• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
??? ????

تیسری قسط

 چوروں، ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ لوگوں کے بھی اصول ہوتے تھے۔ آج کی نسل کو یہ فقط قصّہ ہائے الف لیلیٰ ہی لگیں گے۔ انگریزی میں ایک ترکیب چلی آرہی ہےHonour among thieves جو چوروں کے درمیان موجود اخلاقیات کی عکاس ہے۔ بہرحال، منشا کے لڑکپن کے ڈاکو کا ایک قصّہ ہے۔ ڈاکو کا تعلق بوہڑ باٹھ سے تھا اور وہ ٹھٹھا کلیاں میں ایک خوب پلی ہوئی گھوڑی چوری کرنے آیا تھا۔ وہ گھوڑی کھولنے لگا، تو گھر کی بہو بانو کوپتا لگ گیا۔وہ گھوڑی سے چمٹ گئی اور ڈاکو سے کہنے لگی’’بھائی ڈاکو! اگر میری لاش لے کر جانی ہے، تو لے جا، میں گھوڑی نہیں لے جانے دوں گی۔‘‘ڈاکو نے اُسے جھٹک ڈالا اور گھوڑی لے گیا۔ جب ڈاکو کو پتا چلا کہ اُس کے گاؤں کی ایک لڑکی، ٹھٹّھا کلیاں کے ایک گھرانے کی بہو ہے اور اس کے گاؤں کا ایک لڑکا محمد منشا(منشایاد) بھی وہاں بغرضِ تعلیم مقیم ہے تو وہ خاصا پشیمان ہوا۔ اُس کی شرمندگی اتنی بڑھی کہ وہ گھوڑی کو واپس لے گیا اور بانو کے حوالے کرتے ہوئے بولا۔ ’’لے میری ماں! اپنی گھوڑی سنبھال اور مجھے جلدی سے معافی دے دے۔‘‘ منشایاد کی زبان میں واقعے کی روداد یوں ہے’’اتنی خوب صورت،عزیز اور قیمتی گھوڑی چوری ہوجانے پر نمبردار اور اس کی بیٹی ہی نہیں، پورا گاؤں اداس تھا۔ دور دور سے لوگ افسوس کرنے آئے۔ بانو نے کئی روز تک کھانا نہیں کھایا تھا۔ پولیس میں رپورٹ کروائی گئی، مگر کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ نمبردار نے ہرطرف سے مایوس ہوکر مخبری یا نشان دہی کرنے والے کے لیے بھاری رقم کے انعام کا اعلان کررکھا تھا۔ اس کا اندازہ درست نکلا، یہ اسی گھوڑی کا ذکر ہورہا تھا ، چاچا ولواس کے پاس آیا اور بولا۔ ’’بیٹی! لڑکے تمھارے سسرالی گاؤں کی گھوڑی کی شہرت سن کر اسے بھگالائے تھے۔ واقعی بہت خوب صورت اور قیمتی جان وَر ہے، لیکن اگر انھیں معلوم ہوتاکہ وہاں اپنے گاؤں کی لڑکی بیاہی ہوئی ہے، تو وہ کبھی اس طرف کا رخ نہ کرتے۔یہ سب لاعلمی میں ہوا۔اب ہم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ہم گھوڑی واپس کردیں گے۔‘‘ دل چسپ بات تو یہ ہے کہ اُس ڈاکو کے گھر سے سارا علاقہ واقف تھا اور اُس نے ایک سو برس سے زیادہ عمر پائی۔ اُسی ڈاکو سے وابستہ ایک اور واقعہ ہے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں طالب علم منشا گھر آیا ہوا تھا۔ بوریت سے تنگ آکر اُس نے ضمناً دوست احباب سے کہہ دیا کہ گاؤں میں ریڈیو تک نہیں ہے، جس پر خبریں یا موسیقی کے پروگرام سنے جاسکیں۔ یہ بات اُس ڈاکو کے کانوں میں جا پڑی۔ چند روز بعد وہ کسی کا نیا ریڈیوچھین کر لے آیا اور گاؤں میں موجود ڈیرے پر رکھوا دیا۔ تب عمومی مزاج سے ہٹ کر دل چسپ اور منفرد کردار عام زندگی میں نظر آجاتے تھے، یا عام زندگی اتنی یکسانی کی حامل ہوتی تھی اور لوگ دوسروں کی زندگیوں میں اس درجے دل چسپی لیتے تھے کہ اُن کے خبط اورکجیاں نمایاں ہوجاتی تھیں۔ نواب، منشا کے اسکول اس کی خیریت پوچھنے آجاتا تھا، ماں کی وفات کی اطلاع بھی وہی لے کر آیا تھا۔ نواب محمد کم تعلیم یافتہ، ذات کا موچی اور پیشے کے اعتبار سے دکان دار تھا، البتہ اُسے اپنے پیشے سے زیادہ دیگرعلوم حاصل کرنے کی چاٹ تھی۔ تجسّس اُس کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا۔ کبھی وہ رمل اور نجوم کا علم حاصل کرتا، تو کبھی ریچھ، بندر کا تماشا دکھانے والوں کے ساتھ چلا جاتا۔ وہ دنوں تک غائب رہتا اور پھر ایک دم پردئہ غیب سے نمودار ہوجاتا۔اپنے کاروبار میں اُس کی دل چسپی کا یہ عالم تھا کہ وہ سونے کو ہاتھ لگاتا، تو وہ مٹّی ہوجاتا۔ وہ ایک ایسا کردار تھا، جو اپنی سائکل پرمجنونانہ درجنوں، سیکڑوں میل کا سفر طے کرجاتا اور واپسی پر کئی الّم غلّم اشیا رستے سے اٹھالاتا۔اُس کا ایمان تھا کہ ہر چیز کا کوئی نہ کوئی مصرف ضرور ہوتا ہے۔ وہ سیم نالے میں مچھلیاں پکڑنے اُترتا اورسانپ پکڑلاتا۔چورن، خمیرہ، اچار،عرق، شربت تیار کرنا اُس کے لیے بچّوں کا کھیل تھا، البتہ کوشش کے باوجود وہ سونا نہیں بناپایا تھا۔کپڑے دھونے، غسل کرنے کا صابن،مہریں، کھٹی میٹھی گولیاں اور رنگین کاغذ کے کھلونے بناتے بناتے اُس نے ایک مرتبہ مسجد کا گھڑیال ٹھیک کیا تو گھڑی سازی کا پیشہ بھی اختیار کربیٹھا۔تقسیم کے فسادات ہوئے تو اُس نے بائیسکل کی نالیاں استعمال کرتے ہوئے بندوقیں بناڈالیں۔ وہ ان اشیا سے جو رقم کماتا، وہ دوسری اشیا تیار اور ایجاد کرنے پر خرچ کرڈالتا۔ایک مرتبہ اُس نے منشا سے ایسے ریڈیو کا ذکر کیا، جسے خود تیار کیا جاسکتا تھا۔ منشا نے بھی اُن دنوں ایک رسالے میں ایک مضمون پڑھا تھا، جس کا عنوان تھا’’صرف پانچ روپے میں خود ریڈیو بنایئے۔‘‘منشا نے اُس مضمون کا ذکر نواب سے کردیا۔ وہ رسالہ منشا کے ایک دوست کے پاس تھا، جو وہاں سے پچیس میل دور رہتا تھا۔اُن دنوں گرمیوں کی چھٹیاں تھیں۔ سو، دونوں دوست سائیکل پر فاصلہ طے کرکے دوست کے گھر پہنچے، اور رسالہ حاصل کیا۔ اُس سے اگلے روز پینتیس میل کا فاصلہ طے کرکے لاہور پہنچے اور ریڈیو بنانے کا ضروری سامان کباڑیے سے خریدا۔اس سامان میں ہیڈفون، سون مکھی ،سُرمے کی ڈلی، ایریل اورکوائل بنانے کے لیے تانبے کے تار اور دیگر سامان شامل تھا۔

