• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کروڑوں کا فنڈ چند جیبوں میں جائے توبھی نوٹس لینا غلط؟چیف جسٹس سندھ

حیدرآباد ( بیورو رپورٹ) چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس احمدعلی ایم شیخ نے کہاہے کہ عدلیہ ظلم اورناانصافی کاشکار مظلوموں کاآخری سہاراہے‘ مظلوم کی آواز پر انصاف کے ساتھ فیصلہ کیاجائے‘ انصاف کی فراہمی پر کبھی کبھی عدلیہ پر تنقید ہوتی ہے کہ عدلیہ دیگر امور میں ٹانگ نہ اڑاے‘ جب مریضوں کو اسپتال میں دھکے دیئے جائیں‘ ان سے جینے کاحق بھی چھین لیاجائے‘ کروڑوں روپے کا فنڈ چند لوگوں کی جیب میں چلاجائے تو کیا پھر بھی نوٹس لینا غلط ہے‘ عدلیہ غریبوں اورمظلوموں کاآخری سہاراہے‘ جب استاد اسکولوں میں نہیں آتے تو ججوں کو جاکر دیکھناپڑتاہے ‘ججز کسی سے نہ ڈریں انہیں اپنے ضمیر اورخداکو جواب دینا ہے۔ ان خیالات کااظہارانہوں نے ہفتہ کی شب حیدرآباد ڈسٹرکٹ بار کی جانب سے دیئے گئے عشائیہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر سندھ ہائی کورٹ کے سینئر ججز جسٹس محمدعلی مظہر‘ جسٹس عبدالرسول میمن‘ جسٹس عزیز الرحمن کے علاوہ سندھ ہائی کورٹ کے ججز جسٹس عبدالمالک گدی‘ جسٹس ظفراحمد راجپوت‘ جسٹس خادم حسین شیخ‘ جسٹس محموداے خان‘ جسٹس جنید غفار‘ جسٹس ارشد حسین خان‘ جسٹس محمدسلیم جیسر‘جسٹس خادم حسین تینو‘ جسٹس عمر سیال‘ جسٹس عدنان الکریم‘ جسٹس آغا فیصل‘ جسٹس عدنان اقبال چوہدری‘ حیدرآباد ہائی کورٹ بار کے صدر ایاز تینو‘ جنرل سیکریٹری عشرت لوہار‘ ڈسٹرکٹ اینڈسیشن جج حیدرآباد امجد علی بوھیو‘ سپریم کورٹ‘ سندھ بارکونسل کے اراکین‘ جامشورو‘ مٹیاری‘ ٹنڈوالہ یار‘ ٹنڈو محمد خان‘ جامشورو ڈسٹرکٹ بار کے صدور‘ جنرل سیکریٹریز اور بار کے دیگر عہدیداران بھی موجود تھے۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ احمدعلی شیخ نے اپنے خطاب میں کہا کہ حیدرآباد نام حیدرکرارؓ کے نام پر ہے‘ حیدرآباد والوں کے دل بھی اتنے بڑے ہیں‘ مجھے آئین پاکستان کاترجمہ کاتحفہ دیا گیاہے ‘ہم نے پاکستان اور آئین سے وفاداری کاحلف اٹھایا ہے اس پر آخری وقت تک قائم رہیں گے‘ سندھ کے صوفی بزرگ شاہ عبداللطیف کارسالہ تحفہ میں جو میرے روحانی رہبر ہیں ‘حیدرآباد میراشہر ہے زندگی کے بہترین لمحات یہاں گذارے ہیں ہرگلی سے آشنائی ہے آج بھی دل چاہتاہے کہ ان گلیوں میں گھوموں ۔ انہوں نے کہا کہ ڈسٹرکٹ بار کے صدر نے جن مسائل کی نشاندہی کی ہے اس پر خوشی ہے ۔انہوں نے کہا کہ نوجوان لاءگریجویٹس کی تربیت کے حوالے سے سندھ جوڈیشل اکیڈمی بھی یہ کام پہلے ہی شروع کرچکی ہے جہاں سندھ بھر کے نوجوان وکلا تربیت حاصل کررہے ہیں۔ سول کورٹ کینٹین کے لئے فنڈز کے حوالے سے کہا کہ اس حوالے سے سیشن کورٹ کے حلف نامے کے فنڈز سے ملنے والی ماہانہ رقم کو 40ہزارسے بڑھ کر 60ہزارکردیاہے ۔ وکلا کے مشاورتی کمروں کے مطالبہ پر اس سال اس کام کی شروعات کردی جائے گی ‘سیشن اورسول کورٹ کوملانے کے لئے اوورہیڈ برج کامسئلہ بھی حل کرینگے اوراسی سال اس پر بھی کام شروع کرینگے ۔