• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ کے مسائل اور اُن کاحل

اگرمالک کوحق پہنچ جائے، توپہنچانے والابری الذمہ ہے

سوال : ۔میں اوئل عمر میں دین سے ناواقف تھا،اس وقت میری عمر 18 یا 20 سال تھی،کبھی خالو کی جیب سے 10 روپے کبھی 50 کبھی 20 اس طرح اکثر نکال لیا کرتا تھا ۔وہ مجھے کسی سودا سلف کے لیے بجھواتے تو ان کی رقم میں سے بھی 10یا20 روپے نکال لیتا، اس کے علاوہ خالو کے بینک سے 8 ہزار نکلوالیے۔اب خالو اس دنیا میں نہیں رہے، ان کی بیوہ یعنی میری خالہ حیات ہیں،ان کے بچے بھی ہیں ۔اس صورت میں ازروئے شریعت وضاحت فرمادیں کہ میں ان کی ادائیگی کیسے کروں ؟تاکہ آخرت میں رسوائی سے بچ سکوں۔(نوٹ)ان کی بیوہ اور بچوں کو بھی پتا نہ چلے ،کوئی ایسی تجویزدے دیں۔

(عبداللہ آدم خیل، چمن)

جواب:۔اللہ پاک سے معافی مانگیں اورخالو کی جورقم بینک سے نکلوائی اور جتنی آپ نے وقفے وقفے سے اٹھائی ،ان سب کااندازہ لگاگرخالو کے ورثاء کو واپس کردیں۔ورثاء کے سامنے یہ وضاحت ضرروی نہیں ہے کہ یہ رقم آپ کس مدمیں انہیں واپس کررہے ہیں ۔اگربراہ راست واپس دینا مشکل ہوتو کوئی ایسی تدبیر اختیار کرلیں کہ یہ رقم اصل حق داروں کو پہنچ جائے،مثلاً ان کے نام پر ارسال کردیں۔شامی(4/283، کتاب اللقطۃ،ط؛ سعید)

بدعنوان افسران سے تعلق

سوال:۔ میں ایک سرکاری آفس میں ملازم ہوں اور یہاں میرے آفیسر کرپشن بہت زیادہ کرتے ہیں۔ وہ حلال وحرام میں کوئی فرق اور تمیز نہیں کرتے ۔ نماز بھی نہیں پڑھتے۔انہیں اسلام کی بنیادی تعلیمات کے بارے میںبڑی حدتک آگاہی ہے۔ کئی لوگوں نے انہوں نے نماز کی دعوت بھی دی، یہاں آفس میں نماز کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے، لیکن وہ متوجہ نہیں ہوتے ،کیاان آفیسرز کے ساتھ کھانااور رہنا جائز ہے؟

( یوسف اقبال)

جواب:۔آپ انہیں حکمت اوردانائی کے ساتھ نماز پڑھنےاورمنکر(کرپشن )سے بچنے کی تلقین کرتے رہاکریں ۔ملازمت کارسمی تعلق ان کے ساتھ رکھنے میں حرج نہیں ہے،البتہ دوستانہ تعلق رکھنے سے گریزکریں اوراصلاح احوال یا گناہوں سے نفرت کی وجہ سے ان سے میل جیل نہ رکھیں تو یہ بھی جائز ہے۔کھانے پینے کے وقت اگر وہ ناجائز آمدنی سے کھلائیں یا ان کی اکثر آمدنی ناجائز ہوتوان کا کھانے سے گریز کریں ۔( تکملۃ فتح الملھم(۳۵۶/۵) (عارضۃ الاحوذی لابن العربی المالکی (8/116) ابواب البر والصلۃ،ط: دارالکتب العلمیہ)

امام کے پیچھے سورۃالفاتحہ پڑھنا

سوال : ۔ کیا امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہوئے سورۃ الفاتحہ پڑھنا لازم ہے؟کچھ لوگ کہتے ہیں کہ لازم ہے کہ سورۃ الفاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور کچھ کہتے ہیں کہ امام کی قرأت مقتدی کی قرأت ہے، اورامام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ پڑھنے پر گناہ ملے گا۔ وضاحت فرما دیں۔

(دانش زیب،راولپنڈی)

