہاتھوں تباہ نہیں ہونے دیں گے۔ حالیہ کچھ عرصے میں بہت سے واقعات سامنے آئے جن میںانتہائی معتبر تعلیمی اداروں کے طلبا انتہا پسندی کی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے اور گرفتاری کے بعد سب نے ہی یہ تسلیم کیا کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے اس نام نہاد انتہاپسند سوچ سے متاثر ہوئے اور اس کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح ایک طالبعلم اس طرح کی سوچ کا اسیر ہوجاتا ہے یا اس انتہا پر جاکر سوچنے لگتا ہے کہ سب کچھ جھوٹ اور فریب ہے اور اُسے اس کو دلیل سے نہیں بلکہ غلیل سے بدلنے کی ضرورت ہے۔ دراصل یہ سوچ نوجوانوں میں پچھلے دو تین سالوں میں بہت شدت سے پیدا ہوئی جب سوشل میڈیا کے ذریعے کچھ عاقبت نا اندیشوں نے پاکستان کو ایک ناکام اور نااہل ریاست کے طور پر پیش کیا اور اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے وہ سوشل میڈیا ہی نہیں بلکہ میڈیا اور جلسے جلوسوں کا بھی سہارالینے لگے ۔جس سے نوجوانوں میں ریاست کے خلاف بغاوت کی سوچ طاقتور ہوتی چلی گئی اور انھوں نے اپنے تعلیمی اداروں سمیت ہر قومی ادارے کو مذاق سمجھ لیا اور ان سے منسلک افراد کو ریاست کے دشمن کے طور پر لینا شروع کردیا۔ کچھ زبان و بیان تک محدود رہے کچھ اس سے آگے نکل گئے، کچھ سیاسی میدان تک محدود رہے، کچھ جھگڑے اور فساد کا حصہ بن گئے اور جب ہمارے ہی کچھ دوستوں کی طرف سے ان کے اس عمل کی حمایت ہونے لگی تو اس سوچ میں مزید شدت آگئی اور زیادہ سے زیادہ نوجوان اس کی طرف راغب ہوگئے ۔جن میں سے کئی دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ گئے جنہوں نے مسیحا کے روپ میں اپنے آپ کو پیش کرکے ان نوجوانوں کو دہشت گردی کا حصہ بننے کے لئے تیار کیا۔ اگر واقعی نوجوانوں کو اس طرح کے عوامل سے دور رکھنا ہے تو سب سے پہلے انھیں ایک تمیز دار معاشرے کا حصہ بنانا ہوگا۔ کیونکہ انتہا پسندی کا حصہ و ہی نوجوان بنتا ہے جس کے نزدیک سب کچھ جھوٹ اور بے ایمانی ہے سوائےاس کے جو وہ کرنا چاہتا ہے ۔ ایک پُر امن اور کامیاب معاشرے کے لئے پہلے نوجوانوں کو اخلاق اور تمیز کے دائرے میں لانا ہوگا جہاں وہ دی گئی تعلیمات کا احترام کریں اور اگر کوئی اس سے انحراف کرتا ہے تو اُس کا بائیکاٹ۔ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی متعدد تقاریر میں آپ کو قائد اعظم کی دی گئی تعلیمات اور ہدایات کا عکس نظر آئے گا۔
ستمبر 1947 میں اسلامیہ کالج پشاور کے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے مستقبل کے معماروں کو اتحاد تنظیم اور یقین محکم کو اپنا شعار بنانے کے ساتھ ساتھ معاشرےکے اندر اپنی اخلاقی اقدار بلند کردار اور سچ کا طرفدار بن کر رہنے اور قائم رکھنے پر زور دیا ۔انھوں نے کہا تھا کہ ایک معاشرہ اُسی وقت ترقی کرسکتا ہے جب اُس میں زبان و اخلاق کا خیال رکھا جائے،ادب و احترام سے کوئی سوال رکھا جائے نہ کہ بدتمیزی و بدزبانی کو شامل حال رکھا جائے۔ بصورت دیگر وہ ایک ایسی بنجر زمین بن جاتا ہے جہاں پر کامیابی کی فصل اُگنا ناممکن ہوتا ہے۔ یہ ہی درس زندگی خاتم النبین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے نہ صرف احادیث مقدس کے ذریعے بلکہ اپنے طرز زندگی کے ذریعے بھی دیا ہے ۔