• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شام میں قیامت کے مناظر

شام کا علاقہ مشرقی غوطہ آٹھ دس یوم سے قیامت کے مناظر پیش کر رہا ہے۔اقوام متحدہ کی بار بار کی اپیلوں کے باوجودوہاں فضائی حملے جاری رہے۔ باغیوں کے زیر قبضہ علاقے میں ہلاکتیں چھ سو سے تجاوز کرگئیں ۔گو کہ ا قو ا م متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے فریقین سے بار بار اپیل کی کہ وہ 30 دنوں کے لیے جنگ بند کردیں تاکہ متاثرین کے لیے امدادی کام کیے جاسکیں ،مگر انہیں کسی نے نہیں سنا ۔ روس اور امریکا ایک دوسرے پر الزام لگارہے ہیں اور کہتے ہیں کہ جنگ بندی کے لیے ضروری ہے کہ تمام فر یق اس پر عمل درآمد کریں ،کیوں کہ ایک فریق حملے بند کرتا ہے تو فوراً کوئی اورفریق حملے شروع کردیتا ہے۔روس اور ا مریکاکے علاوہ شام کی سرکاری افواج،یعنی صدر بشار الا سدکے بم بار طیارے بھی اپنے علاقوں پر حملے کررہے ہیں۔ گو کہ ان کا مقصد باغیوں کو نشانہ بنانا ہے،مگر ان حملو ں میںعام شہری، عورتیں اوربچےسب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ صرف تین دن کے حملوں میں چھ سو سے زیادہ افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ غوطہ کیا ہے اور وہاں یہ سب کیوں ہورہا ہے۔ شام کے نقشے پر نظر ڈالیں تو اس کے دارالحکومت،دمشق کے قریب ہی غوطہ کا قصبہ اور دریائے بر دی نظر آتے ہیں۔ یہ قصبہ پہلے نخلستان تھا جو دریائے بر د ی کے اردگرد قائم تھا۔اسی قصبے سے آگے دریائے بر د ی کے کناروں پر دارالحکومت دمشق قائم کیا گیا تھا۔ غوطہ اور د مشق، شام کے جنوب مغربی علاقے میں واقع ہیں اور غو طہ دمشق کے مشرق کا مضافاتی علاقہ ہے جس کی سرحدیں د مشق سے ملتی ہیں۔ یوں سمجھ لیجئے کہ غوطہ دمشق کے لیے ایسے ہی ہے جیسے اسلام آباد کے لیے راول پنڈی،جہاں سے روزانہ ہزاروں لوگ دارالحکومت کام کرنے کے لیے جاتے ہیں۔

شام میں بغاوت کا آغاز 2011ہی میں ہوگیا تھا جب مختلف شہروں میں بشارالاسد کی حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تھے۔ ان مظاہروں میں مشرقی غوطہ کے لوگ بھی شامل ہوگئے جن کے خلاف اسد حکو مت نے طاقت استعمال کی اور کئی لوگ مارے گئے۔ اس کارروائی کے بعد بغاوت توکیا ختم ہوتی مشرقی غوطہ کے لو گ مزید جنگ جو بنتے گئے اور انہوں نے باقاعدہ با غیو ں کا ساتھ دینا شروع کردیا۔انہوں نے باغیوں کے سا تھ مل کر دمشق پر حملےکرنےشروع کردیئے۔ 2012 میں ان علاقوں میں شدید لڑائی ہوئی۔چناں چہ 2013 سے مشرقی غوطہ کا علاقہ شام کی سرکاری فوج کے محاصرے میں رہا ہے۔

ابتدا میں باغیوں کا خیال تھا کہ مشرقی غوطہ سے دمشق میں داخل ہوکر دارالحکومت پر قبضہ کرلیا جائے گا اور دمشق کے کچھ علاقے، جیسے یرموک وغیرہ، باغیوں کے قبضے میں آبھی گئے تھے۔ مگر شام کی سرکاری فوج کو نہ صرف روس بلکہ ایران اور حزب اللہ سے بھی مدد ملی جنہوں نے باغیوں کو پس پا ہونے پر مجبور کردیا اور مشرقی غوطہ کو گھیرے میں لے لیا۔ اس محاصرے کو پانچ سال ہوچکے ہیں، مگر شامی ا فواج نے اب تک کوئی فیصلہ کن کارروائی نہیں کی تھی کیوں کہ اس کے نتیجے میںبڑی تعداد میں عام لوگوں کی ہلا کتو ں کا خدشہ تھا۔