دونوں دوست تن دہی سے ریڈیو بنانے میں جت گئے۔ اُنھوں نے حسب ِ ہدایات ریڈیو تیار کرلیا، پراُس میں زندگی نہ دوڑی،کوئی آواز نہ برآمد ہوئی۔یہ بات منشا کے لیے بہت حوصلہ شکن تھی۔ منشا اپنے اسکول کا چھٹیوں کا کام کرنے میں مصروف ہوگیا۔ ایک رات، منشا مسجد میں باجماعت نماز عشاء پڑھ رہا تھا کہ نواب کے چھوٹے بھائی نے مسجد کے دروازے پر آکر آواز لگائی ’’بھاء جی! ریڈیو بولنے لگا ہے۔‘‘ منشا، نواب کے گھر لپکا اور وہاں جاکر ہیڈ فون کانوں سے لگا یا تو ایک مدھر آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی ’’یہ ریڈیو پاکستان، لاہور ہے۔ اب آپ شمشاد بیگم اور لتا منگیشکر کا گایا ہوا فلم دیدار کا گیت سنیے‘‘اور ایک گیت سنائی دینے لگا’’بچپن کے دن بھلا نہ دینا، آج ہنسے کل رُلانہ دینا۔‘‘بعد ازا ں، منشا نے نواب پر پنجابی میں ایک افسانہ لکھااور اُسے اردو کا روپ بھی دیا۔یہ اس کے مجموعے’’وگداپانی‘‘ میں شامل ہے اور کئی انعامات جیت چکا ہے۔افسوس، نواب زیادہ دیر زندہ نہ رہا۔ اُس نے منشا پر بہت گہرا اثر چھوڑا۔جانے سے پہلے منشا کو گیت،گانے سننے کا بے انتہا شوق بھی دے گیا۔منشا کی زندگی میں مشاہدے اور تجربے میں جو کردار بچپن نے ادا کیا، وہ بعد کی یک رنگی سرکاری ملازمت کے یکساں شب و روز نہ ادا کرسکے۔اسکول میں وہ ایک ذہین اور لائق طالب علم کے طور پر جانا جاتاتھا۔ وہاں سے آگے اُس کی زندگی کی ٹرین کا اگلا اسٹیشن گورنمنٹ اسکول آف انجینئرنگ تھا۔جب وہ انجینئرنگ اسکول میں داخلہ لینے کے لیے پہنچا، تو وہاں میڈیکل سر ٹیفکیٹ کو لازمی قرار دیا گیا۔ میڈیکل سر ٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے اسے لیبارٹری کے متعلقہ انچارج کو پانچ روپے بہ طور رشوت دینے پڑے۔یہی رقم اس کے لیے زادِراہ تھی۔وہ اسناد،مصدّقہ نقول اورمیڈیکل سر ٹیفکیٹ لیے شیخوپورہ کے بتّی والے چوک پر پہنچا،تو ایک طوفانِ بادوباراں نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وہ ساری رات دستاویزات کو سینے سے لگائے، ایک دکان کے تھڑے پربیٹھا رہا۔ صبح وہ کچہری چلاگیا تاکہ اپنے گاؤں سے آئے کسی شخص سے اُدھار پیسے لے کر کھانا کھا ئے اور سفر کرسکے۔ وہاں اُسے اپنے گاؤں کا کوئی شخص تاریخ بھگتنے،جیل کے قیدی سے ملاقات یا ضمانت کرواتے ،نظرنہیں آیا۔جب وہ مایوس ہوگیا، تواچانک اسے گاؤں کا ممدانائی نظر آیا۔منشا نے اُس سے پیسے اُدھار لیے، کھانا کھایا اور چاہ سرکاری کے لاری اڈے جاپہنچا۔