جس طرح ایک منظم سازش کے تحت ہمارے معاشرے خصوصاً نوجوانوں کو ادب اوراحترام کے اُس دائرے سے باہر نکال کر جو کبھی ہمارا فخر ہوتا تھا بدتہذیبی اور بدتمیزی کی ایک ایسی ڈگر پر ڈالا جارہا ہےکہ جہاں سے واپس آتے آتے نہ جانے کتنے اور سال لگ جائیں اور ہمارے معاشرے کی حقیقی اقدار جن ہر ہمیں ناز ہے کہیں تاریخ میں جا سوجائیں۔ آرمی چیف نے انتہائی واضح الفاظ میں اکثر کہا ہےکہ نوجوانوں کو انتہا پسندی کی سوچ سے دور رکھنے کے لئے اساتذہ اور میڈیا کی بہت بڑی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قوم کو سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا سکھائیں۔ جو کہ یقیناً ہمارے اُن نام نہاد دانشوروں مفکروں اور تجزیہ نگاروں جو کہ معاشرے کو بدتہذیبی کے انگاروں پر دھکیل رہے ہیں اور ہر رات ٹی وی پر بیٹھ کر اس قوم کی صبح سے کھیل رہے ہیں ،کے لئےایک پیغام ہے کہ آپ اپنے اس اداکارانہ انداز کو اپنی اس ڈوبتی آواز کو جھوٹ پر مبنی ہر قیاس اورسازش کے پیچھے چھپے ہر راز کو چھوڑ کر اس قوم کے نوجوانوں کو ایک مستحکم و محترم پاکستان کی تعمیر کی طرف راغب کریں نہ کہ ایک ایسی مایوسی کوقوم میں پھیلانے کی سازش کا حصہ بنیں ۔میں گزشتہ بیس سال سے اخبارات اور ٹی وی کے ایک حصے پر مسلسل ریاست پاکستان کی تباہی اور بربادی کا پروپیگنڈہ سُن رہا ہوں۔ اس کے پیچھے کوئی تو ہے جو سامنے نہیں آتا جس نے قوم کو ہمیشہ یہ نعرہ دیا کہ جاگو پاکستان تباہ ہورہا ہے ہمارے حکمران ہمارے دشمنوں سے مل گئے ہیں اور اگر ابھی ان کے خلاف کھڑے نہیں ہوئےتو یہ ملک برباد کردیں گے۔
اور یہ سلسلہ شاید تیس پینتیس سالوں سے چل رہا ہے اس دوران بفضل خدا پاکستان سلامت ہے مگر دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں تباہ ہوگئیں تیس چالیس سال سے پاکستان کی بربادی کا خواب دیکھنے والے جان لیں کہ بدترین سازشوں دہشت گردی ،دشمن پڑوسی ممالک ،سنگین معاشی بحرانوں اور اندرونی دشمنوں کے باوجود ہم نے نہ صرف طرزِ زندگی بہتر بنایا ،جی ڈی پی میں بہتری آئی، اس ریاست کو مستحکم رکھا بلکہ آج ہم ایک نیوکلیئر طاقت اوراسلامی دنیا کی ایک انتہائی معتبر ریاست ،سی پیک جیسی عظیم نعمت کے حامل پروجیکٹ کے مالک ہیں ۔یقیناً ہم مسائل کا بھی شکار ہیں مگر چاہے دنیا کا طاقتور ترین یا معاشی اعتبار سے کامیاب ترین ملک بھی ہو کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی حوالے سے مسائل کا شکار ہے۔ لہذا صرف مسائل کو بنیاد بناکر ان گنت کامیابیوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور قوم کو مجبور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کامیابیوں پر تو اپنی آنکھیں بند رکھے مگر کسی بھی مسئلے پر ملک کے خلاف سازشیں کرنے والوں کا آلہ کار بن جائے۔ معاشرے کے بگاڑ کاذریعہ بننے والوں سے تو کوئی شکایت نہیں کیونکہ ہوسکتا ہے اس انداز گفتگو سے اُن کا دال دلیا وابستہ ہو مگر یقیناً اس طر ح کے طرزِ عمل کی حمایت کرنے والوں سے ضرور سوال پوچھنے کی جرات کرتا ہوں کہ کیا وہ اپنی نسلوں کے لئے اس طرح کا معاشرہ چاہتے ہیں جہاں جھوٹ کی بنیاد پر بدتہذیبی اور بداخلاقی کی ایسی عمارتیں تعمیر کی جائیں کہ جس کے مکینوں کو اچھے اور برے کا فرق ہی محسوس نہ ہواور بعد ازاں یہ ہی نسلیں دہشت گردوں کا قابل فخر ہتھیار بن جائیں۔فیصلہ آپ پرہے۔

تازہ ترین