اسلام آباد(رپورٹ :رانا مسعود حسین) عدالت عظمیٰ نے میڈیا کمیشن کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے سابق احکامات کی روشنی میں تشکیل دیئے گئے میڈیا کمیشن کی جانب سے صحافتی ضابطہ اخلاق سے متعلق پیش کی گئی سفارشات پرعملدرآمد اورپیمرا کو آزاد اور خود مختار ادارہ بنانے کے حوالے سے کی گئی سفارشات پر عدم عملدرآمد پر وفاقی حکومت سے 10روز کے اندرجواب طلب کرلیا ہے جبکہ ملک بھر کے میڈیا ورکروں کی تنخواہوں اور بقایا جات کی ادائیگی سے متعلق کیس کومیڈیا کمیشن کیس سے الگ کرتے ہوئے ایگزیکٹ کے چینل کے متاثرہ کارکنوں کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی سے متعلق کیس کو بھی اسی کیس کے ساتھ یکجا کردیا ہے جبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے، لیکن پارلیمنٹ سے اوپر آئین بھی ہے،آئین بالاترہے، پارلیمنٹ آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق سے متصادم کسی قسم کی قانون سازی نہیں کرسکتی، اگرخلاف آئین ہوگا تو مستردکرنیکااختیارہمیں آئین ہی دیتا ہے، اپناحق پوری قوت سے استعمال کرینگے،وضاحت نہیں دے رہا، نہ وضاحت دینے کا پابند ہوں، ہم وضاحت کو اپنی کمزوری نہیں بنانا چاہتے، ہم قطعا ً نہیں گھبرائیں گے بلکہ آئین اور قانون نے ہمیں جو اختیارات دیئےہیں،ان کا نیک نیتی سے استعمال کرینگے، میڈیا عدالتی ریمارکس کو سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش نہ کرے اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں، ہم نے انتظامیہ کے عمل اور بنیادی حقوق کو دیکھنا ہے، سوال پوچھ کر کیا پارلیمنٹرین کی توہین کر دی، آئندہ نہیں پوچھیں گے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے منگل کے روز کیس کی سماعت کی تو درخواست گزار حامد میر،وفا قی سیکرٹری اطلاعات احمد نواز سکھیرا،پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ اور دیگر فریقین مقدمہ پیش ہو ئے، اس موقع پر چاروں صوبوں اور وفاق کی جانب سے میڈیا کو جاری کیے گئے اشتہارات کی تفصیلات جمع کرائی گئیں۔درخواست گزار حامد میر نے کہا کہ پیمرا کو حکومتی تسلط سے آزاد ہو نا چا ہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر اس ادارے کی مس رپورٹنگ ہو جائے تو بہت غلط فہمیاں پیدا ہو تی ہیں، بار بار کہہ چکا ہو ں کہ پارلیمنٹ سپریم ہے، مگر پارلیمنٹ سے اوپر بھی ایک چیزہے اور وہ آئین ہے،ہم قطعا کمزور نہیں اور قطعاً وضاحت نہیں دے رہے ہیں، قطعا نہیں گھبرائیں گے، اللہ تعالیٰ اور آئین نے طاقت دی ہے اس کا بھرپوراستعمال کرینگے، ہمیں انتظامیہ کے عمل اور بنیادی حقوق کو دیکھنا ہے، عدالت قانون سازی کا جائزہ لینے کا اختیار رکھتی ہے، ہر ادارےکیلئے کچھ حدود مقرر ہیں، ایک کیس میں ریمارکس نہیں، چند سوالات پوچھے تھے، مقدمات میں سوالات اٹھتے ہیں اور اٹھانے پڑتے ہیں لیکن میں وضاحت دینے کو اپنی کمزوری نہیں بنانا چاہتا، میں کوئی وضاحت نہیں دے رہا اور نہ ہی دینے کا پابند ہوں، اگر پوچھیں کہ فلاں شخص اہل ہے یا نہیں، کیا سوالات پوچھ کر ہم نے پارلیمنٹ یا پارلیمنٹرینز کی توہین کی ہے ؟ عدالت کے سوال ریمارکس نہیں تھے، معاملے کو سمجھنے کیلئے سوال پوچھتے ہیں،جس پر حامد میر نے کہا کہ بعض لوگ آپ کے سوالات کا غلط مطلب لیتے ہیں، آپ پراپیگنڈا کرنے والوں پر توجہ نہ دیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ قطعاً کمزور نہیں،نہ ہی گھبرائیں گے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ میڈیا کمیشن کی کئی سفارشات پر عمل درآمد ہوگیا ہے، صرف پیمرا کی حکومتی اثر و روسوخ سے آزادی کی سفارش پر عمل نہیں ہوا،قانون کے مطابق بوقت ضرورت حکومت پیمرا کو ہدایت دے سکتی ہے جبکہ عدالت کو پالیسی کا جائزہ لینے کا مکمل اختیار ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ حکومت کے موقف سے ہٹ کر بیان دے رہے ہیں کیونکہ حکومت تو کہتی ہے عدالت کو کوئی اختیار ہی نہیں،جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ریگولیٹری اداروں کو حکومتی اثر سے مکمل آزاد ہونا چاہیے،جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت نے ہدایت دینے والا اختیار کبھی استعمال نہیں کیا،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پیمرا کے 12 میں سے 9 اراکین کو حکومت مقرر کرتی ہے اور اپنے ممبر لگا کر حکومت کو ہدایت دینے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی،چیف جسٹس نے کہا کہ پیمرا آرڈیننس کا مقصد آزاد ریگولیٹری ادارے کا قیام تھا، دیکھنا ہے کہ کیا میڈیا کمیشن کی سفارشات حکومت کو قبول ہیں، حامد میر نے کہا کہ حکومت نے 7ستمبر 2015 کو اسی عدالت میں پیمرا کو آزاد کروانے کی یقین دہانی کروا ئی تھی لیکن اس پر عمل نہیں کیا گیا، عدالت کے استفسار پروفاقی سیکرٹری اطلاعات احمد نواز سکھیرا نے موقف اختیار کیا کہ پیمرا انتظامی طور پر مکمل آزاد ہے اور ہم گزشتہ یقین دہانی میں کچھ ترمیم چاہتے ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ ممبران کی تقرری اور حکومتی ہدایات کے اختیار سے پیمرا بادی النظر میںخود مختار نہیں لگتا، جس پرانہوں نے کہا کہ حکومت نے آج تک صرف ایک ہی بار فیض آباد دھرنا کے موقع پر پیمرا کو ٹیلی ویژن چینلز بند کرنے کی ہدایت جاری کی ہے،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہدایات ایک ہوں یا زیادہ، تعداد سے فرق نہیں پڑتا، تاہم دیکھنا ہے کہ قانون میں مداخلت کی کوئی گنجائش ہے یا نہیں،سیکرٹری اطلاعات نے کہا کہ فیض آباد دھرنے کے دوران حکومت نے پیمرا کو ایڈوائز پر عمل نہ کرنے پر چینلز بند کرنے کی ہدایات کی تھی، جس پر چیف جسٹس نے واضح کیا کہ میں چینلز کھلوانے کیلئے حکم جاری کرنے ہی والا تھا کہ رجسٹرار نے چیئرمین پیمرا سے بات کی اور انھوں نے بتایا کہ 2 بجے چینلز کھول دیے جائیں گے، چینلز بند کرنے کا کام پیمرا کا ہے حکومت کا نہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پیمرا ممبران کو آزاد اور قابل ہونا چا ہیے اور ممبران کی عدم تقرری کی وجہ سے کئی ریگولیٹری ادارے متاثر ہو رہے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت نے کئی تقرریاں ایسی کی ہیں جو قواعد کے مطابق نہیں تھیں، کئی نشستوںپر نیم عدالتی اختیار استعمال کرنا ہوتا ہے، جسے صرف اہل افراد ہی استعمال کرسکتے ہیں، سیکرٹری اطلاعات نےچیئر مین پیمرا کی تقرری کیلئے اشتہار جاری کرنے کے حوالے سے بتایا تو چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اشتہار میں عمر کی حد 61 سال کیوں دی گئی ہے، کیا کسی خاص شخص کیلئے یہ حد رکھی گئی ہے،سیکرٹری اطلاعات نے کہا کہ تقرری کی مدت چار سال ہے اور ریٹائرمنٹ پر چیئر مین کی عمر 65 سال ہو گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ پیمرا آئیڈیل، آزاد ادارہ نہیں، پیمرا کو آزاد ادارہ بنانےکیلئے کیا اقدامات کیے جائیں؟ اگر حکومت پیمرا کو آزاد نہیں کرتی تو پھر ہمیںپیمرا قانون کا جائزہ لینا پڑے گا۔ سیکرٹری اطلاعات نے کہا کہ پیمرا کو آزاد با ڈی بنا نے کے حوالے سے سفا رشات اور اس معاملے کو کابینہ میں لے جانا پڑے گا جس کیلئےعدالت دو ہفتے کا وقت دے،جس پر عدالت نے کہا کہ اپ کو دس دن کا وقت دے رہے ہیں آپ ہدایات لیکر آجائیں اور عدالت کو بتادیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ اس میںتا ریخ دے دیں تو چیف جسٹس نے ازراہ تفنن کہا کہ آپ کو کبھی کسی چیز سے الرجی ہوئی ہے؟ مجھے کیس میں تاریخ ڈالنے میں سب سے زیا دہ الرجی ہو تی ہے، جس پر ایک قہقہہ بلند ہوا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ آپ کے علم میں ہو گا کہ کا بینہ کا ایجنڈا دو ہفتے پہلے جا ری کر دیا جاتا ہے اور ابھی اس معاملے کو اس میں شا مل کر نا مشکل ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے کو بھی کا بینہ کی میٹنگ میں ڈال دیں، دوران سماعت سابق چیئرمین پیمرا ابصار عا لم پیش ہوئے اور مقدمہ میںفریق بنا نے کی استدعا کی تو حامد میر نے کہا کہ شا ید ابھی اخلاقی طور پر ان کو فریق بنانا درست نہ ہو گا تا ہم عدالت نے ابصار عا لم سمیت دیگر صحافیو ں کو فریق بنا لیا،جسکے بعد عدالت نے میڈیا کارکنوں کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران اس کیس کو میڈیا کمیشن کیس سے الگ کرنے کا حکم جاری کیا تو درخواست گزار انڈیپنڈنٹ میڈیا گروپ کے وکیل بابر ستار نے اپنے موکل کی جانب سے میڈیا پر چیک اینڈ بیلنس قائم رکھنے کے حوالے سے دائر کی گئی درخواست کو بھی میڈیا کمیشن کیس کے ساتھ منسلک کرنے کی استدعا کی جسے فاضل عدالت نے منظور کرلیا۔ فاضل عدالت نے میڈیا کارکنوں کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی سے متعلق کیس کی سماعت کی تو درخواست گزار پریس ایسو سی ایشن کی جانب سے 11ایسے میڈیا ہائوسزکی نشاندہی کی گئی جو اپنے کارکنوں کو بروقت تنخواہیں ادا نہیں کررہے،جس پر عدالت نے درخواست گزار کو ہدا یت کی کہ وہ ان گیارہ میڈیا ہائوسز کے ایڈریس پیش کر یں تاکہ انکی انتظامیہ کو نو ٹس جا ری کیے جا ئیں، عدالت کو تنخواہیں ادا نہ کرنے والے دیگر اداروں سے بھی آگاہ کیا گیا تو عدالت نے دیگر اداروں کے خلاف بھی باقاعدہ درخواستیں داخل کر نے کی ہدایت کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے آئین کے آرٹیکل184/3 تحت یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیا ہم پرا ئیویٹ ادا رے کے ملازمین کی تنخواہوں کے معا ملے کو اس ارٹیکل کے تحت دیکھ سکتے ہیں یا نہیں ؟،بعد ازاں عدالت نے مذکورہ بالاحکم جاری کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔ این این آئی کے مطابق چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا سوالات پوچھ کر ہم نے پارلیمنٹیرینز کی توہین کردی ہے؟ ٹھیک ہے اب سوال نہیں پوچھیں گے۔سپریم کورٹ نے میڈیا کمیشن کیس میں فریق بننے کیلئے تحریک انصاف کی درخواست سپریم کورٹ نے منظور کرتے ہوئے اسے فریق بننے کی جازت دے دی ہے ۔