لائبریری میں کتابوں کی کمی کے لئے فہرست فراہم کی جائے جلد یہ کتابیں انہیں مل جائیں گی ۔چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ ہماری زندگی بھی عجیب ہے اپنے فرائض کی وجہ سے گھروالوں کو بھی وقت نہیں دے پاتے تاہم ہمارے ضمیر مطمئن ہیں جو ذمہ داری ملی ہے اس کو پوری دیانتداری سے پوراکررہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ معاشرے میں ظلم اورناانصافی کے لئے مظلوموں کاآخری سہارا عدالتیں ہیں لوگ مجبوری میں ہمارے پاس آتے ہیں مظلوم کی آواز پرانصاف کے ساتھ فیصلے کئے جائیں کیونکہ انصاف کی فراہمی خدائی صفت ہے کبھی کبھی عدلیہ کے فیصلوں پر تنقید بھی ہوتی ہے کہ دیگرکاموں میں ٹانگ نہ اڑائے‘لیکن جب مریضوں کو اسپتالوں میں دھکے دیئے جائیں اس وقت کیا نوٹس لیناغلط ہے جب جینے کاحق بھی چھین لیاجائے اورکروڑوں روپے کے فنڈز چند لوگوں کی جیب میں چلے جائیں تو غریب آدمی کیا کرے اورغریب ‘مزدور ‘دردوں کے مارے عدالت نہ جائیں تو کہاں جائیں۔ انہوں نے کہا کہ وکیل حضرات روز روزی روٹی کے لئے گھروں سے نکلتے ہیں ‘ وکلا گھروں سے نکلیں تو دیکھیں کہ وہ جن اسکولوں سے پڑھے ہیں ان کی کیاحالت ہے اسپتالوں کاجائزہ لیں آج اساتذہ اسکول نہیں جاتے‘ اسکولوں کی بیرونی دیواریں نہیں ہیں ‘ وکلا ہفتہ میں ایک دن نکال کر ان اداروں کادورہ کریں حکومت کے پاس فنڈز موجود ہیں لیکن خرچ نہیں ہوتے ۔وکلا کو پتہ ہے کہ مسائل کہاں کہاں ہیں ‘لوگ داخلہ نہ ہونے ‘ ترقیاں نہ ہونے دیگرمسائل کے حل کے لئے آپ کے پاس آتے ہیں‘لیکن معاشرے کے اجتماعی مسائل پر کیوں نہیں سوچتے ۔انہوں نے کہا کہ ہم اپنی جدوجہد سے معاشرے کے تمام دکھ اور درد دور تو نہیں کرسکتے لیکن کم ضرورکرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حیدرآباد کیسز کے حوالے سے خوش قسمت ہے کہ سیشن جج حیدرآباد محنتی اورایماندار آفیسر ہیں نوجوان ججز بہت اچھاکام کررہے ہیں ان کی کارکردگی سے خوش ہوں ‘انہیں چیف جسٹس یا کسی سے بھی ڈرنا نہیں چاہیے وہ اپنی کارکردگی پر اپنے ضمیراور خداکے آگے جوابدہ ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ دودو سال ہوجاتے ہیں لوگوں کوانصاف نہیں ملتا‘ انصاف کے حصول میں دیر ہوئی تو ہم سمجھیں گے کہ لوگوں کوانصاف فراہم نہیں کرسکے۔انہوں نے کہا کہ ہمارا فرض ہے کہ اپنے مسائل کے باوجود مختصر زندگی میں اچھی کارکردگی کامظاہرہ کریں ۔انہوں نے پیسہ بنانا‘ برانڈڈکپڑے پہننا ‘مرسیڈیز گاڑیاں اوربینک بیلنس حقیقی زندگی نہیں ‘اندر کا اطمینان ضروری ہے ‘حقیقی سکون لوگوں کی خدمت سے ملے گا ۔انہوں نے کہا کہ جن کے پاس دووقت کی روٹی نہیں ہے ان کے فیصلے جلد کئے جائیں۔قبل ازیں معزز مہمانوں کو سندھی اجرک اورٹوپی کے تحائف پیش کئے گئے۔ صدر ڈسٹرکٹ بار امداد انڑ نے خطبہ استقبالیہ میں چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کی حیدرآباد آمد پر شکریہ ادا کیا اورمسائل سے آگاہ کیا۔  