بہت مدّت بعد منشا سب انجینئر سے ترقی کرکے ایکسئن کے عہدے تک جا پہنچا، تو گاؤں یاترا کے دوران ممدانائی اُس سے ملنے آیا اور سلام کرکے زمین پر بیٹھ گیا،تو منشا نے بہت عزت سے اُسے اُٹھا کر اپنے ساتھ بٹھایا اوراسے اُس کا احسان یاد کروایا۔انجینئرنگ میں داخلے سے پہلے اُس نے ’’کنول‘‘ کے عنوان سے ایک افسانہ لکھا اور’’شمع‘‘ لاہور کو اشاعت کے لیے بھجوادیا۔ کافی وقت گزرنے کے باوجود اُسے کوئی جواب نہ ملا تو وہ شاہ عالمی، لاہور میں اُس رسالے کے دفتر جا پہنچا۔ چِق اُٹھا کر اندر جھانکا تو دیکھا کہ مدیر، جو ایک مولانا تھے، اداکارہ صبیحہ خانم کی ایک بڑی سی تصویر غور سے دیکھ رہے تھے۔ منشا نوجوان تھا، جذباتی تھا اورتخلیق کے جذبے سے معمور بھی، سو مدیر کے سامنے بے باکی سے بول اُٹھا کہ اُس کا افسانہ کیوں شایع نہیں ہوا۔ مدیر نے منشا کو تحمّل سے بٹھایا، کھانا کھلایا اور نائب مدیر کو افسانہ ڈھونڈ کر لانے کو کہا۔ جب افسانہ آیا تو اسے بہ غور پڑھااورمنشا سے چند سولات کیے۔’’کیا تم نے خود افسانہ لکھا ہے؟‘‘’’کیوں میں خود نہیں لکھ سکتا، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ میں نے چوری کیا ہے؟‘‘منشا نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔’’اس میں کردار ہندو کیوں ہیں؟‘‘ مولا نا نے پوچھا۔’’اس میں بیوی شوہر کے لیے جس قسم کی قربانی دیتی ہے، وہ ایک پتی ورتاستی ہوجانے والی ہندو عورت ہی دے سکتی ہے کہ اسے یہی سکھایا جاتا ہے۔ دوسرے یہ بھی خیال تھا کہ کہیں کوئی مولوی اعتراض نہ کردے۔‘‘مولوی کا ذکر سن کر مولانا مسکرائے اور اسے یقین دلایا کہ افسانہ ضرور چھپے گا، البتہ انھوں نے مشورہ دیا کہ منشا کو اپنے کیریر پر زیادہ توجّہ دینی چاہیے، وگرنہ اس کا حال بھی خود مولانا جیسا ہوجائے گا۔اُس نے لالہ موسیٰ ریلوے اسٹیشن پر ’’شمع، لاہور‘‘ میں اپنا پہلا افسانہ اکتوبر1955 ء کو دیکھا۔

انجینئرنگ اسکول میں داخل ہی ہوا تھا کہ وہاں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ سینئر طلبہ چاہتے تھے کہ انھیں اوورسیرکی جگہ سب انجینئر کہا جائے اور اس کورس کو ڈپلوما قرار دیا جائے۔منشا کے لکھنے پڑھنے کے شوق سے طلبہ واقف ہوچکے تھے۔ اُسے نعرے ایجاد کرنے اور پمفلٹ لکھنے کی ذمّے داری تفویض کی گئی۔ اس نےیہ ذمّے داری بہ خوبی پوری کی۔