جواب :۔ حنفیہ اور بہت سے ائمہ کے نزدیک مقتدی کے لئے جہری یا سری کسی بھی نماز میں امام کے پیچھے سورۃالفاتحہ پڑھنا درست نہیں ہے۔یہ موقف انہوں نے قرآن وحدیث کے دلائل پر اختیارکیا ہے ،جن کی تفصیل کاموقع نہیں ،اس لئے امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ کی قرأت سے گریز کریں، البتہ سری نمازوں میں دھیان کوبھٹکنے سے بچانے کے لیے اگرآپ سورۃ الفاتحہ کاتصورکرتے ہیں تو درست ہے۔(سورۃالاعراف: ۲۰۴۔عمدۃ القاری ۴؍۴۴۷، کذا فی بذل المجہود ۴؍۲۱۳ ۔إعلاء السنن ۴؍۵۰)

تعویذ کی حقیقت

سوال:۔تعویذ کی حقیقت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کیا ہے؟

جواب:۔تعویذ کی حیثیت دوا کی طرح ایک تدبیر کی ہے ،جس طرح دواپاک یاناپاک یاحلال یاحرام ہوسکتی ہے، اسی طرح تعویذبھی جائز یا ناجائز ہوسکتا ہے۔احادیث کو سامنے رکھ فقہا تحریر کرتے ہیں کہ جس تعویذ کامعنی مفہوم معلوم ہو اوراس میں کوئی شرکیہ کلمہ نہ ہو اوراس کے بذات خود مؤثر ہونے کا عقیدہ نہ رکھا جائے تووہ جائز ہے اورجو ان شرائط کے مطابق نہ ہو،وہ ناجائزہے۔بعض حدیثوں میں ’’تمیمہ ‘‘ کی ممانعت آئی ہے،مگر تمیمہ سے مرادقرآن وحدیث یا جائز کلمات پر مشتمل تعویذ نہیں ہے ،بلکہ اس سے مراد جانور کی ہڈی یاڈوری وغیرہ ہے، جسے زمانۂ جاہلیت میں لوگ گلے میں لٹکادیاکرتے تھے اوراس کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ یہ ہمیں آفات ومصائب سے بچاتا اورہماری مرادیں حل کرتاہے۔ظاہر ہے جب کسی چیز کے متعلق مؤثر حقیقی ہونے کاعقیدہ رکھاجائے گاتو وہ ناجائز ہی ٹھہرے گی،لیکن اگر جائز کلمات ہوں اور جائز مقصد کے لیے اس کااستعمال ہواورایک تدبیر کے طورپر اسے اختیارکیاجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔(شامی : 6 / 363، کتاب الحظر والاباحۃ، ط؛ سعید)

تعلیقِ طلاق کی ایک صورت

سوال:۔میراسوال تعلیق کے متعلق ہے۔ایک شخص کسی شرط پر طلا ق کو معلّق کرتا ہے اورپھر بیوی کوطلاق بائن دے دیتا ہے اورپھر شرط پائی جاتی ہے تو کیا حکم ہے،مثلاً شوہر کہتا ہے کہ اگرتو بلااجازت میرے گھر سے نکلی تو ،تو مجھ پر حرام ہے اورپھر بیوی کو حرام کے لفظ سے طلاق دے دیتا ہے اوربیوی بلااجازت گھر سے نکل جاتی ہے تو تعلیق کی وجہ سے طلاق واقع ہوئی یا نہیں ؟

جواب :۔اگر طلاق کو معلّق کیا اور پھر شرط کے وقوع سے پہلے بیوی کو ایک یا دوبائن طلاقیں دے دیں اورعدت میں یا عدت کے بعد تجدید نکاح کیا اورپھر شرط پائی گئی یا تجدید نکاح نہیں کیا ،مگر طلاق بائن کی عدت ہی میں شرط پائی گئی تو معلّق طلاق واقع ہوجائے گی، مثلاً شوہر نے بیوی سے کہا کہ اگر تو میری اجازت کے بغیر گھر سے نکلی تو تجھے طلاق ہے اور بیوی بغیر اجازت گھر سے نکلی نہ تھی کہ شوہر نے اسے ایک یادو بائن طلاقیں دے دیں اورپھرزوجین نے باہمی رضامندی سے عدت میں یا عدت کے بعد نکاح جدیدکرلیا اور نکاح جدید کرلینے کے بعد بیوی بغیر اجازت شوہر گھر سے نکل گئی تو معلّق طلاق واقع ہوگئی ،اگر شوہر تجدید نکاح نہ کرتا، مگر بیوی بائن طلاق کی عدت میں بدون اجازت شوہر نکل جاتی توپھر بھی معلّق طلاق واقع تھی۔بناءبرایں آپ کے ذکر کردہ صورت میں دوطلاقیں ہوگئی ہیں ۔

اپنے دینی اور شرعی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

masail@janggroup.com.pk

تازہ ترین
تازہ ترین
تازہ ترین