محاصرے کی وجہ سے تقریبا سو مربع کلو میٹرزکے علا قے میںپانچ لاکھ کے قریب افراد محصورہوگئے ا و ر ا شیا ئے خورونوش کی شدید قلت ہوگئی۔ شام کی خانہ جنگی میں 2015 کے آس پاس ایسا لگ رہا تھا کہ باغی حکومت پر قبضہ کرنے میں کام یاب ہوجائیں گے۔ مگر 2015 میں بشارالاسد کی حکومت نے روس سے فوجی مد ا خلت کی باقا عدہ درخواست کی تو وہ بڑے پیمانے پر اس کی مدد کرنے کے لیے میدان میں کود پڑا۔ ستمبر 2015 کے بعد پہلے تو روس نے صرف باغیوں پر فضائی حملے کیے۔مگر پھر ملک کے شمال مغرب میں واقع خمیمین کے ہو ا ئی اڈے سے با غیوں پر بڑے حملے کیے گئے اور درجنوں باغی گروہوں کو نشانہ بنایا گیا جن میں داعش کے علاوہ ا لنصرہ فرنٹ اور القاعدہ وغیرہ بھی شامل تھے۔ 2017 میں مشرقی غوطہ کے باغیوں میں پھوٹ پڑ گئی ۔ اب غو طہ ، جو دمشق سے صرف پندرہ کلو میٹر دورہے اور جہا ں جانے میں بہ مشکل آدھا گھنٹہ لگتا ہے،نیا محاذ جنگ بن گیا جس میں بھانت بھانت کے گروہ آپس میں لڑرہے تھے۔ ان میںسے ا یک کا نام تھا ہیت التحریرالشام۔ عربی میں ہیت کا ایک مطلب ہوتا ہے تنظیم یا آر گنا ئز یشن۔ تحریر، حریت سے نکلاہے،یعنی آزادی۔ اس طرح ہیت التحریرالشام کا مطلب ہوا تنظیمِ آزادیِ شام۔اسے عام طور پر تحریرِ شام بھی کہا جاتا ہے جو شام میں القاعدہ کی ذیلی تنظیم ہے۔ اسے جنوری 2017 میں بنایا گیا تھا جب جبہتہ فتح الشام(جس کا نام پہلےالنصرۃ فرنٹ تھا)، انصارالدین اور جیش السنت کے ساتھ مل گئی۔ پھر اس میں لواءالحق اور حرکت نورالدین زنگی نامی تنظیم بھی شامل ہوگئی۔ان کے ساتھ آگئی فیلق الرحمن، جو آزاد شامی فوج کے ساتھ تھی۔ یاد رہے کہ آزاد شامی فوج ان فوجیوںپر مشتمل تھی جو سر کا ر ی فوج سے باغی ہوکر الگ ہوگئے تھے اور بشا ر ا لا سد کی حکومت گراناچاہتےتھے۔اس طرح تحر یرالشام اور فیلق الرحمن ایک بڑا جنگ جو گروہ بن گیا جو ایک اور باغی گروہ، جیش الاسلام کے خلاف منظم ہوگیا۔ لیکن یہ جیش الاسلام کیا ہے؟دراصل اسے پہلے لواء اسلام کہا جاتا ہے۔ لواء عر بی میں بریگیڈ یا دستے کو کہتے ہیں۔ اس طرح لواء الحق کا مطلب ہواحق کا دستہ اور لواء الاسلام کا مطلب ہے اسلام کا دستہ۔یہ دونوں دستے باہم دست و گریبان ہیں۔

جیش الاسلام دمشق کے آس پاس سرگرم ہے۔اس کا مرکزایک اور مضافاتی قصبہ دوما بن گیا جو دمشق کے شمال مشرق میں صرف دس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس طرح دمشق کو غوطہ اور دوما دونوں سے خطرات لاحق ہو گئے۔ جیش الاسلام اور تحریرِ شام دو بڑے گروہ ہیں جنہیں سعودی عرب کی مدد حاصل رہی ہے۔ایک سال سے د مشق کے مضافاتی علاقوں دوما اورغوطہ میں باغیوں کے جو گروہ آپس میں لڑرہے ہیں اُن میں ایک طرف تحر یر الشام اور فیلق الرحمن ہے اور دوسری طرف جیش الاسلام۔