دریں اثنا چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس احمد علی شیخ نے کہا ہے کہ معاشرے میں عجیب صورتحال ہے اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی حاضری یقینی بنانے کےلئے بھی جج بھیجنا پڑتے ہیں جج کیا کیا کریں عدالتی امور دیکھیں یااسپتالوں کو سنبھالیں اچھی تنخواہ اور مراعات کے باوجود میں اپنی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہوں اور اس بات کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں میں غریب آدمی ہوں معاشرے کی بہتری کےلئے اگرہر شخص اپنا کردار ادا کرے تو سب ٹھیک ہوسکتا ہے انہوں نے کہا کہ جامشورو کو سندھ کا" آکفسورڈ" ہونا چاہیے تھاہماری کوتاہیوں کے سبب اس میں کوئی بہتری نہیں آئی ۔یہ بات انہوں نے کوٹری جوڈیشل کمپلیکس میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس محمد علی مظہر ،جسٹس ظفر علی راجپوت ،جسٹس عدنا ن کریم ،جسٹس عبدالمالک گدی ،جسٹس سلیم جیسر ،جسٹس خادم حسین شیخ ،جسٹس امجد علی سہتواور انسداد دہشتگردی عدالت کے جج عبیداللہ پٹھان سمیت دیگر ججوںاور وکلاءکی بڑی تعداد موجود تھی ۔انہوں نے اسکا ذمہ دار وکلاءکو بھی ٹھراتے ہوئے مخاطب کیا کہ ایل ایم سی ہسپتال جامشورو کی کیا حالت ہے کبھی کسی نے اس جانب توجہ دی ہے۔تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے وکیلوں کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا ۔انہوں نے علامہ عمر بن داؤد پوتا اور علامہ آئی آئی قاضی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ موجودہ وائس چانسلر ان سے بھی زیادہ تعلیم یافتہ ہوں اور دو دو تین تین پی ایچ ڈی کی ڈگریاں بھی رکھتے ہوںلیکن کیا ان کے پاس وہ قلم ہے؟۔چیف جسٹس نے کہا کہ جامشورو سندھ کا گلدستہ ہے جب میں یہاں پڑھتا تھا تو مجھے یہاں کارونجھر، تھرپاکر، بلائی سندھ ،کوہستان سمیت سندھ کے کونے کونے سے تعلق رکھنے والے شاگرد یہاں ملتے تھے ۔انہوں نے کہا کہ بار اور بینچ کے درمیان مثبت رویے اور سوچ کے سبب ہم معاشرے میں بہتری لاسکتے ہیں، جیسے وکیل پیدا ہونگے جج بھی ویسے ہی ہونگے کیونکہ ججز بھی وکلاءمیں سے ہی بنتے ہیں۔انہوں نے وکیلوں پر زور دیا کہ اپنے پیشے کی زکوة نکالیں سرکاری اداروں میں غریبوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کےخلاف انکی مدد کریں۔انہوں نے کہا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کے بعد سندھ کے ادروں میں فنڈز کی کمی نہیں ایمانداری سے کام کیئے جائیں تو ہم اس خطے کو گل گلزار بنا سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سکھر ہائیکورٹ میںپانچ اور حیدرآباد سرکٹ میں چھ ججز ہیں تاہم کام کی زیادتی کو مد نظر رکھتے ہوئے انہوں نے وکلاءسے وعدہ کیا کہ وہ ساتواں جج بھی حیدرآباد کو دیں گے جس پر وکلاءنے تالیاں بجا کر خیر مقدم کیا۔ قبل ازیں چیف جسٹس نے تھانہ بولا خان میں سول کورٹ کی تعمیر ہونے والی عمارت کا سنگ بیناد بھی رکھا۔
تازہ ترین