جلد ہوسٹل کی رسّا بندی کردی گئی اور پولیس اس پر قابض ہوگئی۔ طلبہ کو برطرف کردیا گیا۔باقی لڑکوں کی طرح منشا بھی گھر لوٹ آیا۔گویا اُڑنے سے پہلے ہی اُس کے پرَکتردیے گئے۔ اس انجینئرنگ اسکول کے پرنسپل بنگالی تھے، ان کا نام محمد موسیٰ تھا۔ انھوں نے دانش وتدبیرسے معاملہ یوں سلجھایا کہ تمام طلبہ کے والدین کو ایک ہی عبارت کے خطوط لکھے ’’آپ کا لڑکا چند شرپسند لڑکوں کے ورغلانے پر اسکول سے بھاگ گیا ہے، اگر وہ ایک ہفتے میں واپس آجائے، تو اُسے کچھ نہیں کہاجائے گا، ورنہ اس کا نام اسکول سے خارج کردیا جائے گا اور ادا کی ہوئی داخلہ اور سالانہ فیس ضبط کرلی جائے گی۔‘‘ مگرمنشا ہفتہ پورا ہونے سے پہلے ہی واپس پہنچ کر تعلیمی سفر کا آغاز کرچکا تھا۔

سفر کا آغاز تو اس نے تخلیقی میدان میں بھی کردیا تھا۔ ابتداً وہ شاعری بھی کرتا تھا۔ ایک مرتبہ اس نے ایک شرط کے نتیجے میں ولایت ماچھی کی دکان پربیٹھے بیٹھے پنجابی میں باراں ماہ لکھ لیا۔ ولایت نے وہ قصّہ لاہور جاکر چھپوالیا اور بسوں میں گاکر قصے بیچنے والوں کے حوالے کردیا۔ اس کے ساتھ منشا کی ایک ناکام محبت کی غم گین فرضی داستان بھی گھڑکر منسوب کردی۔ گویا بہت سے مسافروں کی ہم دردی منشا سے اُس کی ناکام محبت کی وجہ ہوگئی جو اُس نے کی ہی نہ تھی۔اِدھر منشا کو ڈگری ملی اور وہ اپنے گاؤں کا سب سے زیادہ تعلیم یافتہ نوجوان ٹھیرا، اُدھراُس کے گھر کی چوکھٹ پر رشتوں کی بھرمار ہوگئی۔ منشا کی خواہش شہر کی لڑکی سے بیاہ کی تھی۔ اُنھی دنوں وہ لاہور اپنی خالہ کے ہاں گیا، تو اُسے خالہ کی چھوٹی بیٹی پسند آگئی۔ اُس نے والد سے اپنی پسند کا تذکرہ کیا اور وہ رشتہ طے کرآئے۔ دیہی زندگی کی سیاست یہاں بھی در آئی۔ اِدھر اُس کا رشتہ طے ہوا، اُدھررشتے کے خواہش مندوں نے اسے ذاتی انا کا مسئلہ بنالیا۔ بہرحال، اُس کے خالو آگے بڑھے اور اس کی تقررّی محکمہ تعمیرات، راول پنڈی میں ہوگئی۔ رشتہ طے ہونے کے بعد وہ خالہ کے ہاں گیا، تو اس کی ہونے والی بیوی نے دروازہ کھولا اور بے اختیار بولی ’’سلام بھائی جان۔‘‘راول پنڈی میں اُس کی سکونت تیلی محلے میں ہوئی۔ وہاں اُس کے ماتحت ورک چارج میں دو لڑکے بہت اچھا کام کرنے والے تھے، ایک تیز و طرار،محمد اقبال اور دوسرا میٹرک پاس، بھولا بھالا اختر رشید۔ اخترر شید، بعد ازاں رشید امجد کے نام سے معروف ہوا اور بہ طور ادیب اُس کی خاصی پزیرائی ہوئی۔ گو، رشید امجد تب تک زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھا،پر نفیس ذوق رکھتاتھا اورنہایت مہذّب بھی تھا۔