یہ لوگ آپس میں بھی لڑتے اور دمشق پر بھی حملے کرتے رہے ہیں۔ جب شامی سرکاری افواج کو ملک کے دیگر علاقوں میں روس کی مدد سے فتح حاصل ہوئی تواس نے دمشق کے مضافات میں باغیوں کو نشانہ بنانے کے لیے 2018 کے شروع میں کارروائی کا آغاز کیا جو گزشتہ چنددنوں میں شدید ہوگئی ہے۔ صرف 2018 کے آغاز سے اب تک اندازوں کے مطابق ہزار سے زیادہ لوگ وہاںہلاک ہوچکے ہیں۔ان حالات میں چوبیس فروری کو سکیورٹی کونسل نے جنگ بندی کی اپیل کی جو کسی نے نہیں سنی۔

اب دوما اور غوطہ میں سرکاری فوج کی کارروائی کے دوران پہلے بم باری کی جاتی ہے اور پھر بری فوج داخل کی جاتی ہے۔جب سرکاری فوج کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑ تا ہے یا مزاحمت زیادہ ہوتی ہے تو روسی بم بار طیارے حملے کرتے ہیں۔ سرکاری فوج طیاروں سے پمفلٹ گرا رہی ہے جن پر لکھا ہوتا ہے کہ عام شہری وہاں سے نکل جائیں۔ مگرعام لوگ جائیں تو جائیں کہاں اور کیسے؟ کیوں کہ جب تک باغی موجود ہیں وہ عوام کو نکلنے نہیں دیں گے۔ پچیس فروری کو شام کی بری فوج نے کئی علاقوں پر قبضہ کرلیا اور باغی مارے گئے یا بھاگ گئے۔

اب وہاںصورت حال یہ ہے کہ تقریباً پانچ لاکھ افراد حملو ں کی زد میں ہیں اور باغی ہتھیار نہیں ڈال رہے۔دوسری طرف شامی اور روسی افواج اب فیصلہ کن کارروائی کررہی ہیں۔ اقوام متحدہ چِلّا رہی ہے اور امت مسلمہ سو رہی ہے۔یہاں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ اسلامی مما لک کریں تو کیا کریں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جب شام کی خانہ جنگی شروع ہوئی تو شام پر شیعہ اقلیت کی حکومت تھی جیسا کہ صدام حسین کے دور میں عراق پر سنی اقلیت کی حکومت تھی۔ شام کی خانہ جنگی میں سعودی عرب نے سنی با غیوں کا ساتھ دیا اور ایران نے شیعہ حکومت کا۔ پھر امریکا نے سعودی عرب سےمل کر باغیوں کی مدد کی اور روس نے ایران کے ساتھ مل کر شامی حکومت کا دفاع کیا۔اب اسلامی ممالک کو فرقہ واریت سے بلند ہو کر سوچنے کی ضرورت ہے۔ پہلے تو انہیں اپنے ملکوں میں جمہو ریت لانی ہوگی جس کے ذریعے انتخابات ہوں اور ا کثر یت پر مبنی جمہوری حکومتیں قائم ہوں نہ کہ خلیجی ریاستوں کی طرح بادشاہتیں اور نہ شام کی طرح خاندانی آ مر یت ۔ پھر اسلامی ممالک کو امریکا اور روس کی ستر سالہ لڑائی میں مزید چا ر ہ بننے سے انکار کردینا چاہیے۔مگر ایسا کرنے کے لیے خود اپنے پیروں پر کھڑے ہونا پڑے گا جو آمرانہ حکومتوں میں ناممکن ہے۔

اسلامی ممالک کو ایران اور سعودی عرب پر زور دینا چاہیے کہ وہ شام کومزید آگ میں نہ جھونکیں اور پھر امریکا اور روس سے گزارش کرنی چاہیے کہ اس خانہ جنگی سے وہ الگ رہیں۔ گزارش اس لیے کہ کوئی بھی اسلامی ملک اس حالت میں نہیں ہے کہ کسی بھی مغربی ملک سے اپنی کوئی با ت منواسکے۔ حتی کہ اسرائیل جیسا چھوٹا ملک بھی کسی ا سلا می ملک کو خاطر میں نہیں لاتا۔یہ آج کی بہت تلخ حقیقت ہے۔

تازہ ترین