اُسے کتابیں پڑھنے، فلمیں دیکھنے اور ریڈیو پر گانے سننے کا بہت شوق تھا۔جلد منشا، پنڈی کے ادبی حلقوں میں آنے جانے لگا۔ ایک مرتبہ وہ گھر لوٹا تو اُس کا سامان ایک قبضہ گروپ باہر پھینک رہا تھا۔ محمد منشا اور اُس کے سامان کو رشید امجد اپنے محلے، گورونانک پورہ میں واقع گزشتہ گوردوارے کی بالائی منزل میں اپنے گھر لے آیا۔ رشید کی والدہ بہت نیک اور سادہ خاتون تھیں۔ منشا اُنھیں ’’خالہ جی‘‘ کہنے لگا۔ رشید کی والدہ کو شکایت تھی کہ رشید گھر دیر سے آتا اور پوری تن خواہ نہیں دیتا۔ منشا نے رشید کی پوری تن خواہ اُس کی والدہ کو لاکر دینی شروع کردی۔ گویا وہ انھی کے گھر کا فرد بن گیا۔ بہ قول رشید امجد، اُس کی والدہ کو منشا کا ’’پینڈوپَن‘‘ اورسادگی بھاگئے تھے۔ بعد ازاں، وہ اگر منشا کے ہاں چند روز قیام کے لیے بھی چلا جاتا تو والدہ اعتراض نہ کرتیں۔یہاں عطاء الحق قاسمی یاد آتے ہیں۔ اُن کے والد بہت مذہبی رجحان رکھتے تھے اور فلم و موسیقی ایسی لغویات کو بہت برا سمجھتے تھے۔ اُن کی خواہش تھی کہ عطااچھے لوگوں کی صحبت میں بیٹھیں۔چناں چہ جب عطانے ایک داڑھی والے باشرع دوست سے والد کو متعارف کروایا، تو وہ بیٹے کی راست روی اور شرافت پر بہت خوش ہوئے۔ انھوں نے عطا کو صرف اس دوست کے ساتھ باہر جانے کی اجازت دے رکھی تھی۔عطا صاحب یہ کہتے ہوئے اس دوست کے شکر گزار ہوتے ہیں کہ انہوں نے اپنے اس نمازی دوست کے ساتھ اور اس کی وجہ ہی سے اپنے زمانے کی سبھی معروف فلمیں دیکھ لیں۔بہرحال، منشا اور رشید امجد میں دوستی کا یہ تعلق منشا کی وفات تک چلا۔ ان میں کبھی معاصرانہ چشمک نے جنم نہ لیا کیوں کہ دونوں کا انداز ِ تحریر جدا جدا تھا۔

منشا کومَری کا سلسلۂ کوہ بہت پسند تھا، ادیب تھا، سو لطافت ِ مزاج ایک خاصّہ تھی۔ اس نے اپنی خواہش پر تبادلہ مری کروالیا۔ وہاں اس کی ملاقات دیگر ادیبوں کے علاوہ معروف شاعر مصطفیٰ زیدی سے بھی رہی۔مری میں موسمِ گرما ختم ہوا، سیاح رخصت ہوئے، درختوں کے پتے جھڑے اور برف باری شروع ہوگئی۔ آمدورفت کے ذرائع مسدود ہوئے اور شہر ویران ہوگیا۔ہرسو اداسی اُترآئی ۔وحشت نے منشا کے دل میں جوگ سنبھالا۔ اِس اداسی میں اُس کا واحد رفیق ریڈیو تھا ۔وہ لتا اور طلعت محمود کے گانے سنتا اور دل بہلاتا۔مَری میں اس کا ایک عجب شخص سے پالا پڑا۔ راول پنڈی کے قریب، روات میں ریڈیو ٹرانس میٹرزیرِتعمیر تھا۔ وہاں کوئی شخص رات گئے تنصیبات کی آزمایش کے لیے من موہنے، اداس اور دل پزیر گانے لگادیتا۔ (جاری ہے) 

تازہ ترین
تازہ ترین